بی آڑ ٹی میں خواتین کے لیے سہولتیں تو ہیں لیکن مردوں کے رویوں کا کیا کریں؟


بی آر ٹی
پاکستان میں خواتین کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت جہاں جہاں بہتر ہوئی ہے وہاں معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور خواتین اب آسانی سے اور کم خرچ میں سفر کر رہی ہیں۔

بڑے شہروں میں جہاں اس طرح کی سروس شروع ہوئی ہے، وہاں خواتین کے مطابق یہ ایک بڑی سہولت ہے۔ پشاور میں بی آر ٹی یعنی بس ریپڈ ٹرانزٹ کی سروس شروع ہونے کے بعد جہاں طالبات کو سہولت دستیاب ہوئی ہے وہاں ورکنگ وومن اور خاص طور پر گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو کم خرچ میں اپنی منزل تک پہنچنے میں مدد ملی ہے۔

چلیں موازنہ کرتے ہیں، وہ پرانی مزدا بسیں، فورڈ ویگنیں جن میں فرنٹ کی دو سیٹوں پر چار خواتین کو بیٹھا دیا جاتا تھا، مزدا بس کے انجن پر خواتین کی جگہ ہوتی تھی، اور خواتین کے لیے مختص دروازے سے مرد بھی داخل ہوتے اور خواتین کی نشستوں پر بیٹھ جاتے۔

اکثر مرغیوں کی طرح ان میں لوگوں کو ٹھونس دیا جاتا اور بس کی چھتوں پر لوگوں کو بیٹھا دیا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پشاور: کمرشل گاڑیوں پر خواتین کی فحش تصاویر کے خلاف مہم

قبائلی جرگے خواتین کے حقوق کے محافظ؟

بی آر ٹی منصوبے میں مزید نقائص سامنے آ گئے؟

بی آر ٹی

ذرا سوچیں ان مزدا بسوں اور ویگنوں کی سیٹیں میل سے کالی ہو چکی ہوتیں اور اندر سخت بدبو سے دم گھٹنے لگ جاتا تھا۔ آدھا آدھا گھنٹہ یہ بسیں سواریوں کے انتظار کے لیے کھڑی رہتیں اور بعض اوقات یہ شکایت بھی ہوتی کہ کرایہ زیادہ وصول کیا جا رہا ہے۔

ان بسوں سے متعلق اکثر خواتین یہ شکایت کرتی تھیں کہ مرد ان کے ’قریب تر‘ ہونے کی کوششیں کرتے تھے۔

حالات اب قدرے بدلے ہیں۔ اب صاف ستھری بسیں دستیاب ہیں، ان میں انٹرنیٹ اور موبائل فون چارج کرنے کی سہولت دستیاب ہے، گرمیوں میں ایئر کنڈیشن اور سردیوں میں گرم بسیں منزل تک پہنچانے کا کام کرتی ہیں۔

اگر کچھ عرصہ پہلے کا موازنہ موجودہ پشاور سے کیا جائے تو قدرے فرق ضرور نظر آتا ہے۔ اب خواتین روزگار اور تعلیم کے لیے آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتی ہیں۔ اگرچہ یہ سہولت اب تک صرف ایک محدود علاقے میں میسر ہے لیکن بی آر ٹی کی مکمل سروس شروع ہونے کے بعد اس کے اس شہر اور صوبے پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں۔

ایک متوسط گھرانہ جو ٹیکسیوں کے خرچے برداشت نہیں کر سکتا اور پشاور کی پرانی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا آسان نہیں سمجھتا، ایسے میں بی آر ٹی کی سروس بہت بڑی سہولت ہے۔

عورت فاؤنڈیشن کی عہدیدار صائمہ منیر نے بی بی سی کو بتایا کہ آن لائن ٹیکسی سروس کے بعد جو سب سے آسان محفوظ اور سستی ٹرانسپورٹ مہیا ہوئی ہے وہ بی آر ٹی ہے جس کے ذریعے اب وہ خواتین بھی گھروں سے باہر نکلی ہیں جو پہلے ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی تھیں۔

’عام خواتین کے مشاہدے میں آیا ہے کہ اب ایسی خواتین باہر نکلی ہیں جو پڑھی لکھی ہیں یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلے حاصل کر رہی ہیں۔‘

صائمہ منیر کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو مکمل کیا جائے یعنی اس کی شٹل سروس ان تمام علاقوں میں شروع کی جائے جہاں سے لوگ اپنے کام کے مقامات تک جاتے ہیں۔

بی آر ٹی

رفعت انجم نے بتایا کہ انھوں نے حیات آباد میں گھروں میں کام کرنے والی خاتون کو دیکھا ہے جو اس بس میں بیٹھ کر خوش تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ آسانی ہو گئی ہے کہ اب وہ کم خرچ میں زیادہ کام کر سکتی ہے۔

مقامی خاتون صحافی رفعت انجم نے بتایا کہ انھوں نے حیات آباد میں گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو دیکھا ہے جو اس بس میں بیٹھ کر خوش تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ آسانی ہو گئی ہے کہ اب وہ کم خرچ میں زیادہ کام کر سکتی ہیں۔

بی آر ٹی کی شٹل سروس اب تک صرف حیات آباد میں شروع کی گئی ہے اور حیات آباد میں پشاور کے دیگر مضافاتی علاقوں سے لگ بھگ چار سو ایسی خواتین لوگوں کے گھروں میں کام کرنے آتی ہیں جو روزانہ کا 200 روپے تک خرچہ برداشت کرتی تھیں۔ اب اس شٹل سروس سے وہ حیات آباد کے تمام حصوں میں آسانی سے سفر کر سکتی ہیں۔

حیات آباد کے فیز 7، فیز 2 اور فیز 3 میں کام کرنے والی ایک خاتون صفیہ (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ پشاور کے مضافاتی علاقے بڈھ بیر میں رہتی ہیں اور کام کے لیے روزانہ حیات آباد جاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حیات آباد میں پہلے وہ ایسے تین مقامات پر برتن دھونے اور صفائی کے لیے نہیں جا سکتی تھیں اور اگر جاتیں تو اس کے لیے انھیں ٹیکسی لینی پڑتی تھی جس سے ان کا خرچ بڑھ جاتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ 30 سے 40 روپے میں ان تینوں مقامات پر چلی جاتی ہیں اور کام مکمل کر لیتی ہیں۔

بی آر ٹی

کیا خواتین کے لیے سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے؟

پشاور میں جہاں خواتین کو یہ سہولت دستیاب ہوئی ہے، وہاں اس سے جڑے مسائل بھی موجود ہیں جن کے حل کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

پبلک ٹرانسپورٹ میں جتنی بھی جدت کیوں نہ آ جائے، خواتین کو درپیش مسائل میں کمی تو واقع ضرور ہوئی ہے، لیکن لوگوں کے رویے تبدیل نہیں ہوئے۔ خواتین کو کسی نہ کسی شکل میں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ بقول خواتین کے ایسے افراد اب بھی موجود ہیں اور ایسی نظریں بھی موجود ہیں جو گھور گھور کر خواتین کا تعاقب کرتی رہتی ہیں۔

یہ مشاہدہ ان خواتین کا ہے جو پشاور میں بی آر ٹی سروس شروع ہونے سے پہلے بھی اسی پبلک ٹراسنپورٹ میں سفر کرتی تھیں اور اب بی آر ٹی سے شہر کے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جاتی ہیں۔

اکثر خواتین پبلک ٹرانسپوٹ پر سفر کرنے کا روزانہ کا ایک کٹھن مرحلہ سمجھتی ہیں، کوئی اسے جوئے شیر لانے کی مترادف سمجھتی ہیں، تو کوئی اسے نفسیاتی حملے سمجھتی ہیں۔

بی آر ٹی

پشاور میں اقوام متحدہ کی خواتین کے ادارے، پاکستان میں خواتین کے بارے میں کمیشن اور خواتین کے لیے قائم محستب کے ادارے کی جانب سے بی آر ٹی میں خواتین کے حقوق کی پاسداری کے لیے صوتی پیغامات اور تحریتی پیغامات جاری کیے گئے ہیں۔

گھر سے کام کرنے کے مقام یا تعلیمی اداروں تک جانے اور پھر واپس اپنے گھر آنے تک کا یہ سفر خواتین کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

رفعت انجم نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ یونیورسٹی میں جب تعلیم حاصل کر رہی تھیں تب سے وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کر رہی ہیں۔

’بی آر ٹی سے پہلے تو ٹرانسپورٹ کا انتہائی برا حال تھا، اس میں سفر کرنا ایک عذاب سے کم نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ جب گھر سے بس سٹاپ جاتے تو راستے کی الجھن، بس سٹاپ پر مختلف لوگوں سے آمنا سامنا اور پھر بس میں انتہائی گندی سیٹیں جو مشکل سے دستیاب ہوتی تھیں کیونکہ اکثر انھیں کھڑے ہو کر جانا پڑتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ روزانہ اگر سفر کرنا ہو تو ٹیکسی کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بی آر ٹی کے آنے سے بہت فرق پڑا ہے کیوں کہ اب صاف ستھرا ماحول ضرور ہوتا ہے، جدید بسیں ہیں، اور ان میں تمام سہولیات دستیاب ہیں لیکن اس کے لیے اب بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سب کچھ بدل گیا ہے لیکن اگر نہیں بدلا تو یہاں بعض لوگوں کے رویے نہیں بدلے جیسے چند روز پہلے انھوں نے خود دیکھا کہ ’ایک لڑکا ایک خاتون کے پاس آیا اور کاغذ پر موبائل نمبر لکھ کر پھینک گیا تھا‘۔

پشاور میں اقوام متحدہ کے خواتین کے ادارے، پاکستان میں خواتین کے بارے میں کمیشن اور خواتین کے لیے قائم محستب کے ادارے کی جانب سے بی آر ٹی میں خواتین کے حقوق کی پاسداری کے لیے صوتی پیغامات اور تحریری پیغامات جاری کیے گئے ہیں۔

صوتی پیغامات بسوں کے اندر اور سٹیشنز میں سنائے جائیں گے تاکہ خواتین کے حقوق کی پاسداری کی جا سکے۔ خواتین کو ہراساں نہ کیا جائے، ان کے حقوق سلب نہ ہو سکیں اور انھیں عزت دی جائے۔

بی آر ٹی

نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف وومن کی نمائندہ روبی ناز ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور ہراسانی اب بھی ہو رہی ہے اور یہ ایک انتہائی نازک مسئلہ ہے۔

خواتین کی کیا شکایتیں ہیں؟

نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف وومن کی نمائندہ روبی ناز ایڈووکیٹ آج یونیورسٹی سٹاپ پر موجود تھیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور ہراسانی اب بھی ہو رہی ہے اور یہ ایک انتہائی نازک مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں اب ہراسانی ایسی ہوتی ہے جیسے مسلسل گھورنا، آنکھوں سے اشارے کرنا اور دیگر طریقوں سے خواتین کو تنگ کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پشاور میں ایسا ممکن نہیں ہے کہ کوئی جسمانی طور پر کسی خاتون کو کھل عام ہراساں کرے کیونکہ اگر ایسا کوئی کرے گا تو موجود لوگ اس کا ’حشر نشر‘ کر دیں گے لیکن خفیہ طریقوں سے ہراس کیا جاتا ہے۔

پشاور میں صوبائی محتسب کے دفتر میں کام کرنے والی خاتون ارم نے بتایا کہ پہلے وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر نہیں کرتی تھیں اور جب بی آر ٹی باقاعدہ شروع ہوئی تو آغاز میں بہت برا حال تھا اور خواتین کا ان بسوں میں بیٹھنا محال تھا۔

انھوں نے کہا کہ اب حالات بہتر ہوئے ہیں لیکن اب بھی رش کی وجہ سے اکثر خواتین کو کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا ہے۔

بی آر ٹی پر کبھی کبھار سفر کرنے والی ملازم پیشہ خاتون گلالئی نے بتایا کہ یہاں ’لوگوں میں آگہی نہیں ہے اور چونکہ اس بس میں کوئی کنڈیکٹر نہیں ہوتا اس لیے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان بسوں میں خواتین کو تنگ یا ہراساں کیا جا سکتا ہے اور اس بارے میں حکام کو توجہ دینے کی ضرورت ہے‘۔

بی آر ٹی

ہراس کے مسئلے کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے؟

صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بس کے مختلف سٹیشنز پر اور بسوں میں عوامی پیغامات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے تاکہ خواتین کو کوئی ہراساں نہ کر سکے اور اس کے لیے احتیاط کے طور انھوں انتظامیہ سے کہا ہے کہ خواتین کو ہراسانی سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

انھوں نے کہا کہ پانچ سینٹرز پر ’نالج سینٹرز‘ ہوں گے جہاں خواتین کو وہ تمام معلومات فراہم ہوں گی جن سے انھیں اپنے حقوق کا علم ہوگا اور پھر وہ کسی بھی صورتحال پر آسانی سے شکایت درج کرا سکیں گی۔

روبی ناز ایڈووکیٹ نے تجویز دی ہے کہ یہاں ان بسوں میں خاتون سکیورٹی گارڈز کا ہونا ضرور ہے تاکہ خواتین کو احساس ہو کہ وہ آسانی سے کسی بھی صورتحال کی شکایت کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ سٹاف کی تعداد میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔

ارم نے بتایا کہ ان بسوں میں مردوں کی نسبت خواتین کے لیے کم جگہ مختص ہے اور ان کی سیٹیں بھی کم ہیں حالانکہ چاہیے تھا کہ خواتین کے لیے آسان اور زیادہ جگہ مختص ہونی چاہیے تھیں۔

روبی ناز ایڈووکیٹ کے مطابق ان بسوں میں خواتین کے تحفظ کے لیے ایک ایسا نظام ہونا چاہیے جس میں ہراساں کرنے والے کی نشاندہی ہو سکے اور خواتین کو شکایت کرنے کی سہولت کے لیے ان مقامات کے بارے میں معلومات مشتہر ہونی چاہیے۔

صحافی رفعت انجم نے کہا کہ لوگوں کی آگہی کے لیے کوششیں کی جائیں اور اس بی آر ٹی میں اصلاحات کے لیے باقاعدہ طریقہ کار وضع کیا جائے جہاں خواتین عزت اور وقار کے ساتھ اس بس میں سفر کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp