اپوزیشن کو این آر او نہ دینا عمران خان کی غلطی ہے


2018 انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے زیادہ ووٹ حاصل کر کے کامیابی تو اپنے نام کرلی، مگر جتنی سیٹوں پر پی ٹی آئی نے فتح پائی وہ حکومت تشکیل دینے کے لئے ناکافی تھی، البتہ انہیں اتحادیوں کا سہارا لینا پڑا۔ دوسری طرف چار دہائیوں سے سیاست کے میدان میں نہ صرف سرگرم بلکہ کئی مرتبہ ملک کے اوپر حکمرانی کرنے والی جماعتیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی اپوزیشن میں آ گئیں، تو انہیں بھی مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر قوم پرست و علاقائی جماعتوں کو ساتھ ملانا پڑا تاکہ حکومت وقت کو مشکلات سے دو چار کیا جاسکے۔

پیپلز پارٹی کو تو پہلے ہی سندھ تک محدود کر دیا تھا، جبکہ پانامہ کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی نے تو ان کی سیاست کا جنازہ نکال دیا۔ نون لیگ نے اپنی ڈوبتی ہوئی سیاسی کشتی کو بچانے کے لیے الیکشن دھاندلی زدہ قرار دے کر اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگادیا۔ اور نون لیگ کی سیاست میں جان ڈالنے کے لیے کمر کھس لی۔ مولانا صاحب کی مثال بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی سی ہے ہی جبکہ پیپلز پارٹی بھی اپنا کھویا ہوا مقام و وقار پانے کے لیے سرگرم ہو گئی۔ مولانا فضل الرحمن کا اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دینے کے بعد ان جماعتوں کو مولانا میں امید کی کرن نظر آئی اور غنیمت سمجھ کر انہوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد قائم کر لیا، تاکہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا جاسکے اور حکومت کے فیصلوں و قانون سازی میں عمل دخل رہیں۔

ادھر وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی میں کی گئی اپنی پہلی تقریر سے لے کر اب تک ”این آر او“ نہیں دوں گا کی رٹ لگائے بیٹھے ہے۔ 29 نومبر کو ملتان میں پی ڈی ایم کارکنان کی جانب سے زبردستی قاسم باغ اسٹیڈیم میں گھسنے اور ہنگامہ آرائی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ (اپوزیشن والے ) سمجھتے ہیں کہ یہی وہ آخری حربہ ہے جس کے ذریعے وہ (اپوزیشن) ہم پر سمجھوتے (این آر او) کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہے مگر ہر گز ایسا نہ ہوگا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ایک دن کی محنت کے بغیر ان کو میسر ”شاہانہ“ طرز زندگی، ان کے خاندانوں کی جانب سے لوٹ مار اور ان کے خاندانوں کی جانب سے لوٹ مار اور چھینا جھپٹی کے ذریعے کمائی اور جمع کی گئی دولت کے تحفظ پر براہ راست منحصر ہے۔

اگر وزیراعظم صاحب درست فرما رہے ہیں تو میرا ان کو مشورہ ہے کہ وہ این آر او نہیں دوں گا کہ رٹ چھوڑ دے اور اپوزیشن سے سمجھوتہ کر لے کیونکہ اسی میں حکومت کا فائدہ ہے۔ این آر او ایک ایسا سیاسی سمجھوتہ ہوگا جو اپوزیشن کی اس تحریک کا گلہ گھونٹنے کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کی سیاست کو بھی دفنانے میں کارآمد ثابت ہوگا۔ اس طرح عوام جان جائیں گے کہ پی ڈی ایم کی یہ تحریک عوامی مفادات کے لیے نہیں بلکہ سیاسی لیڈران کے ذاتی مفادات کے لیے تھی، تو اس طرح پی ٹی آئی پاکستان کی واحد بڑی سیاسی جماعت بن جائے گی۔

البتہ اپوزیشن کا موقف زیادہ مضبوط لگتا ہے، جیسا کہ پی ڈی ایم ملتان جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے کہا کہ کشمیر کو تین حصوں کا فارمولا عمران خان نے پیش کیا تھا، مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے مودی کے جیت کی دعائیں بھی ہمارا وزیراعظم مانگتا رہا، جبکہ اسرائیل تسلیم کرنے کی بحث پاکستان میں کیسے چھڑ گئی۔ جلسہ شرکا سے سوال کرتے ہوئے سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ بتاؤ جب میں عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ کہتا تھا تو میں درست تھا یا غلط؟ جب کہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت مریم نواز نے بھی کئی مواقع پر کہا کہ حکومت بیساکھیوں پر کھڑی ہیں۔ تو دراصل حکومت اتحادی جماعتیں ہی بیساکھیاں ہیں۔ ایم کیو ایم، ق لیگ کے گلے شکوے میڈیا کی زینت بنتے رہے ہیں۔ جب کہ بی این پی مینگل اب کہاں ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

اب حکومت و اپوزیشن کی اس شور و غوغا میں عوام یا پاکستان کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ بڑے ہاتھیوں کی لڑائی ہے اس میں عوام گھاس کی مانند ہے۔ البتہ مشرق وسطی میں امریکہ کی بدلتی ہوئی جغرافیائی پالیسی و صورتحال کے پیش نظر اسرائیل تسلیم کرنے کی دوڑ میں مسلم ممالک ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستان بھی اس دوڑ میں شامل ہے۔ مشرف دور میں دبئی میں اسرائیلی حکام کے ساتھ ملاقات کی خبریں گردش کرنے لگی تھی، موجودہ دور حکومت میں اسرائیلی طیارہ پاکستان آنے کی خبریں زیر گردش رہیں۔ اور اب تو باقاعدہ اپوزیشن کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا الزام بھی حکومت پر لگایا جا رہا ہے اب اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو وقت فیصلہ کرے گا۔

لیکن وزیراعظم عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات مسئلہ فلسطین حل کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے، لیکن پاکستان کی معیشت ٹھیک نہیں، متحدہ عرب امارات 1.2 ملین سے زیادہ پاکستانی کام کر رہے ہیں، اور سعودی عرب میں ہمارے لیبر اور ہم ان کے مقروض بھی ہیں۔ اور وزیراعظم عمران خان نے علی العنان کہہ دیا ہے کہ ایک دوست ملک سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پریشر آ رہا ہے۔ تو اگر ہم پریشر میں نہیں آئیں گے تو ہماری لیبر اور قرضہ واپسی کا مطالبہ کر کے ہمیں چوٹ پہنچا سکتے ہیں۔ بہرحال حکومت ہو، اپوزیشن ہو یا اسٹیبلشمنٹ۔ سب کی پہلی ترجیح پاکستان ہونی چاہیے۔ جو بھی معاملہ پاکستان کے حق اور مستقبل میں بہتر ہو وہی فیصلہ اپنانا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن ہوش کے ناخن لیں اور مل بیٹھ کر معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).