بلیک فرائڈے


امریکہ میں ’تھینکس گیونگ ڈے‘ کا ایک تہوار منایا جاتا ہے، اور اس کے فوراً بعد جمعہ سے کرسمس کے سیزن کا باقاعدہ آغاز ہو جاتا ہے، دکان دار حضرات گاہکوں کو کرسمس کی خریداری پر راغب کرنے کے لئے اس دن خصوصی رعایت دیتے ہیں، جس کا مقصد خالص کاروباری ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس کے لئے جمعہ کا انتخاب ہی کیوں کیا گیا، تو وجہ محض یہ ہے کہ ’تھینکس گیونگ ڈے‘ ہر سال نومبر کی چوتھی جمعرات کو منایا جاتا ہے اور اس دن امریکہ بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے، لہذا لوگ اسے ’لانگ ویک اینڈ‘ یا ’لمبی چھٹی‘ کے طور پر مناتے ہیں، یعنی جمعہ، ہفتہ اور اتوار بھی چھٹی، جمعرات کو لوگ ضیافت کرتے ہیں اور باقی دن سیر اور تفریح، کاروباری حضرات اس موقع کو منافع بخش بنانے کے لئے، تھوڑی سی رعایت دے کر لوگوں سے ڈھیر سارے پیسے اینٹھ لیتے ہیں اور یہ سلسلہ صرف جمعہ تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ ہفتہ، اتوار تک بھی جاری رہتا ہے۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ’بلیک فرائڈے‘ کی اصطلاح، سب سے پہلے فلاڈلفیا پولیس نے 1966 میں استعمال کی، جب دکان داروں نے حسب دستور، عوام الناس کو راغب کرنے کے لئے ’لوٹ سیل‘ کا اعلان کیا اور لوگوں نے غیر معمولی تعداد میں شاپنگ سینٹروں کا رخ کیا، سب سے بہتر اور سستی چیز حاصل کرنے کی دوڑ میں ( جیسا ہمارے ہاں ڈیزائنرز کی سیل میں ہوتا ہے ) نہ صرف ٹریفک بری طرح جام ہو گیا بلکہ بڑے اسٹوروں میں دھکم پیل مار کٹائی اور لوٹ مار کی نوبت آن پہنچی، اس ساری صورت حال نے فلاڈلفیا پولیس کی دوڑیں لگوا دیں، پولیس چیف نے اس دن کو ڈپارٹمنٹ کے لئے ’بلیک فرائیڈے‘ قرار دے دیا، اگلے دن اخبارات نے پولیس جیف کے بیان کو سرخیوں میں شائع کیا اور اس طرح ’بلیک فرائڈے‘ کی اصطلاح زبان زد عام ہو گئی۔

اس بحث سے قطعہ نظر کہ جمعہ مسلمانوں کے لئے ایک مقدس دن ہے لہذا اس کو سیاہ کہنا درست نہیں، یہ یہودیوں کی سازش ہے وغیرہ، یا اس کے حامی جو عجیب و غریب دلائل دیتے ہیں کہ اگر خانہ کعبہ کا غلاف، اسکارف یا عمامہ سیاہ ہو سکتا ہے تو جمعہ کیوں نہیں؟ بنیادی بات یہ مد نظر رہنی چاہیے کہ ہر خطے اور قوم کی ایک ثقافت ہوتی ہے جس پر روایات، رسم و رواج اور مذہب کی پرت بھی چڑھی ہوتی ہے، مغرب میں لوگ کرسمس جوش و خروش سے مناتے ہیں، اب یہ تہوار مذہبی لحاظ سے زیادہ روایتی طور ہر منایا جاتا ہے، گلوبل ولیج کے دور میں جو قوم سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہو گی اس کے تہوار اور میلے ٹھیلے بھی مقبول ہوں گے، جیسا کہ آج کل ’چائنیز ائر‘ کو دنیا بھر میں منایا جا رہا ہے، اور اس عمل کے پیچھے سازش سے زیادہ کاروبار کا عنصر ہوتا ہے، زمانہ چڑھتے سورج کی پوجا کرتا ہے، مسلمانوں نے ایک عظیم دور گزارا، مغلوں کے جاہ جلال سے متاثر ہو کر انگریزی میں کسی بھی عالی شان چیز کے لئے آج بھی ’مغل‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، باوجود اس کے کہ مغلوں کا جاہ و جلال ماضی کا حصہ بن چکا۔

غیر روایتی عمل کو ہر معاشرے میں تھوڑی بہت مزاحمت ضرور ملتی ہے، روایتی معاشرے میں زیادہ غیر روایتی معاشرے میں کم، انگریزی میں ایک کہاوت ہے، بہتر معلومات، بہترین فیصلے پر منتج ہوتی ہے، ہمیں اس کہاوت کو اپنی گھٹی میں ڈال لینے کی ضرورت ہے۔

برسوں پہلے اقبال نے مسلمانوں کے شکوے کے جواب میں شکوہ کیا تھا،
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).