آج کے فیصلے کل کی صورت گری کریں گے



ہمارے روزمرہ کے استعمال میں آنے والے، یہ محاورے اور ضرب الامثل، بہ ظاہر، چند جملے اور کچھ الفاظ کا مجموعہ دکھائی دیتے ہیں(اور بلاشبہ ان کی ظاہری صورت بھی یہی ہے) مگر باطنی طور پر یہ صدیوں کے تجربے، مشاہدے اور مطالعے کا وہ نچوڑ ہیں جس میں چھپی حکمت اور دانش، کسی معاشرے میں یکجا افراد کو بار بار یہ صدا دے رہی ہوتی ہے کہ پیش قدمی سے پہلے سارے امکانات، خدشات، اثرات اور خطرات کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھ لیا جائے۔

قوموں کی تاریخ میں فرد (اور افراد) کے فیصلے بالواسطہ اور بلاواسطہ، ان کے مستقبل کی سمت کا تعین کیا کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو غیر محسوس طریقے سے مسلسل جاری رہتا ہے اور اس کے ثمرات، تیزرفتاری یا تاخیر سے، وہاں موجود افراد اور گروہ، شعوری یا لاشعوری طریقے سے وصول کر رہے ہوتے ہیں۔

اس بارے میں، شاید، کسی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ آج کے کیے گئے فیصلے ہی، کل کی تعمیر (یا تخریب) کے نقش، اجاگر کرتے ہیں۔ صورت حال سے پنجہ آزمائی، مستقبل سے آنکھیں چار کر کے نہ کی گئی ہو، تو عملاً (اور نتیجتاً) بے دست و پا ہوتے ہوئے، تلافی کی خواہش (اگر) بیدار ہو بھی جائے، وقت گزرنے کے ساتھ، نظر ثانی کے سب راستے، بسا اوقات، بند ہو چکے ہوتے ہیں۔ سو معاملہ فہمی کا تقاضا یہی ہے کہ اس حقیقت کو پوری دیانت داری اور کشادہ دلی سے تسلیم کیا جائے کہ آج، میں ہی کل چھپا ہے اور آنے والا کل، درحقیقت آج ہی کا عکس ہوگا۔

فیصلہ سازی کی اہمیت، ہر چند کہ ہر چھوٹے بڑے عمل میں برقرار رہتی ہے مگر اس کی حیثیت، خصوصاً اس وقت دو چند ہو جاتی ہے جب، قومی سطح پر، کسی غیر معمولی حالات میں مشکل، گمبھیر اور نازک مرحلہ درپیش ہو۔ دوراہے (یا چوراہے ) پر پہنچ کر صحیح راستے کا انتخاب، فیصلہ سازوں کی بصارت اور بصیرت، دونوں کو آزمائش میں ڈالنے کے مترادف ہے کیوں کہ دکھائی دینے والا منظر اور سجھائی دینے والا حل، مطابقت کا حامل نہ ہو، تو مزید الجھاؤ، اپنی جگہ بنانے لگتا ہے اور یوں مطلوبہ ں سدھار کی جگہ ممکنہ بگاڑ کو پھل پھولنے کا موقع مل جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ فیصلے کے اچھے یا برے، دور رس یا بے اثر، منطقی یا سطحی، ہونے کی پیشگی جانچ کیوں کر ممکن ہو۔ وہ کیا کسوٹی ہو جس کی مدد سے مجوزہ فیصلے کے بارے میں بھی، یہ(پیش از وقت ) قیاس یا حتمی رائے قائم ہو کہ نسخہ تیر بہ ہدف ہے۔ یقنا ”ایسا کوئی فارمولا تا حال تخلیق نہیں ہو سکا، شاید آگے بھی نہ ہو، کیوں کہ خیالات، جذبات اور(فکری ) تصورات سے جنم لینے والے فیصلوں کی پیش گوئی شاید مشکل ہی نہیں، نا ممکن ہی کہی جانی چاہیے۔ یہ فیصلے مخصوص ماحول اور مخصوص حالات کا نتیجہ ہوتے ہیں اور مخصوص ترجیحات کا آئنہ دار۔

گویا اس بابت قطعی دو رائے نہیں کہ فیصلہ سازی کا مرحلہ، بہتر کل کی تعمیر کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے اور آج کے کم تر مفاد(اور فوری اہداف ) پر، بہتر کل کے اس امکان کو، بھینٹ بھی چڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ، وہ انتخاب ہے جسے، درحقیقت فیصلے کی نتیجہ خیزی کا بنیادی محرک سمجھا جانا چاہیے۔ کسی بڑے فیصلے پر پہنچنے سے پہلے یہ ضمنی فیصلہ بھی اہم ہے کہ نتائج کی نوعیت محض فوری مقاصد کا حصول ہے یا دیرپا حکمت عملی تک رسائی۔ یہ دو صورتیں بعض اوقات یکجا بھی ہو سکتی ہیں اور ان کا علیحدہ علیحدہ، انجام سے ہمکنار ہونا بھی قابل فہم ہے۔

فیصلہ سازوں کے لیے ، یہ لمحہ فکریہ ہمیشہ تعاقب کرتا ہے(اور شاید کرتا رہے گا ) کہ یہ فیصلے طے آج ہوں گے، مگر، ان فیصلوں کے منصف، آنے والے دن ہوں گے۔

تب صرف وہی ہاتھ آئے گا، جس کی آبیاری کی گئی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).