باراک اوبامہ کی کتاب: دی پرامسڈ لینڈ، (سرزمین موعودہ)


امریکہ کے 44 ویں صدر کے عہدے پر سبکدوش ہونے والے بارک اوبامہ نے حال ہی میں دنیا کی توجہ اپنی نئی تصنیف کی جانب مرکوز کرؤائی جس کا نام The Promise Land یعنی سرزمین موعودہ ہے، اپنی یاداشتی تحریر میں سابق امریکی صدر اوبامہ نے سپر پاور ملک کے صدر کے طؤر پر عہدے پر فائز مشکلات، فیصلے اور عالمی معاملات پر مفصل نظر ڈالی ہے، اؤبامہ کی یہ تحریر انتظامی سپاہی کے طور پر منظرعام پر آئی ہے، جس میں انہوں نے سپر پاور ملک کو درپیش چیلنجز کو تفصل سے قلم بند کیا ہے، یہ کتاب 902 صحفات پر مشتمل ہے، جس کے سات ابواب کے 27 اسباق ہیں جس کے چار عنوان میں پاکستان کے حوالے سے بات ہوئی ہے، جس میں پاکستان کے افغانستان سے تعلقات، پاکستان بھارت کی کشیدگی، پاکستان میں القاعدہ اور ڈران حملوں کے بابت بات کی گئی ہے، سابق امریکی صدر نے پاکستان کی تین شخصیات پر بھی بات کی جس میں پاکستان کے سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی پر گفتگو کی۔

نو سو دو صحفات پر مشتمل کتاب میں الفاظ پاکستان، 83 اسلام 43، مسلمان 55، براعظم ایشیا 44، بھارت 78، سعودی عرب 21، افغانستان 148، ایران 160، عراق 185، اسامہ بن لادن 91، القاعدہ 60، جبکہ پاکستان کا قبائلی و پہاڑی علاقہ فاٹا جو اب صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ ہے اس کو 4 بار ضبط تحریر میں لایا گیا۔

کتاب کے ابتدائیہ میں ہی بارک اوبامہ نے لکھا کہ بطور امریکی صدر میں نے اپنی ریاست کی بلا امتیاز رنگ و نسل خدمت کی، اپنے ملک کی دنیا بھر میں مقبولیت کو دیکھ کر مجھے اپنے امریکی ہونے پر فخر ہے، میں اس فخر کو قائم رکھنا چاہتا ہوں، میرے صدراتی عہد میں دنیا دہشتگردی سے نبرد آزما تھی، 11 / 9 کے المناک واقعہ نے امریکی دفاع کو عالمی سطح پر انتہائی کمزور ظاہر کیا تھا، بطور امریکی شہری مجھے اس بات کا ذاتی طور پر قلق تھا، صدر ہونے کے ناتے مجھے ایسی طاقتور حکمت عملی مرتب اور نافذ العمل کروانی تھی جس سے سپر پاور کا وقار بحال ہو سکے، اس دوران امریکہ میں بھی دہشتگردی کے واقعات وقوع پذیر ہوئے، ہم فیصل شہزاد نامی پاکستانی طالبان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے، پاکستان نے عالمی سطح پر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہم سے بھرپور تعاون کیا، کیونکہ پاکستان خود بھی شورش کا شکار تھا، پاکستان میں افغان اور مقامی طالبان مل کر اپنی دہشت پھیلا رہے تھے، یہ عناصر پاکستان سمیت پوری دنیا کے لئے خطر بن چکے تھے، پاکستان کے پہاڑی اور سرحدی علاقوں میں طالبان پنجے گاڑ چکے تھے، میں نے پاکستان کے حالات دیکھکراندازہ لگایا کہ ان میں طالبان سے مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں لہذا ہم نے ماہانہ دس بلین ڈالر کے اسراف پر 30 ہزار نیٹو افواج کو یہ ٹاسک دیا کہ وہ طالبان کا قطع قلمع کریں، پاکستان ہمارا بہترین اتحادی رہا، اس نے افغانستان پہچنے میں ہماری مکمل زمینی مدد جبکہ روس نے ہمارے ساتھ فضائی تعاون کیا، ہمارے ٹروپس نے ہمیں آگاہ کیا کہ عالمی دہشتگرد اسامہ بن لادن پاکستان کے پہاڑی سلسلے میں موجود ہے، میرے ماتحتوں نے مجھے بارہا اپنے ارادے پر نظر ثانی کے لئے کہا.

نائب صدر ہائیڈن اور وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے مجھے معتدد بار کارروائی کرنے سے روکا مگر میں نے طے کر لیا تھا کہ اگر میں القاعدہ کی کمر توڑنے میں ناکام رہا تو فوری استعفی دیدوں گا مگر کارروائی کر کے دم لونگا، مصدقہ اطلاع پر ہم نے پاکستان میں کامیاب کارروائی کی اور عالمی سطح پر مطلوب دہشتگرد سے دنیا کو 2011 کو یکم مئی کی رات ہلاک کر دیا گیا بعد ازاں امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے اپنی یاد داشت میں لکھ کہ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں نیوی سیلز کے آپریشن میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد میرا خیال تھا کہ پاکستانی صدر آصف زرداری کو کال کر کے اس خبر سے آگاہ کرنا میرے لئے مشکل امر ثابت ہوگا میں سمجھ رہا تھا کہ اس واقعے کے بعد پاکستان کے صدر آصف زرداری پر پورے ملک سے ریاست کی سالمیت کی تضحیک کا دباؤ ہوگا ’میں توقع کر رہا تھا کہ یہ کافی مشکل کال ہو گی لیکن جب میں نے ان سے رابطہ کیا تو ایسا بالکل نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بھی رد عمل ہو، یہ بہت خوشی کی خبر ہے انھوں نے اپنی اہلیہ بینظیر بھٹو کا بھی ذکر کیا جنھیں‘ القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے ہلاک کیا تھا۔ ’

سابق امریکی صدر مبارک اوبامہ اپنی کتاب پرامس لینڈ میں پاکستان کے حوالے سے بھارتی نفرت انگیزی پر تعلقات پر لکھتے ہیں کہ، ہندوستان میں قومی اتحاد کا تیز ترین راستہ ”پاکستان کے ساتھ دشمنی کا اظہار کرنا ہے۔“

بہت سے ہندوستانی (اس بات پر) بڑے فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ملک نے پاکستان سے مقابلہ کرنے کے لئے جوہری ہتھیاروں کا پروگرام تیار کیا ہے، انہیں اس بات کی قطعی فکر نہیں کہ اس سے خطے کے حالات جنگی کشیدگی کی جانب جائیں گے، پرامس لینڈ میں اوبامہ نے سکیولر بھارت کو بے نقاب کرتے ہوئے لکھا کہ ہندوستان کی سیاست اب بھی مذہب، قبیلے اور ذات پات کے گرد گھوم رہی ہے۔

انہوں نے 2015 ء میں بھارتی دورے کے دوران سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ میری ذاتی رائے کے مطابق ہندؤستان میں مسلم مخالف جذبات نے ہندو قوم پرست بی جے پی کے اثر کو مضبوط کیا ہے، واضح رہے 2015 میں بھارتی جنتا پارٹی حزب اختلاف میں تھی،

اوباما نے بھارت کی صورتحال پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے قلم زن کیا کہ انتہا پسندی، جنونیت، بھوک، بدعنوانی، قومیت، نسلیت اور مذہبی عدم رواداری کے مسائل بھارت میں اس حد تک مضبوط ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی جمہوری نظام اس پرمستقل قابو نہیں پا سکتا ہے یہ مسائل اگر وقتی طور پر قابو میں آ بھی جاتے ہیں تو معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ، آبادیاتی تبدیلی یا کسی طاقتور سیاسی رہنما کے ہوا دینے پر لوگ دوبارہ انتہا پسندی اور سر کشی کی نذر ہو جاتے ہیں۔

بارک اوباما نے اپنی کتاب میں یہ خیال بھی سپرد تحریر کیا کہ بھارت میں سکھ اقلیت کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

کتاب کے درمیانی صحفات میں انہوں نے ترقی پذیر ممالک میں بڑھتا مذہبی رجحان اور شدت پسندی کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان ممالک کے نوجوانوں میں مذہبی انتہا پسندی نکتہ عروج پر ہے، یہ لوگ کم عمر میں ہی مذہبی شدت پسندی کی جانب راغب ہوتے ہیں، انہوں نے لوگوں کی جانب سے ملنے والے تحائف اور محبت کو بھی رقم کیا۔

کتاب کے ابتدائی صحفات میں انہوں نے اپنے بچپن اور عہد جوانی کو بیان کیا ہے، اوبامہ لکھتے ہیں، میں 2 فروری 1961 میں امریکی ریاست ہوائی میں پیدا ہوا،

ان کی والد کینیا جبکہ والدہ کینساس سے تعلق رکھتی تھیں، ان کی پرورش انڈونیشیا میں ہوئی، انہوں نے کیلیفورنیا اور نیویارک سے تعلیم حاصل کی، مصنف کے مطابق 2004 میں سینٹ کے انتخابات کے وقت میں امریکی صدر کے انتخابات کے لئے کمپنگ کرنے لئے اپنے آپ کو اہل نہیں سمجھتا تھا یا یوں کہہ لیں اس وقت میں اتنا بہادر نہیں تھا، آج بھی میں اور میرے دوست باسکٹ بال اور لڑکیوں سے دلچسپی لینے والے لاپروا ہیری کو سنجیدہ اوبامہ دے کر حیران ہو کر اپنے آپ سے پوچھتے ہیں، ”یہ کیسے ہوا؟

“ اوبامہ اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کوئی بھی چیز ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتی، تبدیلی ممکنات میں سے ہے، امریکہ کا کامیاب صدر لکھتا ہے کہ میں نے اپنی مایوسی کا علاج صحت مند مطالعے میں دریافت کیا، مجھے آج بھی آدھی قمیتوں پر خریدے جانی والی کتب کا زمانہ یاد ہے، اپنی صدراتی یادداشتوں کا ذکر کرتے ہوئے سابق صدر براک او بامہ نے اپنے بعد منتخب ہونے والے صدر ٹرمپ کے بارے میں کہا کہ مجھے ریپبلک کے الیکٹ ہونے پر کوئی حیرت نہیں ہے البتہ بعض ذرائع ابلاغ کے اداروں کی جانب سے ٹرمپ کو ملنے والی پذیرائی پر حیرت اور ناراضگی ضرور ہے کیونکہ ٹرمپ کی الیکشن کیمپنگ اسلام مخالف تھی جسے مکمل کوریج ملی، انہیں لگتا اس بات نے امریکہ کا امیج متاثر کیا،

انہوں نے وائٹ ہاؤس سے جوڑی اپنی گھریلو زندگی کا بھی ذکر کیا، انہوں نے لکھا کہ ان کی بیٹیاں اس صدراتی باغیچے میں کھیل کر جوان ہوئی ہیں جس میں امریکہ کے 43 صدور کے بچے کھیلے کودے ہیں، پرامس لینڈ میں انہوں نے بارہا اپنی زوجہ کا بھی ذکر کیا، جن سے انہیں ہمیشہ مشاورتی معاونیت اور ٹھوس رائے ملی ہے۔

یہ کتاب سابق امریکی صدر اوباما کے بچپن سے لے کر دور صدارت، مئی 2011 میں عالمی دہشتگرد تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعات تک محدود ہے۔ وہ اپنی آپ بیتی کا دوسرا والیم لکھ رہے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی اشاعت کب ہو گی۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر اوبامہ کی یہ کتاب نو منتخب امریکی صدر ہائیڈن کے انتخاب سے قبل منظر عام پر آجاتی تو ان کے لئے مشکل کا باعث بنتی کیونکہ وہ یکم مئی 2011 کی کارروائی کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھے جبکہ دنیا کے سامنے اس کی کامیابی روز روشن کی مانند عیاں ہے۔

سابق امریکی صدر بارک اوبامہ اس سے قبل بھی دو کتب لکھ چکے ہیں، انہوں نے اپنی نئی کتاب دی پرامس لینڈ کے حوالے سے نوجوانوں کو خصوصی تاکید کی ہے کہ وہ اس کا مطالعہ ضرور کریں۔

سابق امریکی صدر بارک اوباما کی کتاب دی پرومس لینڈ رواں سال کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہو گئی۔ اندازے کے مطابق اوباما رواں سال کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مصنف بھی بننے والے ہیں۔ 2018 ان کی اہلیہ مشیل اوباما اپنی تصنیف بی کمنگ کے حوالے سے سب زیادہ پڑھی جانے والی مصنفہ کی لسٹ میں شامل ہو چکی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).