اسحاق ڈار کی ہارڈ ٹاک


بی بی سی کا ایک پروگرام ہے، نام ہے ”ہارڈ ٹاک“ ، اس کے مہمان بنے ہمارے جناب سابقہ وزیر خزانہ، محترم اسحاق ڈار صاحب۔ اب یہ مجھے نہیں پتہ کہ اس پروگرام میں شرکت کا مشورہ انہیں کس نے دیا، اور یہ ہمت انہوں نے کس کے کہنے پر کر لی۔

لیکن وہ جو بھی سوچ کر گئے تھے، لگتا کچھ ایسا ہی ہے کہ اس میں کامیاب نا ہو سکے۔ وجہ ہارڈ ٹاک کے اینکر کے تابڑ توڑ سوالات، بلکہ کہہ لیجیے کہ تابڑ توڑ حملے۔ جن کا سامنا، گردن کی ہڈی میں بیماریوں کا سامنا کرنے والا یہ شخص تو بالکل بھی نہیں کر سکتا تھا۔

اور جس طرح حسن نواز صاحب کے ایک ایسے ہی انٹرویو نے مسلم لیگ کو جو نقصان پہنچایا وہ، وہ آج تک نہیں بھول سکے، بالکل اسی طرح یہ انٹرویو بھی انہیں بہت عرصہ تک یاد رہے گا، اور مزے کی بات یہ ہے کہ حسن نواز نے بھی وہ انٹرویو بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک کو ہی دیا تھا۔

اور بالکل وہی لائنز جو مریم نواز نے کہیں اور وہ ان کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتی، کہ ”میری لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں“ ، اسی طرح اسحاق ڈار نے بھی ایسی ہی لائن اپنے لئے بھی آج اسی انٹرویو میں لکھوا لی ہیں، اور وہ ہیں،
”میری پاکستان تو کیا لندن میں بھی صرف ایک جائیداد ہے“ ۔

عرصہ تین سال سے اسحاق ڈار صاحب میڈیکل گراؤنڈ پر لندن میں ہیں اور پاکستان آنے کا نام نہیں لے رہے، اور آج کا انٹرویو، کوئی بھی ذی شعور شخص دیکھ کر آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ یہ شخص کم از کم بیمار نہیں ہے۔

بالکل اسی طرح جس طرح نواز شریف صاحب اتنے بیمار ہونے کے بعد بھی آن لائن تقریروں میں گھن گرج کر برس سکتے ہیں۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ انہوں نے یہ انٹرویو دیا کیوں ہے؟ اور کیا یہ کسی بھی طرح پاکستان مسلم لیگ کے حق میں جا سکتا ہے؟

تو میری ذاتی رائے میں، اسحاق ڈار صاحب کے اسی انٹرویو میں انہوں نے پاکستان نا جانے کی جو وجوہات بیان کیں ہیں ان میں سے ایک، پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بھی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور ساتھ ہی پاکستان آ کر جان کا خطرہ بھی ظاہر کیا گیا ہے، اب ان گراؤنڈز پر ایک ہی کام ہو سکتا ہے اور وہ ہے، ”یوکے میں اسائلم اپلائی کرنا“ ، ان باتوں کو وجہ بنا کر۔

میری ذاتی رائے میں اس انٹرویو سے مسلم لیگ نون کو ایک جماعت کے طور پر یقیناً نقصان ہو گا، لیکن وہ نواز شریف اور اسحاق ڈار کے لئے لندن میں مزید قیام کا جواز بنانے کی وجہ ضرور بن سکتا ہے۔

جو کہ اگر آگے آنے والے دنوں میں درست صاحب ہوا تو یہ اک بار پھر ذاتی وجوہات پر، اور ذاتی فوائد کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو نا صرف ظاہر کرے گا بلکہ پاکستان کی سیاست سے نواز شریف صاحب کی ہمیشہ کے لئے رخصتی بھی بن سکتا ہے۔

اور مجھے لگتا کچھ ایسا ہے کہ شاید مسلم لیگ نواز میں اس بات پر اصولاً یہ طے ہو گیا ہے کہ اب نواز شریف صاحب کو پاکستان لانا بھی نہیں ہے، اور ایک وقت تک کے لئے بس مسلم لیگ نواز کو خبروں میں رکھا جائے، جس طرح بھی بن پڑے۔

مسلم لیگ نون کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے، مریم نواز صاحبہ کے سخت بیانات، ان تمام جماعتوں کے ساتھ بیٹھ جانا جن کو وہ ابھی پچھلے الیکشنز تک میں ”عمران زرداری بھائی بھائی“ کے عوام سے نعرے لگواتی رہی، بتا رہے ہیں کہ اس طرح کے فیصلوں میں، مسلم لیگ کے ان سنجیدہ حلقوں کے مشورے سنے نہیں جا رہے یا مانے نہیں جا رہے جو مسلم لیگ میں ایک عرصے تک کچھ حیثیت رکھتے تھے۔ اور ان فیصلوں کا نقصان مسلم لیگ نون کو آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی کی طرح ایک نیشنل پارٹی سے صوبائی پارٹی بن جانے کی صورت میں دیکھنا ہو گا۔ اور اس کی ایک نشانی گلگت بلتستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں، 33 میں سے صرف 3 سیٹوں کا حاصل کرنا بھی ہے اور وہ وقت شاید کچھ زیادہ دور بھی نہیں۔

اللہ اس ملک کا، آپ کا، اور میرا حامی و ناصر ہو، آمین۔

راشد محمود خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد محمود خان

بلاگر تعلیم کے حوالے سے سافٹ وئیر انجینئر ہیں اور نوجوانوں کی ایک غیرسرکاری تنظیم میں چیف ایگزیکٹیو افسر کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔

rashid-mehmood-khan has 15 posts and counting.See all posts by rashid-mehmood-khan