کورونا وائرس: کووڈ 19 کی ممکنہ ویکسین کے حوالے سے انٹرنیٹ پر موجود افواہوں سے کیسے بچا جائے؟


انٹرنیٹ
پاکستان میں ناصرف کورونا کی عالمی وبا کو لے کر افواہوں کا بازار گرم رہتا ہے بلکہ اس کی ویکسین کے حوالے سے مختلف لوگوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔

اب جبکہ کووڈ 19 کی متعدد ویکسین ممکنہ طور پر تیاری کے قریب ہیں تو پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں ایسے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ انٹرنیٹ پر اس حوالے سے موجود غلط معلومات کی وجہ سے کچھ لوگ ان ممکنہ حفاظتی ویکسینز کو لگوانے سے گریز کریں گے۔

عالمی ادارہ صحت یعنی ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دنیا ناصرف وبائی مرض سے لڑ رہی ہے بلکہ اسے ’انفیوڈیمک‘ یعنی معلومات کی افراط کا بھی سامنا ہے جن میں سے بہت سی غلط ہیں جس کی باعث لوگوں کو اپنی صحت کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اسی کے پیش نظر عالمی ادارہ ویکسین کے متعلق لوگوں کے خدشات کا جواب دینے کی کوشش کر رہا ہے اور ساتھ ہی لوگوں کو سوشل میڈیا پر نظر آنے والی معلومات کا جائزہ لینے میں بھی مدد کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا کے علاوہ وہ چار وائرس جن کی کوئی ویکسین نہیں

کووڈ ویکسین: پہلی ’سنگ میل‘ ویکسین 90 فیصد تحفظ فراہم کرتی ہے

پاکستان میں کورونا ویکسین ٹرائل: رضاکاروں کا جنسی تعلق سے اجتناب برتنا ضروری کیوں ہے؟

21 سالہ نینا اپنی 82 سالہ دادی کے ساتھ لندن میں رہتی ہیں۔ وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو اس بارے میں متفکر ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کووڈ ویکسین کے بارے میں ان کے متضاد خیالات ہیں۔‘

نینا پروڈیوسر ہیں اور یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتیں کہ آیا مستقبل میں وہ کورونا ویکسین کا ٹیکا لگوائیں گی یا نہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ معلومات کی بھرمار نے ویکسین کے پس منظر کی سائنس کو سمجھنا مشکل بنا دیا ہے۔

کورونا

انھوں نے کہا کہ ’ظاہر ہے کہ سب کی طرح میں چاہتی ہوں کہ وائرس جلد سے جلد ختم ہو جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مجھے ابھی تک ویکسین پر بھروسہ نہیں ہو رہا کہ آخر اتنی جلدی کیسے اس کی تیاری ہو گئی۔‘

اور ان کا نظریہ جزوی طور پر سوشل میڈیا پر نظر آنے والے مواد سے متاثر ہے حالانکہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ معلومات کے لیے خبروں کے ’روایتی‘ ذرائع پر بھروسہ کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ٹوئٹر، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر بہت سارے نظریات پھیل رہے ہیں۔ میرے خیال سے لوگ ان سے بہت آسانی سے متاثر ہو جاتے ہیں۔‘

آسکر ہوجسن وکیل ہیں جو امپیریل کالج لندن میں کورونا وائرس ویکسین کے ٹرائل میں شرکت کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ’ہم پر جس تعداد میں معلومات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے اس سے یہ مشکل ہو جاتا ہے کہ ہم کس پر اعتماد کریں۔‘

لیکن وہ مزید کہتے ہیں کہ ’میرے خیال سے اگر ہم مسلسل لاک ڈاؤن اور کرفیو سے دور رہنا چاہتے ہیں تو ویکسین اس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔‘

امید کو قائم رکھنا

محققین نے ویکسین تیار کرنے میں ریکارڈ تیز رفتاری دکھائی ہے اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں اس کی ویکسین کو لے کر سامنے آئے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او 200 سے زیادہ ویکسین ٹرائلز کے ڈیٹا کی نگرانی کر رہا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے عالمی وبا اور وبائی امراض کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سیلوی بریانڈ کہتی ہیں کہ ’مختلف ٹیکنالوجی پر مبنی متعدد قسم کی ویکسین پر کام جاری ہے۔‘

ان پر وہی حفاظتی ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں جو پوری دنیا میں دی جانے والی ویکسینز پر پہلے سے ہو رہی ہیں۔

ڈاکٹر بریانڈ کا کہنا ہے کہ ’اس سلسلے میں مرحلہ تین (انسانی) کا ٹرائل بہت مہنگا ہے۔ لیکن بہت سارے ممالک اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے ساتھ آئے۔ اور جب آپ کے پاس کافی فنڈز ہوں تو کام بھی تیزی سے ہوتا ہے۔‘

پروفیسر لارسن

پروفیسر لارسن کا کہنا ہے کہ ویکسین کی حفاظت کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں

اتنی جلدی کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کی تین اہم وجوہات ہیں:

  • کووڈ کے پھیلنے سے پہلے جو نئی ٹیکنالوجی تیار کی جا رہی تھیں ان کے استعمال سے ویکسین بنانے کے عمل میں تیزی آئی ہے
  • ویکسین کی تحقیق میں اربوں ڈالر صرف کیے گئے ہیں اور اتنے پیسے کے استعمال کے بغیر اس ویکسین کے حصول میں برسوں لگ سکتے تھے
  • اور دنیا بھر کی تقریبا تمام حکومتون کی اولین ترجیحات میں کووڈ 19 سے لڑنے کے طریقے کی تلاش شامل رہی ہے

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس وبائی مرض کے بارے میں جو معلومات مل رہی ہیں وہ تھوڑی تھوڑی آ رہی ہیں اور سائنسدانوں کو آئے روز اس بارے میں نئی چیزیں معلوم ہوتی ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے غلط معلومات کے پھیلنے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔

لندن سکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن میں ویکسین کانفیڈنس پراجیکٹ چلانے والی پورفیسر ہیڈی لارسن نے کہا کہ ’لوگ معلومات کی تلاش میں ہیں اور ان کا سامنا کچھ قابل اعتبار معلومات کے ساتھ ساتھ بہت سی دیگر معلومات سے ہوتا ہے جن میں بعض گمراہ کن اور صریحاً غلط معلومات ہیں۔‘

وہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے دنیا بھر میں ویکسین کے متعلق لوگوں کے اعتماد کا مطالعہ کر رہی ہیں۔

اگرچہ ویکسین کے متعلق ہچکچاہٹ ہمیشہ ہی ایک مسئلہ رہی ہے لیکن انھیں غلط معلومات سے متاثر ہونے کے بارے میں بہت تشویش ہے کہ وہ لوگوں کو کورونا وائرس کی ویکسین لینے میں حائل ہو سکتی ہیں۔

ان کی ٹیم نے حال ہی میں برطانیہ اور امریکہ میں ویکسین کے متعلق لوگوں کے اعتماد کے بارے میں ایک سروے کیا ہے۔

برطانیہ میں چار ہزار افراد میں سے 54 فیصد نے کہا کہ وہ یقینی طور پر ویکسین لیں گے۔ لیکن جب انھیں ویکسین کی حفاظت کے بارے میں غلط دعوے دکھائے گئے تو ان میں چھ فیصد سے زیادہ کی کمی نظر آئی۔

اور کم آمدنی والے افراد اور سیاہ فام و اقلیتی نسلی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان کووڈ کی ویکسین کے بارے میں زیادہ خدشات تھے۔

آن لائن پر غلط معلومات کی شناخت کیسے کریں

  • ماخذ کا اندازہ لگائیں کہ کس نے معلومات شیئر کی ہیں اور انھیں یہ کہاں سے حاصل ہوئی؟
  • شہ سرخی کے آگے بھی پڑھیں، ہو سکتا ہے دانستہ طور پر سنسنی خیز بات بنائی گئی ہو
  • مصنف کی شناخت کریں۔ ان کے نام کو آن لائن پر تلاش کریں تاکہ یہ معلوم ہو کہ آیا وہ حقیقی/ قابل اعتبار ہیں
  • تاریخ کی جانچ کریں کہ آیا یہ تازہ ترین ہے اور کیا حالیہ واقعات سے مطابقت رکھتی ہیں؟
  • اس کی حمایت میں دیے جانے والے شواہد کی تلاش کریں کہ کیا ان دعوؤں کی حمایت میں حقائق موجود ہیں؟
  • اپنے اپنے تعصبات کی جانچ کریں کہ کیا وہ قابل اعتماد فیصلے پر آپ کو متاثر کر سکتے ہیں؟

ذریعہ: ڈبلیو ایچ او

پروفیسر لارسن کا کہنا ہے کہ ’یہ مہینہ ہماری چند نئی ویکسین کے متعلق ناقابل یقین حد تک امید افزا رہا ہے۔

’لیکن ہمارے پاس ابھی تک کوئی مصدقہ ویکسین نہیں ہے۔ لہذا ہمیں امید کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔

’اور سب سے بڑی تشویش میں سے ایک حفاظت ہے۔ لہذا ہم حفاظت کے عمل اور اس حقیقت کے بارے میں بات کر سکتے ہیں کہ ویکسین کی تیاری کے طویل عمل میں شارٹ کٹ کے استعمال کے باوجود اسے بنانے کے عمل میں جانچے پرکھے طریقوں کو احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے۔‘

پروفیسر لارسن ڈبلیو ایچ او اور پوری دنیا کی حکومتوں کے ساتھ غلط معلومات کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کچھ بڑی ٹیک کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔

انسٹاگرام اور واٹس ایپ کی مالک کمپنی فیس بک کا کہنا ہے کہ وہ ایسی معلومات کو ہٹا دیتا ہے جس سے ’نقصان‘ ہو سکتا ہے اور ان میں کووڈ 19 کے علاج معالجے کے بارے میں جھوٹے دعوے بھی شامل ہیں۔

اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس نے ایسے اشتہار پر پابندی لگا رکھی ہے جو لوگوں کو ویکسین لگانے سے روکتے ہیں اور ایسے لوگوں کی تعداد کم کر دی ہے جو ویکسین کی افواہ زیادہ دیکھتے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود کووڈ 19 اور ویکسینوں کے بارے میں آن لائن غلط معلومات حاصل کرنا اور ان پوسٹس کا شیئر کرنا آسان ہے۔

پروفیسر لارسن نے کہا کہ ’ہمیں روک تھام اور پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ کوئی متبادل فراہم کیے بغیر صرف غلط معلومات کو ہٹا نہیں سکتے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp