پاکستانی فلموں اور ٹی وی کی ایک مدھر آواز۔ مسعود رانا


گزرے وقتوں میں ریڈیو سٹیشن کسی بھی فنکار کی ابتدائی درس گاہ ہوتی تھی، جہاں سے وہ کچھ سیکھ کر عملی زندگی میں قدم رکھتے اوراپنی محنت اور ذہانت سے اپنا ایک مقام بنا لیتے تھے۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد بھی ایک ایسی ہی درسگاہ تھی، جس نے سندھ کے بہت سے فنکاروں کوپروان چڑھایا۔ ان بہت سے فنکاروں میں سب سے نمایاں ممتازاداکار محمد علی۔ اداکار مصطفے قریشی اور گلوکار مسعود رانا ہیں، جنہوں نے اپنے سفر کا آغاز حیدرآباد ریڈیو سٹیشن سے کیا اورپھر اپنی محنت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر فلمی دنیا میں اپنا ایک مقام بنایا۔ محمد علی پاکستان فلمی صنعت کے سب سے بڑے اداکار، شہنشاہ جذبات۔ مصطفی قریشی پنجابی اور اردو کے سب سے بڑے ولن۔ مسعود رانا ایک ایسے منفرد گلوکار جن کے گائے ہوئے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کے گانے یکساں مقبول ہوئے۔

مسعود رانا 1938 ء میں سندھ کے شہر میرپور خاص میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا جو مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر سے ہجرت کر کے میرپور خاص سندھ میں آ کر آباد ہوا تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم میرپور خاص میں ہی مکمل کی۔ گلوکاری کا شوق تھا جس وجہ سے گھر سے ناراضگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان دنوں زمیندار گھرانوں کے بچوں کا گانا بجانا بہت برا سمجھا جاتا تھا۔ آپ کو گلوکاری کا یہ شوق حیدرآباد ریڈیو سٹیشن لے گیا۔

جہاں سے 1955 میں سترہ سال کی عمر میں آپ نے گلوکاری کا آغاز کیا۔ تین چار سال یہاں سے موسیقی سیکھنے اور تجربہ حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کراچی کا رخ کیا۔ اس وقت کراچی بھی فلموں کا ایک مرکز تھا اور یہاں بھی فلمیں بنتی تھیں۔ یہاں اپنا فلمی سفر شروع کرنے سے پہلے 1960 کی دیہائی کے اوائل میں انہوں نے ممتاز فلمی اداکار ندیم بیگ اور مرحوم گلوکار اخلاق احمد سے مل کر ایک میوزک گروپ ترتیب دیا اور شہر میں پروگرام کرنے لگے۔ یہ اداکار ندیم اور اخلاق احمد کا بھی ابتدائی دور تھا۔

ان کو میوزک میں پہلی کامیابی اس وقت ملی جب ممتاز اداکار ساقی نے انہیں فلمساز اور ہدایتکار اقبال شہزاد اور موسیقاردیبو بھاٹاچاریہ سے متعارف کروایا۔ زندگی میں کوئی نہ کوئی آدمی کسی کے لئے مستقبل کا دروازہ کھولتا ہے تو ان کے لئے یہ دروازہ ساقی نے کھولا۔ مسعود رانا نے اپنا پہلا فلمی گانا فلم انقلاب کے لئے گایا جس کے موسیقار این کے راٹھور تھے اور گانے کے بول تھے ”مشرق کی تاریک فضا میں نیا سویرا پھوٹا“ ۔ لیکن انھیں اصل شہرت اپنی دوسری فلم بنجارن ملی جو ان کی مقبولیت کی وجہ بھی بنی۔ اس فلم کی موسیقی دیبو بھاٹاچاریہ نے ترتیب دی تھی۔

موسیقاردیبو بھاٹاچاریہ کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ ان کا تعلق ہندو مذہب سے تھا۔ دیبو پچاس کی دیہائی کے وسط میں ہندوستانی موسیقار تیمر بار کی مدد کے لئے مغربی پاکستان آئے تھے، جو ہندوستانی اداکارہ شیلارانی کی فلم انوکھی کی موسیقی ترتیب دینے کراچی آیا تھا۔ بار تو ہندوستان واپس چلا گیا لیکن دیبو نے کراچی میں ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کی پہلی کامیاب فلم بنجارن ہی تھی جو ان کی موسیقی، خاص کر نورجہاں کے گائے ہوئے نغمے ”نہ جانے کیسا سفر ہے میرا“ کی وجہ سے بہت ہٹ ہوئی۔

بدنام فلم کا ثریا ملتانیکر کا گایا ہوا شہرہ آفاق نغمہ ”بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے، کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا“ ان کی ہی موسیقی کا ایک شہکار ہے جو فلم میں اداکارہ نبیلہ پر فلمایا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد دیبو بنگلہ دیش چلے گئے۔ جہاں شنید ہے کہ نوے کی دیہائی میں ان کی وفات ہو گئی۔

بنجارن فلم میں گانے گانے کے علاوہ مسعود رانا نے مہمان اداکار کے طور پر کام بھی کیا۔ دیبو نے مشہور انڈین فلمی گلوکار محمد رفیع کی طرح ان کی آواز کے اونچے سر کی وجہ سے مسعود رانا کو یہاں ”پاکستانی رفیع“ کے نام سے متعارف کرایا۔ مسعودرانا نے ابتدا میں اس ساکھ کو زندہ رکھنے کی کوشش کی لیکن بعد ازاں اپنے گانے کا ایک اپنا انداز اپنا لیا۔ جس کے لئے انہوں نے بلند لے میں مشکل سے مشکل گانا گانے کی مہارت حاصل کی۔ پاکستانی فلمی صنعت میں وہ فلموں کے ٹائیٹل اور تھیم گانے گانے کے لئے موسیقاروں کی پہلی پسند اور ترجیح ہوا کرتے تھے۔

1964 میں پنجابی فلم ڈاچی کا گانا ”ٹانگے والا خیر منگدا“ ان کا گایا ہوا ایک بہت ہی مشہورنغمہ تھا جس کے نغمہ نگار حزیں قادری اور موسیقار بابا غلام احمد چشتی تھے۔ اس گانے نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا، پھر اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں ہی کی فلموں کے سب سے بڑے اور مقبول گلوکار بن گئے۔ 1966 میں بنی فلم ہمراہی میں ان کے گائے ہوئے سات میں سے چھ گانے سپر ہٹ ثابت ہوئے، جن کو مظفر وارثی نے لکھا اور موسیقی تصدق حسین نے ترتیب دی تھی۔

مسعو رانا اب بھی پاکستانی فلمی صنعت میں وہ واحد مرد گلوکار ہیں، جنہوں نے اردو اور پنجابی زبان میں سے ہر ایک میں تین سو سے زیادہ گانے گائے ہیں جن میں سے بیشتر اب بھی زبان زد عام ہیں۔ انہوں نے اپنے چونتیس سال کے فلمی سفر میں 550 سے زیادو فلموں کے گانے گائے۔ وہ کبھی تھکے نہیں، انہوں نے 1962 سے لے کر اپنی وفات تک مسلسل کام کیا۔ وہ اپنے وقت کے سب سے کامیاب گلوکار مانے جاتے تھے۔

حزیں قادری ہماری فلم انڈسٹری کے ایک بہت ہی کامیاب گیت نگار۔ کہانی نویس اور فلمساز رہے ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے زیادہ تر گانے مسعود رانا نے گائے جن میں بیشتر گانے بہت ہی مشہورہوئے۔ وہ اتنے مدھر نغمات ہیں کہ اب بھی ان کو سنیں تو کانوں کو بھلے لگتے ہیں۔ ایسے ہی گیتوں میں ”ٹانگے والا خیر منگدا“ ، ”سجناں نے بوہے اگے چک تان لئی“ ، ”سوچ کے یار بناویں بندیا“ دل دیا لگیاں جانے نا ”“ یا اپنا کسے نوں کر لے یا آپ کسے دا ہو بیلیا ”“ صدقے میں جاواں اونہاں توں، جنہاں دیاں بانکیاں ٹوراں ”وغیرہ شامل ہیں۔

مسعود رانا پاکستان فلمی تاریخ کے سب سے بہترین ہر فن مولا گلوکار تھے۔ ہر رنگ، ہرڈھنگ اور ہر انگ میں گاتے تھے۔ ان کے فلمی سفر کا کوئی سال ایسا نہ تھا جس میں ان کی کوئی فلم ریلیز نہ ہوئی ہو۔ انہوں نے چند فلموں میں اداکاری بھی کی۔ 1970 میں بنی فلم ”شاہی فقیر“ میں وہ مرکزی کردار جبکہ 1968 کی فلم ”دو مٹیاراں“ اور 1971 کی فلم ”یار بادشاہ“ میں سائڈ ہیرو تھے۔ اس کے علاوہ فلم دو رنگیلے۔ سنگدل۔ نوکر وہٹی دا، خوشیا اور دوستانہ میں مہمان اداکار کے طور پر کام کیا، لیکن اس شعبے میں وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوئے، کیونکہ وہ بنیادی طور پر ایک گلوکار ہی تھے۔

انہوں کے گائے ہوئے مادر وطن کے ترانے اب بھی خون کو گرما دیتے ہیں۔ فلم آگ کا دریا کا جوش ملیح آبادی کا لکھا ہوا ”اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں“ فلم مجاہد کا شوکت علی کے ساتھ گایا ہوا ترانہ جاگ اٹھا ہے سارا وطن۔ ساتھیو، مجاہدو، بہت ہی ولولہ انگیز ہیں۔ ستمبر کی جنگ کے شہیدوں اور غازیوں کی یاد میں فلم ہمراہی کا ”یاد کرتا ہے زمانہ ان انسانوں کو“ اور بہت سے دوسرے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی یاد میں ان کا گایا ہواملی نغمہ ”ملت کے پاسباں ہیں محمد علی جناح“ کا توکوئی ثانی نہیں ہے۔ مظفر وارثی کی لکھی ہوئی نعت ”کرم کی اک نظر ہم پر خدارا یارسول اللہ“ آج بھی سنی جاتی ہے۔ کسی فنکشن میں جاتے ہوئے ٹرین میں سفر کے دوران پڑھنے والا دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا اور وہ اکتوبر 1995 میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اب وہ اقبال ٹاؤن لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔

ان کے گیتوں کا ایک ذخیرہ میری میوزک لائبریری میں موجود ہے۔ ان کے سب ہی گیت یادگار ہیں اور مجھے بھی بہت پسند ہیں جنھیں میں اکثر سنتا بھی ہوں۔ ان کی ایک بہت لمبی فہرست ہے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں۔

٭ تم ہی ہو محبوب میرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں۔ فلم آئینہ۔ 1966
٭ تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے۔ فلم چاند اور چاندنی۔ 1968
٭ جھوم اے دل وہ میرا جان بہاراں آئے گا۔ فلم دل میرا دھڑکن تیری۔ 1968
٭ میرا خیال ہو تم میری آرزو تم ہو۔ فلم نازنین۔ 1969
٭ تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں۔ فلم آنسو۔ 1971
٭ میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا۔ فلم بہاروپھول برساؤ۔ 1972
٭ آگ لگا کر چھپنے والے سن میرا افسانہ۔ فلم دل لگی۔ 1974
٭ اے دل تجھے ان سے کیسی یہ شکایت ہے۔ فلم شرارت۔ 1969
٭ دور ویرانے میں اک شمع ہے روشن کب سے۔ فلم نائیلہ۔ 1965
٭ او میرے شوخ صنم ہوا دیوانہ تیر ا۔ فلم سنگدل۔ 1968
٭ ہار دینا نہ ہمت کہیں ایک سا وقت رہتا نہیں۔ فلم پاک دامن۔ 1969
٭ یہ وعدہ کرو کہ محبت کریں گے۔ فلم دامن اور چنگاری۔ 1973 )

انہوں نے اپنے فلمی سفر میں اپنے وقت کے سب ہی گلوکاراؤں کے ساتھ دوگانے گائے ہیں۔ ان کے گائے ہوئے گانے سب ہی ہیروز پر فلمائے گئے۔ ساٹھ اور ستر کی دیہائی میں ان کا طوطی بولتا تھا۔ نغمہ نگارمظفر وارثی کے لکھے اور موسیقارتصدق حسین کی موسیقی میں ان کے گائے ہوئے فلم ہمراہی کے سات میں سے چھ گانے ہٹ ہوئے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ مسعود رانا نے دو دفعہ نگار ایوارڈ حاصل کیا، انیس سو پینسٹھ میں فلم مجاہد اور 1971 میں فلم آنسو میں ان کو ملا۔ ان کے گائے ہوئے غیر فلمی نغموں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔ ان کے گائے ہوئے پنجابی نغمے بھی یکساں ہی مقبول ہوئے۔ ان کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں سے کافی نغموں کا ذکر مضمون میں پہلے آ چکا ہے۔ کچھ مزید یہ ہیں۔

٭ تیرے ہتھ کی بیدردا آیا کہ پھلاں جیا دل توڑ کے۔ فلم شیراں دی جوڑی۔ 1969
٭ سجناں اے محفل اساں تیرے لئی سجائی اے۔ فلم دو رنگیلے۔ 1973
٭ یار منگیا سی ربا تے تھوں رو کے کہیڑی میں خدائی منگ لئی۔ فلم عشق نچاوے گلی گلی۔ 1984
٭ سجنوں اے نگری داتا دی۔ فلم نگری داتا دی۔ 1974
٭ تیرے مدھ بھرے نین مل پین۔ فلم جیرا بلیڈ۔ 1974


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).