ہندو ہمارے بھائی ہیں


چند دن ہوئے دیوالی (دیپ آولی) گزری ہے، یہ ہندو ؤں کا مذہبی تہوار ہے۔ ہمارے دوست، ڈاکٹر راجیش پانڈے انگلینڈ میں کئی سال سے مقیم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کافی دھارمک آدمی ہیں، کچھ تو عمر کا تقاضا اور کچھ پردیس کا معاملہ، تو ایسے میں وہ تمام مذہبی تہوار خاصے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ انہوں نے گھر کا ایک کونا مندر بنا رکھا ہے جہاں وہ دیوالی کی مخصوص پوجا کا اہتمام کرتے ہیں اور رامائن کے کچھ باب پڑھتے ہیں۔ سیتا اور رام کی واپسی کی خوشی میں دیے روشن کرتے ہیں اور دو ہفتے کے لئے صرف سبزی خوری کرتے ہیں اور گوشت نہیں کھاتے۔

یہ اور بات کہ عام دنوں میں گوشت اور مرغن کھانے بڑی رغبت سے تناول فرماتے ہیں۔ عادتاً خاصے ظریف آدمی واقع ہوئے ہیں کہ ان کی صحبت میں تھوڑا وقت گزارنے کے بعد مارے ہنسی جبڑوں میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ دوسروں کی باتوں سے مزاح کشید کرنے کے علاوہ اپنا مذاق بنانے میں بھی کوئی تامل نہیں رکھتے۔ حلقۂ احباب میں خاصے مقبول ہیں۔ ’شعلے‘ فلم کے گبر سنگھ کی نقالی توایسی خوبی سے کرتے ہیں کہ جب وہ ’پچاس پچاس کوس دور گاؤں میں جب بچہ رات کو روتا ہے تو ماں کہتی ہے بیٹے سو جا سو جا نہیں تو گبر آ جائے گا‘ پکارتے ہیں تو محفل میں موجود مائیں اپنے بچوں کوڈر کے مارے سینوں سے لگا لیتی ہیں اورجب فلم ’سلسلہ‘ کا گانا ’رنگ برسے‘ گاتے ہیں تو ہر سو ہولی کے رنگ بکھرنے لگتے ہیں۔ کئی بار خیال آتا ہے کہ اگر وہ ڈاکٹری کی بجائے اس فن میں قسمت آزمائی کرتے تو یقیناً ایک بڑے اداکار ہوتے۔

اتفاقاً میری اور ان کی چند قدریں مشترک ہیں، ایک معاملے میں تو انہیں میرا پیر بھائی بھی کہا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ ہماری طرح، وہ بھی اپنی بیگم سے بہت ڈرتے ہیں بلکہ عمر اور تجربے میں بڑا ہونے کے ناتے اس روحانی سلسلہ کے بزرگان میں شمار ہوتے ہیں۔ شمالی ہندوستان سے تعلق کی بنا پر ان کی رنگت اور شباہت بھی مجھ سے ملتی ہے۔ بقول ہماری زوجہ، ’آپ جب ساٹھ سال کے جوان ہوں گے تو بالکل راجیش بھائی جیسے لگیں گے‘ ۔ بات صرف نین نقش تک محدود نہیں بلکہ ان کی زبان، رہن سہن، خوراک اور رواج بھی ہم پاکستانیوں سے کافی ملتے جلتے ہیں۔ اگر کوئی ان کا تعارف راجیش پانڈے کی بجائے ڈاکٹر بلال قریشی کے طور پر کروائے تو آپ فوراً مان جائیں۔

ہمارے ایک اور دوست ڈاکٹر ترپاٹھی بھی ایسے ہی بذلہ سنج، خوش گفتار اور مخلص آدمی ہیں۔ قلاشی کے جن دنوں میں ہم دونوں نوکری کی تلاش میں سرگرداں تھے تو مجھے نماز کے بعد دعا کرتے دیکھ کر پوچھا کرتے ’کون سی دعا کرتے ہو؟‘ میں نے استخارہ کی دعا اور اس کے فوائد بتائے۔ انہوں نے مجھ سے دعا کا ترجمہ سنا اور ہندی میں لکھ لیا کہ وہ بھی یہی دعا کریں گے تاکہ اچھی نوکری ملے۔

ان چندسالوں میں اور بھی بہت سے ہندوستانی لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا اور بالعموم سب کو اچھا ہی پایا اور جہاں وہ تاثر جو ہم پاکستان میں ہندوؤں کے بارے میں رکھتے ہیں وہ تبدیل ہوا وہیں ان کے ساتھ ایک تعلق کا احساس پیدا ہوا۔

جب ہندوستانی اور پاکستانی کسی نئے ملک کے باسی بنتے ہیں تو وہاں کی اجنبیت میں ان دونوں کی باہمی مشابہت انہیں کھینچ کر قریب لے آتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کمبھ کے میلے میں ایک دوسرے سے جدا ہو جانے والے دو بھائی ہوں۔ ایک اجنبی دیس کا موسم، رہن سہن، خوراک، ثقافت، زبان، فنون اور دلچسپیاں ہمارے لئے غیر مانوس ہوتی ہیں لیکن ہندوستانیوں سے ان سب عناصر کا اشتراک فرحت کا احساس دلاتا ہے اور پردے اٹھنے لگتے ہیں۔

غیر ملک میں دونوں کی قومیت نئے ملک سے جڑ جاتی ہے لیکن برصغیر سے تعلق کی بنا پر شناخت ایک سی رہتی ہے۔ ہماری طرح وہ بھی اپنے وطن کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں، اور اپنے وطن میں ناخواندگی، نا انصافی، آلودگی اور نظام کی خرابی جیسے مسائل کا رونا روتے ہیں۔ کرکٹ کے دونوں ہی شیدائی ہیں اور جوئے کے الزامات دونوں ہی لگاتے ہیں۔ وہ بھی اپنے مذہبی جنونیوں کو برا سمجھتے ہیں اور ہم بھی انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہیں۔

تمام مذاہب کے افراد ایک آدم کی اولاد اور اس ناتے سے بھائی ہیں۔ مذہب ہرانسان کا اس کے رب کے ساتھ ذاتی معاملہ ہے۔ انسانوں کا باہمی رشتہ مذہب ہی کی بنیاد پرنہیں ہوتا بلکہ اس کے بیسیوں پہلو ہیں جو حقیقی وابستگی کی بنیاد ہیں۔ ہمیں آپس میں ملانے والے عناصر زیادہ ہیں اور جدا کرنے والے کم۔ جیسے انڈین فلم کرانتی ویر کے ایک منظر میں نانا پاٹیکر نے اپنا اور ایک مسلمان کا خون بہا کر اپنی ہتھیلی پر ملایا اور پوچھا کہ ہندو اور مسلم خون تو ایک سا ہے، جب بنانے والے نے کوئی فرق نہیں رکھا تو تم کون ہوتے ہو فرق کرنے والے۔

ہم پاکستانی اور ہندوستانی اصل میں دو الگ گھروں میں مقیم ایک ہی برادری کے افراد ہیں۔ ہماری ہزار سالہ تاریخ ایک ہے، ہم سب پہ ہندو بادشاہوں نے طاقت اور اقتدر کے نشے میں، اتنے ہی مظالم کیے ہیں جتنے کہ مسلمان بادشاہوں نے اور غیر مسلم بادشاہ بھی اتنے ہی اچھے تھے جتنے مسلمان۔ لیکن افسوس اب یہی مشترکہ تاریخ مذہب کے حوالے سے الگ الگ ہندو اور مسلمان تاریخ بن چکی ہے۔

میری ذاتی رائے میں ہندوستان اور پاکستان کی چپقلش، بنیادی طور پر ایک جغرافیائی تنازعہ ہے جس کی بنیاد پہ پچھلے ستر برس سے جنگیں لڑی جا رہی ہیں دشمنیاں پالی جا رہی ہیں اور دوریاں بڑھائی جا رہی ہیں، لیکن جونہی آپ قومی تعصب کی عینک اتار کر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گلزار ٹھیک کہتے ہیں

’ آنکھوں سے مانوس تھے سارے۔
چہرے سب کے سنے سنائے ’

پاکستان ہندوستان اور بنگلہ دیش اب احتجاجی تحریکیں یا قوم پرست نعرے نہیں رہے بلکہ تاریخی حقیقتیں ہیں۔

نقشے پہ کھنچی کچی لکیریں زمین پہ بنی پکی سرحدوں میں بدل چکی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اپنی اپنی سرحدوں میں ہم لوگ ایک دوسرے سے بہت دور رہتے ہیں لیکن جونہی ان سرحد وں کے حصار سے نکلتے ہیں توایک خاندان کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔

اختلافات اپنی جگہ ہیں، آپ ظلم کی مذمت ضرورکریں، آواز بھی اٹھائیں لیکن جیسے دو مختلف نظر یات رکھنے والے انسان اٹھاتے ہیں۔ کرانتی ویر کے ایک منظر میں جب کچھ غنڈے ایک بوڑٖھے پر تلواریں سونت کر پوچھتے ہیں کہ بتا تو ہندو ہے یا مسلمان تو وہ بولا کہ ’اگر تم لوگ مسلمان ہو تو مجھے ہندو سمجھ کے مار دو اور ہندو ہو تو مسلمان سمجھ کے مار دو۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).