جوبائیڈن اور گوانتانامو بے


ایک وقت تھا کہ کالا پانی یا اسیر مالٹا ہونا سیاسی یا مذہبی لوگ ایک ڈگری، ایوارڈ یا تمغے کی طرح نام کے ساتھ لگاتے تھے۔ پھر تقسیم یا بٹوارے کے بعد ملک خداداد میں مچھ جیل، ہری پور جیل، اٹک قلعہ اور آج کل اڈیالہ جیل سیاسی قیدوبند کے لیے زیادہ خبروں میں ہیں۔ لیکن ان سب جیلوں میں سب سے الگ تھلگ قید تنہائی اور تشدد کے لئے مشہور اور کسی زمانے میں بلکہ ماضی قریب میں زیادہ خبروں میں رہنے والی جیل یا قید خانہ گوانتانامو بے کا تھا جو آج کل جوبائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد ایک بار پھر عالمی خبروں کا محور بنا ہوا ہے۔

گوانتا نامو بے کا یہ حراستی مرکز دو ہزار دو میں کھولا گیا جب صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے گیارہ ستمبر، دو ہزار ایک کے بعد القاعدہ اور طالبان سے روابط کے الزام میں گرفتار کیے گئے مشکوک افراد سے تفتیش اور انہیں قید کے لیے کیوبا کے جنوب مشرقی علاقے میں بحریہ کی ایک چوکی کو قید خانے میں تبدیل کر دیا تھا۔

امریکی حکام کا اصرار تھا کہ ان افراد کو ’جنگی قانون‘ کے مطابق حراست میں لیا جاسکتا ہے۔ دو ہزار تین میں جب پکڑ دھکڑ اپنے عروج پر تھی، گوانتانامو میں تقریباً پچاس ممالک سے لگ بھگ سات سو افراد کو قید کیا گیا تھا۔ صدر بش نے اپنے دور اقتدار کے اختتام پر اس قید خانے کو بند کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا تھا حالانکہ اس وقت بھی دو سو بیالیس قیدی وہاں موجود تھے۔ گوانتانامو کسی زمانے میں عالمی غم و غصے کا سبب اور دہشت گردی کی جنگ میں ضرورت سے زیادہ امریکی ردعمل کی علامت تھا۔ لیکن صدر براک اوباما کی اسے بند کرنے کی کوششوں کے بعد یہ بڑے پیمانے پر سرخیوں سے ہٹ گیا۔ تاہم یہاں اب بھی چالیس افراد قید میں زندگی گزار رہے ہیں۔

اس بدنام زمانہ قید خانے کی بندش پر زور دینے والے اب امید کی ایک کرن دیکھ سکتے ہیں، جنہیں توقع ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ان افراد کے لیے قانونی کارروائی کا ایک راستہ تلاش کر لے گی اور باقی ماندہ قیدیوں کو بھی رہا کر دیا جائے گا۔ اس قید خانے پر امریکہ سالانہ ساڑھے چوالیس کروڑ ڈالرز سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔

دوسری جانب گوانتانامو کے بارے میں بائیڈن کے قطعی ارادے غیر واضح ہیں۔ منتقلی کے عمل کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ نو منتخب صدر اس قید خانے کو بند کرنے کے حامی ہیں، اقتدار سنبھالنے سے پہلے اس منصوبے کی تفصیلات ظاہر کرنا غیر مناسب ہو گا۔

بائیڈن کی حقیقت پسندی کا وہ لوگ ضرور خیرمقدم کریں گے جنہوں نے گوانتانامو بند کرنے کے لیے مہم چلائی۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ کی واشنگٹن کی ڈپٹی ڈائریکٹر آندریا پرسو نے کہا ہے کہ: ’اگر اسے ایک بہت بڑا پریس ایشو نہیں بنایا گیا تو اس کے بند ہونے کا زیادہ امکان ہے۔‘ ٹرمپ نے اپنی دو ہزار سولہ کی مہم میں گوانتانامو کو ’کچھ برے دوستوں‘ سے بھرنے کا عہد کیا تھا لیکن اوباما کی پالیسیوں کو منسوخ کرنے کے بعد انہوں نے اس مسئلے کو بڑی حد تک نظرانداز کیا۔

صدر اوباما نے کچھ قیدیوں کے وفاقی عدالت میں مقدمے چلانے کا بھی منصوبہ بنایا لیکن اوباما انتظامیہ کی بندش کی کوششوں کو اس وقت دھچکا لگا جب کانگریس نے گوانتانامو سے قیدیوں کی کسی بھی مقصد کے لیے امریکہ آمد پر پابندی عائد کردی جس میں قانونی چارہ جوئی یا طبی امداد بھی شامل تھی۔ اوباما نے ایک سو ستانوے قیدیوں کو رہا کیا جب کہ ٹرمپ کے حلف لینے تک اکتالیس قیدی تب بھی اس قیدخانے میں موجود تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اوباما انتظامیہ کے گوانتانامو میں رکھے گئے قیدیوں کے مقدمات کا جائزہ لینے اور انھیں رہا کرنے کے موثر طریقہ کار کو ختم کر دیا تھا جس سے قیدیوں کی رہائی کی امید بھی دم توڑ گئی تھی لیکن جو بائیڈن کے انتخابات جیتنے کے بعد یہ امید پھر سے زندہ ہو گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).