محبتیں او ر نفرتیں


اللہ تعلی نے ہر معاملے میں توازن رکھا ہے۔ حتیٰ کہ برائی اور بھلائی میں بھی۔ انسانی آنکھ کا وژن محدود ہوتا ہے اس لیے تمام دنیا کا معائنہ نہیں کر پاتیں۔ اسی طرح انسان کا مشاہدہ بھی محدود ہوتا ہے تو اسے اس توازن کا ادراک نہیں ہوتا۔ بس اسے اپنے اریب قریب کی ہی خبر ہوتی ہے جیسے ایک کنویں کے مینڈک کے لیے وہ کنواں ہی پوری کائنات ہوتا ہے جس میں وہ زندگی گزار دیتا ہے۔

امریکہ سے ہی نہیں یورپ کے دوسرے ملکوں سے بھی اسلام دشمنی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اسلام سے ہی کیوں۔ دوسرے مذاہب کے خلاف بھی نفرتوں کا اظہار ہوتا رہتا ہے لیکن اسلام کے معاملے میں کثرت کی وجہ یہ ہے کہ یہ عیسائیت کے بعد سب سے بڑا مذہب ہے۔ سب سے بڑا سے مراد ہے کہ عیسائی مسلمانوں سے تعداد میں زیادہ ہیں ورنہ مذہب تو ہمارے لیے اسلام ہی بڑا مذہب ہے۔ یاد نہیں برنارڈ شا نے یا برٹرنڈ رسل (ہم دونوں کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں ) نے کہا تھا کہ اسلام سب سے اچھا مذہب ہے لیکن اس کے پیروکار سب سے خراب ہیں۔

یہ کوئی ایسا غلط بھی نہیں کہا گیا تھا کہ واقعی ہم من حیث القوم اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو کچھ کہا گیا وہ ایک مفکر کا قول ہے اور وہ بھی غیر مصدقہ! غیر مصدقہ اس لیے کہ اب تک ہم نے یہ صرف اپنے دانشوروں کی زبانی ہی سنا ہے۔ خود کسی کتاب میں نہیں دیکھا اور ہمارے دانشور تو ’پر‘ کا ’کوا‘ بنانے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ ایسی ایسی کہانیاں قائد اعظم سے ہی نہیں بلکہ اللہ معاف کرے بزرگان دین سے منسوب کردی ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

اگر چہ مثالیں تو ہم سینکڑوں دے سکتے ہیں لیکن کالم کی گنجائش کے پیش نظر ایک آدھ ہی بتا پاتے ہیں۔ اس لیے اس وقت بھی صرف ایک مورخ ظفر علی راجہ کی کئی ملکوں سے ایوارڈ یافتہ کتاب ”قائد اعظم اور خواتین“ کا ذکر کریں گے جس میں جناب ایوارڈ یافتہ مورخ نے قائد کے بھائی کی بیوی (جو اتفاق سے قائد کی پہلی بیوی ایمی بائی کی ہم نام تھی) کی تصویر کو قائد کی تصویر کے ساتھ جوڑ کر قائد کی بیوی بنا دیا ہے۔ ستم یہ کہ بھابی کے سر سے ہیٹ ہٹا کر دوپٹہ بھی اوڑھا دیا ہے۔

جبکہ ایک ایسی تصویر بھی دستیاب ہے جس میں قائد کے بھائی اپنی بیگم کے ساتھ کھڑے ہیں اور بیگم کے سر پر ہیٹ ہے جسے دوپٹے سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب کوئی دوسرا دو نمبر مورخ اس کتاب کے حوالے سے قائد اور ان کی بیوی پر حاشیہ آرائی کرتا رہے گا اور قوم بغلیں بجاتی رہے گی۔ میڈیا کی آزادی کا یہ ہی تو کمال ہے کہ آپ کسی پر بھی ایک الزام لگا دیں۔ دو چار ٹاک شوز کے بعد وہ الزام نہیں بلکہ ایک حقیقت کا روپ دھار لے گا اور لوگ اسے صحیح ثابت کرنے کے لیے حوالے بھی پیش کر سکیں گے۔

بہر حال مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں برٹرنڈ رسل یا برنارڈ شا نے یہ کہا ہو یا نہ کہا ہو لیکن ہم انگریزوں کے بارے میں یہ ضرور کہتے ہیں کہ انگریز انفرادی طور پر بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن من حیث القوم دوسری قوموں کے حقوق کی پامالی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ہم نے یہ مثالیں اپنی اس بات کی تائید میں دی ہیں کہ اللہ تعلی نے برائی اور بھلائی میں توازن رکھا ہے لیکن ہم لوگ صرف وہی رخ دیکھ پاتے ہیں جو ہمارے سامنے ہوتا ہے۔

پچھلے دنوں ایک غیر مسلم امریکن نے سکھوں کے گردوارے پر حملہ کر کے متعدد سکھوں کو قتل کر دیا اور کسی مذہبی غیر مسلم امریکن نے مسلمانوں کی مسجد میں آگ لگادی۔ یہ اتفاق بھی دیکھیے کہ اس ہی امریکہ میں جہاں ایک امریکی نے اپنی نفرت کے اظہار کے لیے متعدد لوگوں کو قتل اور زخمی کیا وہیں ڈیلاس کے ایک پادری نے اپنی محبت اور یکجہتی کے اظہار کے لیے پڑوسی مسلمانوں کے ساتھ رمضان کے روزے رکھنے کا اہتمام کیا ہے تاکہ وہ رمضان اور روزوں کے فلسفے کو صحیح معنوں میں اپنے تجربے کی روشنی میں سمجھ سکے۔

ہمیں سکھوں کے قتل اور مسجد کے جلائے جانے کی خبر تو ٹی وی کے ذریعے مل گئی لیکن اس خبر کے لیے ہم اپنے ایک کرم فرما، جناب ابن صفی کے فرزند، کے مشکور ہیں۔ انہوں نے یہ خبر شکاگو سے اس امید پر بھجوائی ہے کہ ہم اسے اپنے کالم کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچائیں گے۔ ہمارا اپنا خیال بھی یہ ہے کہ نفرتوں کی خبر کے ساتھ محبتوں کا پرچار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ ہم نے فیس بک پر حضورﷺ کی شان میں دنیا کے متعدد لیڈروں اور دانشوروں کے توصیفی کلمات پیش کیے لیکن افسوس اسے وہ پذیرائی نہیں ملی اور لوگوں نے اتنا بھی Share نہیں کیا جتنا وہ ڈنمارک کے ذلیل کارٹونسٹ کی مذمت کو شیئر کر کر کے اس کی مفت میں پبلسٹی کرتے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).