کرونا کی دوسری لہر، فیک نیوز اور ذمہ داری


نومبر، دسمبر کی خوشگوار دھوپ سے لطف اندوز ہونے کے دن اس سال کرونا کی دوسری لہر کے درمیان لاگو ہونے والے محدود آزادی نقل وحرکت یا اسمارٹ طرز کے لاک ڈاوٰن کے دوران گزر رہے ہیں۔

پہلا لاک ڈاوٰن مارچ دوہزاربیس سے شروع ہو کر کچھ مہینوں تک جاری رہا اور وہ آتی ہوئی گرمیوں کے دن تھے اور کرونا کے بحران کی ابتدا کے دن جو اندیشوں، افواہوں اور مختلف قسم کی خبروں کی بھرمار کے ساتھ گزرے۔

کون سی غذاوٰں اور کون سی دواوٰں کے استعمال سے قوت مدافعت کو بڑھایا اور قائم رکھا جاسکتا ہے۔ سانس لینے کے خاص طریقے اور کچھ مخصوص جسمانی ورزش کرنے کے مشورے ہراک طرف سے یلغار کیے ہوئے تھے۔

کیا کام کرے گا اور کیا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسی شش وپنج اور کچھ گومگو کی سی فضا کی وجہ سے گویا ہراک الجھن کی سی کیفیت میں مبتلا ہو گیا کہ درست اور کارگر معلومات کی تصدیق کس سے اور کہاں سے کی جائے کہ میدان طب کے ماہرین بھی شروع میں کچھ کہنے سے قاصر رہے۔

اب کہ کرونا کی آمد اور تباہ کاریوں کو اک عرصہ بیتا اور کسی بھی وبا اور مصیبت کی ابتدا میں سب سے زیادہ پریشان کردینے والی بات اک الجھن اور لاعلمی کی پھیلی ہوئی فضا ہوتی ہے جو گویا اقدامات اور فیصلہ سازی کے عمل کو مفلوج سا کردیتی ہے۔ تو گزرتے وقت میں وبا اور مصیبت کو برت کر اور برداشت کر کے عام لوگوں اور ماہرین تحقیق و تجربہ تک اس کے بارے میں کافی کچھ جان اور سیکھ چکے ہیں۔

مگر اک خوف نے ابھی تک بہت سے ذہنوں کا احاطہ کچھ اس طرح سے کیا ہوا ہے کہ پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ بھی بسا اوقات الجھن میں مبتلا ہو کر انتہائی خوفزدہ سے نظر آتے ہیں اور عام سی کھانسی، نزلہ اور بخار (جو کہ سرد موسم کی ابتدا میں عموماً بہت سے لوگوں کو ہوجاتا ہے ) کی وجہ سے بہت ڈرنے لگتے ہیں کہ کہیں کرونا کی بیماری نے ان کو جکڑ تو نہیں لیا۔

دوسری اہم بات یہ کہ وہ اس وبا، اس کی علامات اور علاج کے حوالے سے پھیلی ہوئی بہت سی درست اور غلط معلومات کو الگ الگ نہ کرنے کی صلاحیت ہونے کی وجہ سے صورت حال کو درست اور بہتر انداز میں سنبھالنے اور اس سے بخوبی نبٹنے کے قابل نہیں رہتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر وہ بیماری سے زیادہ ذہنی خوف، اندیشے اور دباوٰ کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیف اور اذیت کو برداشت کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے عروج کے دور میں جب کہ معلومات کا سیلاب آیا ہوا ہے تو اس صورت حال میں یہ اور مشکل ہوجاتا ہے کہ درست اور غلط معلومات کو الگ الگ کر کے ان کا تجزیہ اور تصدیق کیسے کی جائے، تاکہ صرف درست معلومات اور مشوروں پر عمل کر کے خاطرخواہ نتائج کا حصول ممکن ہو۔

تو اس سلسلے میں ہراک فرد کی انفرادی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں کم یا زیادہ اپنا کردار ادا کرے اور شاید بہت زیادہ درست اور پہلا اقدام یہ ہوگا کہ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر جانے بوجھے کسی بھی قسم کی معلومات، خبروں، طریقہ ہائے علاج اور مشوروں کو اگے بڑھانے اور پھیلانے سے گریز کیا جائے۔

صرف کرونا کی وبا ہی نہیں بلکہ عام دنوں میں بھی یہ اصول بہت زیادہ کارگر ثابت ہوگا اگرہرشخص خبروں، معلومات اورمشورے بلاتصدیق اورسوچے سمجھے بغیر اگے بڑھانے سے قطعی پرہیز کرے تاکہ کوئی بھی افواہ، غلط یا خطرناک خبر اور غلط مشورہ عوام الناس میں پھیل کر مایوسی، غلط فہمی اور تباہی نہ پھیلاسکے۔

اگر آپ خبروں کو بہت توجہ سے دیکھنے پر اپنے دن کا کافی وقت صرف کرتے ہیں تو آپ فیک نیوز (جعلی خبروں ) کی اصطلاح سے کم ازکم واقف تو ضرور ہوں گے۔ فیک نیوز کی مہلک ایجاد آج انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ سے فروغ پاتی دنیا میں سوشل میڈیا کی اختراع اور بہت زیادہ استعمال و رسائی کی وجہ سے ایک خطرناک ہتھیار کی صورت میں سامنے آئی ہے۔

گزشتہ کچھ سالوں میں مختلف حوالوں اور خطوں میں فیک نیوز کی وجہ سے بہت سے بحران پیدا ہوئے اور ان کے نتیجے میں بہت نقصان بھی ہوا ہے۔ چاہے کسی ملک کے عام انتخابات (الیکشن یا چناوٰ) ہوں یا مذہبی، لسانی یا سیاسی بنیادوں پر فساد کا ہونا ہو یا پھر کسی معیشت کا زوال پذیر ہونا۔ ان مختلف اقسام کے حالات اور واقعات میں فیک نیوز اور سوشل میڈیا پر جھوٹے پراپیگنڈے کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ بنیادی طور پر موجودہ وقت کے ان نئے ہتھیاروں سے تباہی پھیلانے کے کام کو کامیابی سے کیا جا رہا ہے۔

عموماً ذاتی محفل یا مجلس سے لے کر دفتری، سماجی، سیاسی، ثقافتی، مذہبی اور کسی تقریب کی وجہ سے ہونے والے اجتماعات میں ہونے والے بحث ومباحثہ ہوں یا سماجی ابلاغ (سوشل میڈیا) کی بہت سرعت آمیز رسائی (پہنچ) کا میدان ہو۔ ہر اک جگہ سنی سنائی خبروں کو آگے بڑھانے سے پیدا ہونے والی خرابیوں اور مسائل کے پیچھے ایک فرد یا افراد کی بلاسوچے سمجھے اور بلا جانے بوجھے خبروں اور باتوں کو آگے بڑھانے کی عام سی غلط عادت ہی تو ہے۔

بڑے بڑے مسائل ہوں یا عظیم بحران، اک عام فرد کی ذمہ داری کسی نہ کسی حد تک تو بنتی ہے۔ شاید آج کے اس تیزرفتار رسائی اور ابلاغ کے دور میں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت پہلے سے بہت زیادہ ہے کہ آپ کا بلاسوچے سمجھے یا بلا جانے بوجھے کسی پیغام، خبر یا بات کو آگے بڑھانے کا نقصان اور نتیجہ آپ کی سوچ اور تصور میں آسکنے والے نقصان سے بہت زیادہ ہو سکتا ہے اور نہ صرف یہ کسی صورتحال کو بگاڑ سکتا ہے، کسی فساد کو جنم دے سکتا ہے، کسی معیشت کو نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ کسی کی پوری زندگی اور کسی اک خاندان کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کو بھی تباہ کر سکتا ہے۔

اک لمحے کا توقف، کسی بھی خبر اور معلومات کو آگے بھیجنے سے قبل اس کی تصدیق کرنا یا اگر فوری طور پر تصدیق کرنا اور اس بارے میں معلومات کرنا ممکن نہ ہو تو خبر یا معلومات کو آگے نہ بھیجنا ایک فرد کا شاید ایک ایسا عمل یا اقدام ہو جو بہت سی گڑبڑوں، آنے والی تباہی یا نقصان کو روکنے کی وجہ بن سکے۔

اک لمحے کی احتیاط اور مستقبل کا تحفظ، یہ اتنی بڑی بات تو نہیں کہ جس کے لیے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہو مگر صرف ایک سوچ اور ذمہ داری جو بہت سی زندگیاں تباہ ہونے اور معاملات کو خراب ہونے سے روک سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).