کیا جبر کا ماحول شعور کا راستہ روک سکتا ہے؟


اس سوال کا جواب جب ہم تاریخ کے آنگھن میں اتر کر ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ ہر دور میں شعور وآگہی کے پیامبروں کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر انہوں نے شعور کے علم کو بلند رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے آگہی کے اس تسلسل کو برقرار رکھا اور تاریخ کے انمٹ باب میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا نام جلی حروف میں رقم کر دیا۔ سقراط کو دیا جانے والا زہر Hemlock تاریخ کے صفحات پر ”شعوری استعارہ“ کا درجہ اختیار کر گیا اور ”سلسلہ سقراطی“ کو امر کر گیا۔

گلیلیو نے آسمان میں جھانکنے کے لیے ٹیلی سکوپ بنا کر یہ ثابت کر دیا کہ ”sky is the limit“ اور ز مین و سورج کے بارے میں صدیوں سے قائم شدہ تصورات پر سوالات اٹھادیے اور Heliocentric کے تصور کو آگے بڑھایا۔ نکولس کوپر نیکس، جونس کیپلر اور برونوبھی اسی تسلسل کی کڑیاں تھیں۔ آگے چل کر منصور حلاج کا نعرہ ”انا الحق“ جو کہ اس کے شعوری سچ کا ایک جداگانہ اظہار تھا وہ آنے والے غیر روایتی لوگوں کے لیے ایک طرح سے میگنا کارٹا کا درجہ اختیار کر گیا۔

ہر دور میں کچھ ایسے سر پھرے ہوتے ہیں جو روایتی تسلسل کے ”ان باکس“ سے مطمئن نہیں ہوتے اور آؤٹ آف دی باکس جا کر روایات کو چیلنج کرتے ہوئے کچھ نئے آدرش اور تصورات کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ خیالات کے تسلسل میں ٹھہراؤ نہ آئے اور یہ سفر اپنی رفتار کے ساتھ آگے بڑھتا رہے۔ یہ شعوری تسلسل ہر سماج میں پنپتا ہے مگر فرق صرف یہ ہے کہ جو سماج کھلے ہوتے ہیں اور تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں وہاں یہ عمل بڑی تیزی سے گرو کرتا ہے اور یہی معاشرے ترقی کی حقیقی منازل کو چھونے لگتے ہیں۔

جن سماج میں نئے خیالات اور تنقید کے لیے گنجائش نہ ہونے کے برابر ہواور آزادی اظہار نہ ہو وہ معاشرے گھٹن زدہ ہو کر ابتری اور افراتفری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارے سماج میں چیزوں، تصورات اور شخصیات کو تقدس کے دائرے میں لا کر ”مقدس گائے“ کا درجہ دینے کا چلن ہے اور پھر جو کوئی بھی ان کو تقدس کے ممبر سے اتار کر تنقید کرنے کی کوشش کرتا ہے اس پر کئی طرح کے کفریہ ٹیگ لگا دیے جاتے ہیں۔ میرا تعلق کیونکہ ٹیچنگ پروفیشن سے ہے اور مجھے بہت سارے طلباء کی آنکھوں اور ذہنوں میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے۔

طلباء کی اکثریت تو لکیر کی فقیر ہوتی ہے اور وہ اپنے نصاب کی روبوٹک ایکسر سائز سے بالکل مطمئن نظر آتی ہے اور بہت سارے روٹین کی ذہنی بلکہ رٹے کی مشق کر کے پاس آؤٹ ہو جاتے ہیں اور روایتی سرکل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ طلباء کی اقلیت ایسی بھی ہے جن کے ذہنوں میں سوالوں کی ایک گردان ہوتی ہے۔ یہ اپنے ماحول، نصاب اور روٹین آف لائف سے بالکل بھی مطمئن نہیں ہیں۔ یہ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں اور بہت کچھ پوچھنا چاہتے ہیں مگر ہمارے سماج کی جنونی روش نے ان کی زبانوں پر تالے لگا دیے ہیں۔

وہ کچھ بھی کہتے اور پوچھتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ انہیں ایسے لگتا ہے کہ اگر وہ اپنے دماغ کی سوچ کو اپنی زبان پر لائیں گے تو کوئی بھی اٹھ کر ان پر کوئی بھی ٹیگ لگا سکتا ہے اور انسانی جان کی تو اس سماج میں کوئی قدر رہی ہی نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سماج کے بچوں کے ذہنوں میں مختلف سماجی خوف اور جبری اخلاقیات کے زاویے اور پیمانے بچپن سے ہی معصوم دماغوں میں انجیکٹ کرنا شروع کر دیے جاتے ہیں۔ بلوغت تک پہنچتے پہنچتے وہ لاشعوری اور غیرارادی طور پر ایسے سانچے میں ڈھل چکا ہوتا ہے جس سے باہر نکلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ہمارے بچوں کی ذہنی کیفیت ڈاکٹر بلند اقبال کی کتاب ”ٹوٹی ہوئی دیوار“ کے ایک معصوم کردار ننھے عثمان کی طرح ہوجاتی ہے جو ایک ٹوٹی ہوئی دیوار کی اوٹ میں سہمے اور ڈرتے ہوئے معاشرتی اور مذہبی جنونیت کا مظاہرہ اپنی معصوم نگاہوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے، اس کا معصوم ذہن اس وحشت کو برداشت نہیں کر پاتا اور ساری عمر کے لیے ایک نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتا ہے۔

ہمارے سماج کے بچوں کے ذہنوں پر بھی ایک انجانا سا خوف سوار رہتا ہے۔ یہ بھی کھلی فضاء میں پرواز کرنا چاہتے ہیں، بہت کچھ اپنے انداز سے بولنا چاہتے ہیں مگر سماجی جبر نے ان کی زبانوں میں لکنت پیدا کردی ہے۔ ان کے ذہنوں میں بھی بڑے بڑے سوالات جنم لیتے ہیں اور وہ ان سوالوں کو کھوجنا اور کھرچنا چاہتے ہیں مگر مصنوعی اور کھوکھلے سماجی پیمانے دیوار کے دوسری طرف جھانکنے کی اجازت ہی نہیں دیتے۔ یہ ڈر اور خوف ان بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو مسخ کر کے ان کی شخصیت میں ایک بگاڑ کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے اور وہ ایک دہری اور بے یقینی والی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

جوابات کے بوجھ تلے دبے اس سماج میں یہ آزاد پنچھی کیا کریں؟ جو آزادی سے پرواز کرنے کے لیے ایک کھلا آسمان چاہتے ہیں، نئے سوالوں کے نئے جوابات ڈھونڈنا چاہتے ہیں اور نئے سے نئے جہانوں کو تسخیر کر کے اپنے زاویہ نگاہ کے دائرے کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں۔ جوابات تو ہمیشہ سے منتظر ہوتے ہیں مگر سوالات اٹھائے اور ڈھونڈے جاتے ہیں۔ کتنی عجیب سی بات لگتی ہے کہ پیدائش کے چند منٹ بعد آپ کا نام، قومیت، مذہب اور فرقہ تک منتخب کر دیا جاتا ہے اور باقی زندگی آپ ان کے تحفظ میں گزار دیتے ہیں جن کو آپ نے خود منتخب ہی نہیں کیا ہوتا۔

سوچنے والے اذہان کسی بھی دھرتی اور قوم کا فخر اور سرمایہ ہوتے ہیں۔ وطن عزیز میں ایک عجیب سا ماحول بنا ہوا ہے اور سوچنے والے نابغہ روزگار قسم کی شخصیات کو ڈسٹرب کرنے کی روش چل پڑی ہے۔ پرویز ہود بھائی، عمار علی جان اور محمد حنیف کو تو ایک طرف کر دیں ہم نے تو مجسمہ انسانیت عبدالستار ایدھی تک کو نہیں بخشاء اور اسی پس منظر کا ایک شعر ہے جو ڈاکٹر خالد جاوید جان کا ہے :

اب تو خود بھی ہمیں معلوم نہیں ہم کیا ہیں
کبھی کافر، کبھی غدار، یہی ہوتا ہے
لوگ کیا تیسری اک چیز نئی لے آئے
یا تو انکار یا اقرار، یہی ہوتا ہے

خدارا ان سوچنے والے اذہان کی قدر کیجیئے کیونکہ کائنات کی رنگیناں انہی کی وجہ سے ہیں۔ یہ لوگ سوچوں کے تالاب کو رواں دوا رکھتے ہیں اس کو بدبودار جوہڑنہیں بننے دیتے اور انسانی ورثہ کے تسلسل کو برقرار رکھنا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ایسے لوگ ہر دور کا جزو لاینفک ہوتے ہیں اور یہ ایک زندہ و جاوید رئیلٹی ہے ورنہ سقراط تو کب کا مر گیا ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).