چودھری محمد علی: چند یادیں


بچپن میں جس نامور شخصیت کا بہت ذکر سننے کو ملا وہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم چودھری محمد علی تھے۔ اس کے چند اسباب تھے۔ چودھری صاحب میرے سب سے چھوٹے خالو چودھری علی احمد مرحوم کے فرسٹ کزن تھے۔ لیکن یہ بنیادی سبب نہیں تھا۔ اصل سبب ان کا ارائیں برادری سے تعلق تھا۔

مجھے یاد ہے کہ گاؤں میں جب کبھی خوشی غمی کے موقع پر اکٹھ ہوتا تو چودھری صاحب کا ذکر بھی آ جایا کرتا تھا۔ بس ایک ہی بات سننے کو ملتی تھی، چھڈو جی اوہ وی کوئی بندہ اے۔ ایڈے وڈے وڈے عہدیاں تے رہیا تے کسی نوں نوکری وی ناں دوا سکیا۔ (چھوڑیں جی وہ کس کام کا بندہ ہے؟ اتنے بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہا لیکن کسی ایک شخص کو نوکری نہ دلوا سکا۔)

ہمارے گاؤں میں چودھری عزیز بخش نمبردار تھے۔ تقسیم سے قبل ان کا تعلق چوہدری محمد علی کے گاؤں، ننگل انبیا، سے تھا جہاں وہ ذیلدار ہوتے تھے۔ چوہدری محمد علی نے انھیں اپنے تمام بچوں کی شادی پر مدعو کیا تھا۔ چوہدری صاحب نے جب اپنی بیٹی کی شادی کی تو اس وقت وہ وزیر اعظم تھے۔ چودھری عزیز بخش بیان کیا کرتے تھے، مجھے بھی شادی کا دعوت نامہ ملا۔ کارڈ پر چھپا ہوا تھا کوئی مہمان تحفہ نہ لائے۔ لیکن میں دیسی گھی کا ایک ٹین لے گیا۔ کراچی جب وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر پہنچا تو چوہدری محمد علی باہر گیٹ پر کھڑے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔ ان کی نظر گھی کے ٹین پر پڑی تو کہا چودھری صاحب میں نے تحفہ لانے سے منع کیا تھا۔ میں نے جواب دیا میں ایک غریب آدمی ہوں، میں نے کیا تحفہ لا نا ہے۔ گھر کی بھینسوں کے گھی کا ایک کنستر لے آیا ہوں۔ چوہدری محمد علی نے کہا یہ کنستر گھر کے اندر نہیں جا سکتا۔ پھر انھوں نے اپنے ملازم کو بلا کر کہا گھی کا یہ ٹین بازار لے جاؤ اور اسے فروخت کرکے ملنے والی رقم ذیلدار صاحب کے حوالے کر دو۔ یہ اس ٹین کو کہاں اٹھائے پھریں گے۔

چودھری عزیز بخش صاحب چودھری محمد علی کی معاملہ فہمی کا ایک اور واقعہ بیان کیا کرتے تھے۔ لاہور میں چودھری صاحب کے بیٹے کی شادی تھی۔ گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ بھی مدعو تھے۔ بارات کی روانگی سے قبل کسی نے چودھری محمد علی سے کہا ایک مسئلہ ہو گیا ہے۔ چودھری صاحب نے پوچھا وہ کیا؟ اس نے کہا سرکاری پروٹوکول کا تقاضا ہے کہ گورنر صاحب کی گاڑی آگے ہو، بارات کا پروٹوکول کہتا ہے دولھا کی گاڑی کو آگے ہونا چاہیے۔ چودھری صاحب نے جواب دیا کوئی مسئلہ نہیں۔ گورنر صاحب اور دولھا کو ایک گاڑی میں بٹھا دیں۔

میری اگلی یاد اس وقت کی ہے جب ملک میں صدارتی انتخاب کی مہم چل رہی تھی۔ میں اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میرا خاندان مادر ملت کا حمایتی تھا۔ رحیم یار خان میں چودھری محمد علی جلسہ سے خطاب کرنے آئے لیکن حکومت نے جلسے کی اجازت نہ دی۔ ان دنوں دفعہ 144 کا نفاذ بہت عام سی بات تھی۔ چودھری صاحب کا قیام ماموں جان کے گھر پر ہی تھا۔ کوٹھی کے پچھلے صحن میں جلسہ کا اہتمام کیا گیا لیکن لاوڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی۔ چودھری صاحب کوئی بلند آہنگ مقرر نہیں تھے۔ اس جلسے میں میرے کزن خالد بن بشیر نے، جو اس وقت نویں جماعت کا طالب علم تھا، مکبر کے فرائض انجام دیے تھے۔ میں وہاں موجود نہیں تھا۔ بعد میں چودھری صاحب کی تقریر ٹیپ ریکارڈر پر سنی تھی۔ اس وقت نانا جان نے چودھری صاحب سے کہا، سننے میں آ رہا ہے کہ مادر ملت کو صدارتی الیکشن لڑنے پر آپ نے رضامند کیا ہے۔ خود سرکاری حلقے بھی اسی خیال کا اظہار کرتے تھے۔ چودھری صاحب نے جواب دیا ایسا نہیں ہے۔ مادر ملت کو الیکشن لڑنے پر قائل کرنے میں خواجہ ناظم الدین صاحب کا کردار تھا کیونکہ مادر ملت خواجہ صاحب کا بہت احترام کرتی ہیں۔

ستمبر سن 1967 میں جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا تو دسمبر کے مہینے میں لاہور کے اشاعت تعلیم کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ کا سالانہ اجتماع ہو رہا تھا۔ اس میں شرکت کے لیے ایک لڑکا رحیم یار خان سے آیا ہوا تھا۔ اس کی دعوت پر میں بھی ایک جلسہ سننے چلا گیا۔ جانے کا سبب اس میٹنگ میں چودھری محمد علی صاحب کا خطاب تھا۔ مجھے اس سے پہلے چودھری صاحب کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اس اجلاس میں پہلا خطاب پروفیسر خورشید احمد کا تھا جو کافی طویل، عالمانہ اور کسی حد تک بورنگ تھا۔ اس کے بعد چودھری صاحب نے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ تک قوموں کے عروج و زوال کے موضوع پر تقریر کی۔ چودھری صاحب کے مطالعہ کی وسعت حیران کن تھی۔ ان کی تقریر میں مختلف فلسفیوں کے حوالوں کے ساتھ ساتھ مولانا روم کی مثنوی اور علامہ اقبال کے اشعار کے برمحل استعمال نے بہت لطف دیا۔ ظاہر ہے اس لیکچر کو مکمل طور پر سمجھنے کی میری استعداد تو نہیں تھی لیکن میں اس سے مرعوب بہت ہوا تھا۔ اس تقریر کی ایک اور نمایاں بات یہ تھی کہ اپوزیشن میں صف اول کا رہنما ہونے کے باوجود ملکی سیاست پر کوئی بات نہیں کی گئی تھی کیونکہ اس زمانے کا پروٹوکول یہی تھا کہ سیاست دان طلبہ کے اجتماع میں سیاسی تقریر نہیں کرتے تھے۔ وہ سیاست کے علاوہ موضوعات پر بات کرنے کا ملکہ بھی رکھتے تھے۔

لاہور آنے کے بعد باغ بیرون موچی دروازہ کی جلسہ گاہ میں ہونے والے اپوزیشن جماعتوں کے جلسے سننا ایک محبوب مشغلہ تھا۔ ان جلسوں میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے تقریباً ہر اپوزیشن رہنما کو سننے کا اتفاق ہوا۔ متحدہ اپوزیشن کی جماعتوں کے ایک جلسے میں جب چودھری محمد علی کا نام سٹیج سے پکارا گیا تو میرے قریب کھڑے ایک شخص نے آواز لگائی مولانا محمد علی کہو، حالانکہ اس زمانے میں چودھری صاحب بے ریش ہوتے تھے۔ ان کی تقریر کی ایک بڑی خوبی یہ ہوتی تھی کہ بات ہمیشہ اعداد و شمار کا حوالہ دے کر کیا کرتے تھے۔ مثلا دفعہ 144 کے نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے یوں کہا کرتے تھے کہ سال کے 365 دنوں میں 280 دن دفعہ 144 نافذ رہی ہے۔

ایوب خان کی کتاب فرینڈز ناٹ ماسٹرز کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے لیڈروں میں وہ چودھری صاحب پر سب سے زیادہ خفا تھا۔ ایوب خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ڈھاکہ میں ایک اجلاس میں نوابزادہ نصر اللہ خان کی عوامی لیگ، ایر مارشل اصغر خان کی جسٹس پارٹی، چودھری صاحب کی نظام اسلام پارٹی اور نور الامین کی جماعت نے باہمی ادغام کے بعد ایک نئی جماعت پاکستان جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ چودھری صاحب نے کوشش کی کہ جماعت کے نام میں اسلام کا بھی ذکر ہو لیکن مشرقی پاکستان کے لیڈروں نے انکار کر دیا جس پر چودھری صاحب کو کسی قدر مایوسی ہوئی۔ جماعت کے ادغام کے بعد چودھری صاحب نے خرابی صحت کی بنا پر سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد باقی زندگی انھوں نے ایک دو مضامین تحریر کرنے کے علاوہ کسی سیاسی سرگرمی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔

سن 1970 میں میں بی اے سال اول کا طالب علم تھا اور نیو ہوسٹل میں مقیم تھا۔ میرے کزن خالد بھائی نے، جو مجھ سے ایک سال سینیر تھے، چودھری صاحب سے ملاقات کا ٹائم لیا۔ دوپہر کا وقت اورسخت گرمی تھی جب ہم گلبرگ میں چودھری صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ اسے کوٹھی کہنا تو زیادتی ہو گا کیونکہ بہت بڑے پلاٹ کے بالکل پچھلی طرف ایک انیکسی نما مکان تھا۔ ہمارے ساتھ خالد بھائی کے دوست چودھری اعجاز بھی تھے جو بعد میں ہائی کورٹ کے جج کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس ملاقات کا دورانیہ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے کا تھا۔ اتنے برسوں بعد بس دو باتیں یاد رہ گئی ہیں۔ جنرل یحییٰ خان کا ذکر آیا تو چودھری صاحب نے کہا، میری اس سے ایک ملاقات ہوئی ہے، اس کا اقتدار چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ باتوں میں چودھری اعجاز نے کہہ دیا کہ آپ نے بھی تو ایوب خان کے مارشل لا کے زمانے میں سرکاری ملازمت کر لی تھی۔ اس پر چودھری صاحب کچھ غصے میں آ گئے اور خفگی سے کہا اس ملازمت کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

سن 1973 میں عزیز دوست وحید رضا بھٹی کالج کے مجلہ راوی کا مدیر تھا اور راوی کا اقبال نمبر چھاپنے کی سعی کر رہا تھا۔ میں نے اسے چودھری صاحب سے اقبال پر مضمون لکھوانے کا کہا۔ جب ہم نے مجلہ کے انچارج استاد محترم پروفیسر مرزا محمد منور صاحب سے اس تجویز کا ذکر کیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور بھٹی سے کہا اگر تم چودھری صاحب سے مضمون لکھوا لو تو بہت بڑی بات ہو گی۔ مرزا صاحب نے بتایا کہ جب وہ گورنمنٹ کالج لائل پور میں پڑھاتے تھے تو اس وقت یوم اقبال کی تقریب میں چودھری صاحب کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔ جب انھیں مدعو کیا گیا اس وقت وہ وزیر اعظم تھے لیکن جب اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تو اس عہدے پر فائز نہیں تھے۔ وہاں چودھری صاحب نے دو گھنٹے تک تربیت خودی کے مراحل پر لیکچر دیا تھا۔ مرزا صاحب جیسے ماہر اقبالیات کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی ساری زندگی میں اقبال پر اس سے اچھا لیکچر نہیں سنا۔ وحید نے چودھری صاحب کو خط لکھ کر مضمون لکھنے کی درخواست کی لیکن جوابی خط میں چودھری صاحب نے لکھا کہ وہ خرابی صحت کی بنا پر مضمون لکھنے سے قاصر ہیں۔

الطاف حسن قریشی نے چودھری صاحب کا اردو ڈائجسٹ کے لیے انٹرویو کیا تھا جو جنوری 1963 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس انٹرویو کے ایک اقتباس پر اس تحریر کا اختتام کرتا ہوں کہ اس میں کہی گئی بات اٹھاون برس بعد بھی قابل غور ہے:

 “ہماری قوم کے مزاج میں شخصیت پرستی اس حد تک داخل ہو گئی ہے کہ وہ زندگی کے ہر کام کو اسی زاویے سے دیکھتی ہے اور اسی پیمانے سے ناپتی ہے۔ ہر عملی قدم اٹھاتے وقت ہماری نظریں کسی ایسی مافوق الفطرت شخصیت کی تلاش میں ہوتی ہیں جس میں معجزوں کی غیر معمولی قوت موجود ہو۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر اس رجحان کی روک تھام نہ کی گئی تو یہ زہر ہمارے رگ و ریشے میں اس حد تک سرایت کر جائے گا کہ ہماری ذہنی اور عملی قوتیں ہمیشہ کے لیے مفلوج ہو جائیں گی۔”

یکم دسمبر 1980 کو چودھری محمد علی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).