نانک اور ننکانہ


مجھے فخر ہے کہ میرا اس دھرتی سے تعلق ہے جہاں آج سے نصف صدی پہلے ایک دانشور، فلاسفر، سفرنامہ نگار، شاعر اور مصلح نے جنم لیا۔ تب وہ جگہ غیر معروف تھی لیکن وہ ہستی کیا ظاہر ہوئی کہ وہ جگہ لاکھوں انسانوں کے لیے سراپا تقدس بن گئی۔ 29 نومبر 1469، رائے بھوئے کی تلونڈی نامی علاقے میں ایک ہندو مہتہ کالو اور ترپتا دیوی کے ہاں ایک لعل پیدا ہوتا ہے۔

اس لعل کی چمک دمک اس کے خاص ہونے کی پہچان بچپن سے ہی کروادیتی ہے۔ آج دنیا اس لعل کو بابا گورونانک کے نام سے جانتی ہے اور رائے بھوئے کی تلونڈی، آج ننکانہ صاحب کے نام سے راحت القلوب ہے۔

بابا جی نانک بچپن سے ہی شوخی و شرارت کی بجائے مجسمہ متانت اور مودبانہ نشست برخاست رکھتے تھے۔ اکثر ان کی زبان پر توحید کے نغمے جاری رہتے، ہم عمر بچوں میں بیٹھتے انہیں گیان کی باتیں بتاتے۔ خالق کی محبت میں ڈوبے رہتے، ان کا زیادہ وقت مراقبے میں گزرتا۔ شرفاء کے طریقے کے مطابق آپ کے والد نے آپ کو ہندی پڑھنے کے لیے پاٹ شالہ میں بھیجا، استاد نے بابا نانک کو ہندسے لکھ کر دیے اور انہیں یاد کرنے کو کہا، بابا جی اپنے استاد کو کہنے لگے کہ جو بندہ دنیاوی حساب و کتاب میں مشغول ہو کر اپنے خالق کی بندگی بھول جاتا ہے وہ عاقبت نا اندیش ہے۔

پھر بابا جی نے اپنے استاد گوپال کو فی البدیہہ ایک بھجن لکھ کر دیا، جس کا مفہوم یہ تھا ”علم کی دوات سے، معرفت حق کے کاغذ پر، حب اور وارفتگی کے قلم سے، پاکیزہ دل کو تختی بناکر، مرشد سے سیکھ کر معرفت حق کا حساب لکھ، سچے مالک کی حمد و ثناء لکھ، بے انتہاء لکھ اور لکھتا رہ۔ جو ایسا لکھنے میں کامیاب ہوگا وہی منزل پائے گا۔

نوسال کی عمر میں بابا جی کو سنسکرت پڑھنے کے لیے پنڈت برج ناتھ کے پاس بھیجاگیا، استاد نے بابا جی کو لفظ ”اونکار“ لکھ کر دیا اور اسے لکھنے کی مشق کرنے کو کہا، بابا جی کہنے لگے، پہلے اس کے معنی بتائیں۔ استاد نے کہا کہ ابتدا میں صرف لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ہے، معانی بعد میں بتائے جاتے ہیں، اگر تمہیں اس کا مطلب پتہ ہے تو پھر پہلے تم بتاؤ۔ استاد سے اذن ملنے پر بابا جی نے اس لفظ کی اتنی جامعیت سے تشریح کی کہ استاد حیران رہ گیا۔ گیارہ برس کی عمر میں فارسی پڑھنے مسلمان استاد کے پاس گئے تو اسے بھی پڑھا کر ہی آئے۔ مولوی صاحب نے جب ا، ب، ت پڑھا یا تو آپ نے جو شاعرانہ جواب دیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ا، اللہ کو یاد کر، ب، بدعت سے دور رہ، ت، توبہ کر، ث، ثناء کر مالک کی۔

اسی سال اس وقت کے ہندو رواج کے مطابق آپ کو زنار پہنانے کے لیے پروہت کو بلایا گیا لیکن آپ نے زنار پہننے سے انکار کر دیا اور کہا ”رحم کی کپاس سے صبر کا سوت کاتواور اس میں راست گوئی اور پرہیزگاری کی گرہ لگا کر زنار بناؤ، یہی سچا بندھن ہے، ایسا بندھن جو نہ کبھی میلا ہو، نہ آگ میں جلے، نہ ٹوٹے نہ خراب ہو، اگر کوئی ایسی چیز ہے تو وہ پہنو جو تمہیں نجات کے رستے پر لے چلے۔

ایک بار آپ کے والد نے آپ کو گاؤں کے چرواہوں کے ساتھ مویشی چرانے کے لیے بھیجا، آپ وہاں بھی وعظ و نصیحت میں مشغول ہو گئے۔ چرواہے آپ کی باتوں کے سحر میں ڈوبے رہے اور مویشیوں ہری بھری فصلوں میں جا گھسے، کچھ چرلیا، کچھ اجاڑ دیا، کھیت کا مالک شکایت لے کر حاکم کے پاس جا پہنچا اور کہا کہ ان لڑکوں نے میرے کھیت پامال کردیے ہیں۔ حاکم نے کہا کہ ”اگر واقعی ہی ایسا ہے تو پھر ان لڑکوں کو ہرجانہ دینا پڑے گا“ بابا جی نانک کہنے لگے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے بہتر ہے کھیت ملاحظہ کیے جائیں، چنانچہ جب کھیت کو ملاحظہ کیا گیا تو وہ اسی طرح ہرا بھر ا تھا، کسی قسم کی پامالی یا نقصان کا ثبوت نہ مل سکا۔

اس واقعے کے بعد لوگ بابا جی کی درویشی، فقر اور کرامت کے قائل ہو گئے، انہی دنوں ایک بار بابا جی تعب کے زیر اثر چرخ نیلوفری تلے سوگئے، حاکم وقت رائے بلار خان پاس سے گزرے تو اس نے ایک عجیب مشاہدہ کیا کہ بابا جی سورہے ہیں اور ایک بڑا سانپ ان پر پھن تان کر سایہ کیے ہوئے ہے، رائے بلار کے گھوڑے کی ٹاپ سن کر سانپ غائب ہو گیا لیکن رائے بلار کو بچے کے صاحب کرامت ہونے کا یقین ہو گیا۔

بابا جی کی ساری زندگی احترام آدمیت، خوف خدا اور صلح کل سے عبارت تھی۔ آپ خدمت خلق کے بہت بڑے داعی تھے، آپ کے والد نے جب آپ کی ترک الدنیا دیکھی تو کوشش کی کہ آپ کسی کاروبار میں مشغول ہوں اور مالی معاملات میں اس کی معاونت کریں تو ایک بار بابا جی کو کچھ سامان تجارت دے کر بھیجا اور تاکید کی کہ مناسب نفع کے ساتھ فروخت کرنا یعنی کھرا اور سچا سودا کرنا، شیخوپورہ کے قریب بابا جی کو کچھ درویش ملے جو کئی دنوں سے بھوکے پیاسے تھے، بابا جی نے سارا سامان تجارت ادھر ہی ان پر خرچ کر دیا اور خود خالی ہاتھ آئے جب باپ نے سامان تجارت کے متعلق دریافت کیا تو کہا آپ کی نصیحت کے مطابق سچا سودا کرآیا ہوں۔ آج بھی شیخوپورہ (فاروق آباد) کے پاس اس واقعے کی یاد میں گوردوارہ سچا سودا موجود ہے۔

بابا جی کی تعلیمات کا ہی اثر ہے آج ننکانہ صاحب امن کا گہوارہ ہے اور تمام مذاہب اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس شہر میں آباد ہیں۔ سکھ قوم کے بیٹے پون سنگھ اروڑہ، رمیش سنکھ اروڑہ، کلیان سنکھ، مہندر پال، مستان سنگھ، گوپال سنگھ چاولہ، رویندر سنگھ، سرجیت سنگھ کی صورت میں پاکستان کی خدمت میں شب و روز مصروف ہیں، بابا جی کے 551 ویں جنم دن کی تقریبات شان و شوکت سے منائیں گئیں اور ہمیشہ کی طرح پاکستان کے تمام مذاہب کے ماننے والوں نے بابا جی کی تعلیمات، امن، بھائی چارے، روادری، مساوات کا عملی مظاہرہ کیا۔ اللہ میرے ننکانہ صاحب کو تاقیامت آباد رکھے اور یہاں باباجی نانک کا دوارہ آباد رہے کیونکہ بقول رائے محمد خان ناصر۔

نانک نال ننکانہ پھبدا اے
نانک کڈھ کے بچدا کیہ اے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).