آزادی اظہار رائے یا نفرت؟


حالیہ دنوں فرانس میں ایک بار پھر رسول اللہ ﷺکے خاکے بنائے جانے پر پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ فرانس کے ایک سکول میں سیمئیول پیٹی نامی ایک ٹیچر کلاس روم میں بچوں کو رسول اکرم ﷺکے خاکے دکھاتا اور طالب علموں کو بھی بنانے کا کہتا۔ اس حرکت پر والدین نے متعدد بار سکول انتظامیہ کو آگاہ کیا کہ سیمئیول پیٹی جغرافیہ کا استاد ہے، مذہب اس کا سبجیکٹ نہیں ہے اور اس سے مسلمان طالب علموں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں مگر انتظامیہ نے اس پر کوئی بھی کارروائی نہیں کی اور یہ عمل معمول کی بنیاد پر جاری رہا۔

اس کے رد عمل کے طور پرایک اٹھارہ سالہ مسلمان طالب علم نے چاقو کے وار سے اس استاد کو قتل کر دیا اور بعد ازاں پولیس نے اس طالب علم کو بھی مار دیا۔ اس کے بعد فرانسیسی صدر نے بھی اس طرح کے خاکوں کی تشہیر کروائی جس سے عالم اسلام میں ایک اضطراب کی سی کیفیت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی متعدد بار یہ سب کیا جا چکا ہے اور یہ سب۔ ’آزادی اظہار رائے‘ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

اس سے پہلے امریکہ میں بھی ایک اسلام مخالف تنظیم۔ ”امریکن فریڈم ڈیفینس انیشی ایٹو“ نے باقاعدہ ایک نمائش کا اہتمام کیا تھا جس میں باقاعدہ خاکے بنانے کا مقابلہ رکھا گیا تھا۔ جس کے ردعمل میں بھی پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج تھے۔ ”آزادی اظہار رائے“ کی آڑ میں کیا کچھ کیا جا سکتا ہے اور کیا کچھ نہیں۔ اگر اس کو عالمی سطح پر طے نہ کیا گیا تو پوری دنیا کے امن پر سوال اٹھتا رہے گا۔ آزادی اظہار رائے پر دوغلا پن اس وقت بھی دیکھا گیا جب ایک امریکی خاتون نے امریکہ ہی کے صدر سے افغانستان اور عراق کے بارے میں امریکی پالیسی پر سخت سوالات کیے تو اس خاتون کے سوالات کے جوابات تو درکنار، اس خاتون کو سوالات بھی مکمل نہیں کرنے دیے گئے اور اس کو وہاں موجود گارڈز کے ذریعے زبر دستی اٹھا کر ہال سے باہر پھنکوا دیا گیا جس کو کیمروں کی آنکھ نے محفوظ کیا۔

اس وقت آزادی اظہار رائے کے دعویداروں کو تمام اخلاقی اسباق بھول گئے۔ کیا آزادی اظہار رائے کی آڑ میں کسی کو امریکی صدر یا فرانسیسی صدر کے خلاف اس طرح کی بات کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ کیا جس طرح کے خاکے رسول اللہ ﷺ کے بنائے گئے ہیں مغربی ممالک کے صدور کے اس طرح کے کارٹون بنائے جا سکتے ہیں؟ کیا کسی کو ہولوکاسٹ کے خلاف اس طرح کی بات کرنے کی اجازت ہے؟

مغربی دوغلے پن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں کسی کو کسی بھی فرد کی توہین کی اجازت نہیں ہے مگر رحمت دو عالم رسول اللہ ﷺ کی توہین ان کے نزدیک آزادی اظہار رائے ہے۔ کسی کو بھی وہاں کسی ملک کے آئین کی توہین کی اجازت نہیں ہے۔ مگر فرانسیسی حکمران نے توہین آمیز خاکوں سے دل برداشتہ مسلمانوں کے دلوں پر مرہم رکھنے کی بجائے شدت پسندوں کو اسلام پر حملہ کرنے اور اسلام فوبیا کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اگر کوئی شخص امریکہ یا فرانس یا دیگر ممالک میں ان کے جھنڈے کو جلائے تو کیا اس کو ان پرچموں کی توہین کرنے کی اجازت ہے؟

کیا اس عمل کو ”آزادی اظہار رائے“ کہا جائے گا؟ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف اس طرح کے رویے مذہبی منافرت پھیلانے، اسلام دشمنی میں اضافہ اور انتہا پسندی اور دہشت گردی میں مزید اضافہ کریں گے اس سے عالمی معاشرہ مزید تقسیم ہو گا اور دنیا کے امن کے لیے بھی تشویش کا باعث ہوگا جس کی دنیاء متحمل نہیں ہو سکتی۔

اس لیے عالمی دنیا کو چاہیے کہ آزادی اظہار رائے کی حدود کو متعین کیا جائے تاکہ کسی بھی مذہب کے پیشواؤں کے خلاف متنازع عوامل کو روکا جاسکے اور کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اس لیے اسلام نے کسی کے جھوٹے خداؤں کو بھی برا بھلا کہنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ اسلام ایک اعتدال پسند مذہب ہے۔ اسلام کبھی بھی پر تشدد واقعات کی حمایت نہیں کرتا بلکہ اسلام تو دوسروں کے جذبات کی قدر کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ العنکبوت کی آیت 26 میں بھی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اگر کسی بات میں اختلاف کی وجہ سے بحث ہو جائے تووہ بحث بھی احسن طریقے سے کی جائے۔

اسلام ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے چاہے کوئی اشتعال دلائے۔ ہمیں متعلقہ ممالک کے آئین اور قوانین کے دائرے میں رہ کر پر امن ڈائیلاگ علم اور دلیل کے ذریعے اکثریت کو اپنی شناخت اور طرز زندگی کا قائل کرنا ہوگا۔ اس طرح کی گستاخیاں اور پرتشدد واقعات وہاں رہنے والے مسلمانوں کے مسائل میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں اس لیے ہمیں اس طرح کے واقعات کی مذمت کرنی ہوگی اور ساتھ ساتھ اپنی اصلاح بھی کرنی ہوگی۔

اسلام ہمیں ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کو تیسرے کی موجودگی میں ایک دوسرے کے کان میں بات کرنے سے بھی منع کرتا ہے تا کہ تیسرے کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے بھی محبت کا درس دیا۔ اسلام کی کوئی ایک تعلیم بھی تشدد کی حمایت نہیں کرتی لیکن میں عالم اسلام سے یہ بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے خاکے بنا رہے ہیں۔

کیا انہوں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے؟ یقیناً جواب ”نہیں“ میں ہی ہوگا۔ اگر انہوں نے نہیں دیکھا تو یہ کس کے خاکے بنا رہے ہیں؟ یہ کس سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں؟ اللہ پاک نے رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک کو اس سب سے محفوظ رکھا ہوا ہے کیونکہ جس کو دیکھا ہی نہیں اس کے خاکے کیونکر بنائے جا سکتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک ان سب خرافات سے بہت بلند و بالا ہے۔ یہ سب ان لوگوں کے شیطانی ذہن کی عکاسی کرتا ہے جو محض معاشرے میں عدم استحکام کے سوا کچھ نہیں۔

میں بڑے درد دل سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ یہ ہم مسلمانوں کے ہی خاکے بنا رہے ہیں ان لوگوں نے نہ تو کبھی رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور نہ ہی شاید پڑھا ہے یہ لوگ ہم مسلمانوں کو دیکھتے ہیں اور ہمارے ہر برے عمل پر قیاس کرتے ہیں کہ شاید اسلام اس کی تعلیم دیتا ہے۔ ان خاکوں کے ذمہ دار ہم مسلمان خود ہیں ہم اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اسلام کی ذلت کا باعث بن رہے ہیں جس کی وجہ سے اس طرح کے واقعات اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔ ہمیں اپنے اعمال میں تبدیلی لانا ہوگی تا کہ ہماری وجہ سے نہ کوئی رسول اللہ ﷺ پراور نہ ہی اسلام پر انگلی اٹھا سکے اور اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے تو اس طرح خاکے بنانے والی تقاریب اور واقعات میں خودبخود تخفیف ہوتی چلی جائے گی اور اسلام کا بول بالا ہو گا۔

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).