حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کی دعا نے بادشاہ بنا دیا


ہندوستان میں سلطان غیاث الدین تغلق کے دور حکومت میں میں ایک غریب بیوہ رہا کرتی تھی جو بڑی نیک اور عبادت گزار تھی۔ بیوہ کی ایک نابینا بیٹی اور ایک بیٹا تھا جس کا نام حسن تھا۔ حسن پندرہ سال کا تھا وہ دن بھر محنت مزدوری کر کے اپنی بیوہ ماں اور نابینا بہن کا پیٹ پالتا تھا۔ ایک روز اسے کوئی بھی مزدوری نہ ملی جبکہ اس کی ماں اور بہن پہلے ہی تین دن سے فاقہ کر رہے تھے۔ اس صورتحال پر حسن اپنی ماں کے سامنے بیٹھ کر رونے لگا۔

نیک ماں نے اسے تسلی دی۔ ادھر سخت سردیوں کا موسم شروع ہو چکا تھا لیکن ان کے پاس گرم کپڑے اور لحاف بھی نہیں تھا۔ ایک رات حسن کی بہن کو پسلی میں شدید درد اٹھا اور وہ چل بسی۔ محلے والوں نے مل جل کر اس کے کفن دفن کا انتظام کر دیا۔ اب صرف حسن اور اس کی بیوہ ماں بچے تھے لیکن فاقہ کشی ختم نہ ہو سکی۔ ان دنوں دہلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کی بڑی شہرت تھی ان کی دعا اور برکت سے لوگ فیض یاب ہو رہے تھے۔ حسن نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا تاکہ اپنی بدحالی دور کرانے کے لئے دعا کرا سکے۔ جب حسن حضرت خوجہ نظام الدین اولیا ؒ کی خانقاہ کے باہر پہنچا تو شہزادہ محمد تغلق خانقاہ کے اندر سے نکل رہا تھا جبکہ خانقاہ کے اندر حضرت خواجہ نظام الدین اولیا لوگوں کے ہجوم میں بیٹھے کہہ رہے تھے ”ایک سلطان گیا اور دوسرا سلطان آ گیا۔“

حسن ابھی خانقاہ کے باہر کھڑا تھا۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے خادم سے فرمایا ”جاؤ، باہر جو سلطان کھڑا ہے، اسے میرے پاس لے آؤ۔“ خادم باہر گیا تو حسن کو غریب حالت میں دیکھ کر واپس آ گیا اور عرض کیا کہ باہر کوئی بادشاہ نہیں ہے، صرف ایک مفلوک الحال نوجوان کھڑا ہے۔ حضرت خواجہؒ نے فرمایا ”ہاں، وہی تو مستقبل کا بادشاہ ہے، جاؤ اسے میرے پاس لے آؤ۔“ جب حسن خانقاہ کے اندر داخل ہوا تو حضرت نظام الدین اولیاؒ نے بڑی شفقت سے فرمایا ”بادشاہ سلامت، بیٹھ جایئے۔

حسن بولا ”حضور، میں تو قسمت کا مارا، بہت ہی غریب آدمی ہوں۔ دین اور دنیا کے بادشاہ تو آپ ہیں“ ۔ حسن کو کیا معلوم تھا کہ ماں کی دعاؤں کی بدولت اب اسے فیض ملنے کا وقت آ چکا تھا۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے اپنی افطاری کے لئے رکھا کھانا حسن کو دیا اور کہا ”اسے کھالو، یہ دکن کی بادشاہی کا تاج ہے“ حسن نے حکم کی تعمیل کی اور کھانا کھالیا۔

چند روز بعد حسن کو ایک شاہی نجومی ”کانگو بہمن“ کے کھیت میں ہل چلانے کی ملازمت مل گئی۔ ایک روز ہل چلاتے ہوئے حسن کو زمین کے اندر سے سونے کے سکے اور اشرفیوں سے بھری ایک دیگ ملی۔ اس نے خیانت کرنے کی بجائے دیگ کانگو بہمن کے حوالے کردی۔ شاہی نجومی کانگو بہمن جب دربار میں حاضر ہوا تو شہزادہ محمد تغلق کو اپنے ملازم حسن کی ایمانداری کا واقعہ سنایا۔ شہزادہ حسن کی ایمانداری کا واقعہ سن کر بڑا متاثر ہوا اور حسن کو شاہی دربار میں ملازم رکھ لیا۔

کچھ عرصہ بعد حسن اپنی ذہانت اور خداداد قابلیت کے باعث دربار شاہی کے خاص امرا میں شامل ہو گیا۔ جب شہزادہ محمد تغلق ہندوستان کا بادشاہ بنا تو حسن اس وقت دکن میں تھا۔ دکن کے امرا نے اتفاق رائے سے حسن کو اپنا بادشاہ بنالیا۔ بادشاہ بننے کے بعد حسن اکثر کہا کرتا تھا ”حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کی دعا نے مجھے گدائی سے شاہی تک پہنچایا ہے، ورنہ میں تو ایک مفلوک الحال انسان تھا۔“

ایک مرتبہ ایک شخص آپؒ کی خدمت میں مالی مدد کے لئے حاضر ہو۔ تین دن خانقاہ میں قیام کے باوجود مالی امداد کا کوئی معقول انتظام نہ ہوسکا تو وہ شخص واپس گھر جانے لگا حضرت نظام الدین اولیاؒ نے اسے اپنے نعلین دیتے ہوئے کہا ”اس فقیر کے پاس تمھیں دینے کے لئے اپنے جوتوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے“ وہ شخص جوتے لے کر چل پڑا اور سوچنے لگا ”ان بوسیدہ جوتوں کا کیا کروں گا؟ حضرت نے اچھا مذاق کیا ہے میرے ساتھ“ رات ہوئی تو وہ شخص ایک سرائے میں ٹھہر گیا۔

سرائے سے دور امیر خسرو جو حضرت نظام الدین اولیاؒ کے مرید تھے، لشکر سلطانی کے ہمراہ رات کو پڑاؤ کیا تو اچانک امیر خسرو چلا اٹھے مجھے اپنے مرشد کی خوشبو آ رہی ہے وہ خوشبو کا تعاقب کرتے اس سرائے تک جا پہنچے اور اس شخص کو جگایا اور پوچھا تم حضرت نظام الدین اولیاؒ کی خانقاہ سے آرہے ہو کیا؟ وہ شخص آنکھیں ملتا ہوا بولا ”ہاں میں ان کے پاس مدد کے لیے گیا تھا، انھوں نے اپنے پرانے بوسیدہ جوتے دیے ہیں“ امیر خسرو نے فرط جذبات میں اس شخص سے اپنے پیرومرشد کے جوتے سات لاکھ چیتل (سکہ رائج الوقت) کے بدلے خرید لئے۔ وہ شخص خوش ہو گیا اور جان چکا تھا کہ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے کس طرح اس کی مدد فرمائی ہے۔

سدا سلامت رہیں آمین
دعا گو!
ماں جی اللہ والے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).