فضائی الودگی: سالانہ قریبا 70 لاکھ افراد کی اموات کا سبب:



فضائی آلودگی، دنیا بھر میں سالانہ قریباً 70 لاکھ افرادکی اموات کا سبب
ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی آلودگی کے سنگین چیلنجز سے دوچار
قادر خان یوسف زئی

صاف ماحول صحت مند زندگی کی علامت و ناگزیر ہے۔ فضائی آلودگی کو انسانوں میں قبل ازوقت اموات کی ایک بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس وقت فضائی آلودگی کی وجہ سے چوتھے نمبر پر قبل ’ازوقت اموات‘ واقع پذیر ہو رہی ہیں، اس سے قبل ہائی بلڈ پریشر، تمباکو نوشی اور بہتر غذا میسر نہ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں ’قبل ازوقت اموات‘ سرفہرست ہے، اب فضائی آلودگی سے اموات کو بڑا اور اہم سبب قراردیا گیا ہے۔ اسٹیٹ آف گلوبل ائر 2020 رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک میں صاف ہوا کا معیار سب سے کم ہے، جس کی وجہ سے ان ممالک میں ہلاکتوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔

تشویش ناک صورتحال یہ بھی سامنے آئی ہے کہ فضائی آلودگی کی وجہ سے خواتین بری طرح متاثر ہو رہی ہیں، کم وزن اور قبل ازوقت بچوں کی پیدائش اور اموات کی تعداد میں اضافے کے معاملات میں فضائی آلودگی کو مضر وجوہ قرار دی گئی ہیں۔ ’دی لانسیٹ‘ نامی میڈیکل جریدے میں شائع رپورٹ کے مطابق ’ماحولیاتی تبدیلیوں سے پہلے ہی انسانوں کی صحت پر برے اثرات پڑ رہے ہیں جبکہ بیماریوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ موسم کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ فضائی آلودگی سے انسانوں پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کو کنٹرول کرنے کے لیے اب بھی کچھ نہ کیا گیا تو اس کے اثرات پوری نسل کو بیماریوں کی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ بچوں کو خطرات لاحق ہیں‘ ۔

ترقتی پذیر ممالک میں فضائی آلودگی کی وجوہ میں ایندھن کے بے دریغ و غیر محتاط استعمال نے خوب صورت شہروں کو بھی دنیا کے آلودہ ترین شہر بنانے میں منفی کردار ادا کیا ہے، عمومی طور پر وسطی جمہوریہ افریقہ، سوڈان، برونڈی، مالی، یوگنڈا، تنزانیہ، مڈغاسکر اور روانڈا جیسے ممالک میں آبادی کے 97 فیصد شہریوں کے کھانے پکانے کے لئے ٹھوس اینڈھن کے ذرائع، استعمال کرنے کی وجہ کو فضائی آلودگی ہونے کی بڑی وجہ قرار دی گئی ہے، جب کہ ایشیائی ممالک میں ٹھوس ایندھن کا استعمال گرمی کے مقابلے میں سردیوں میں بڑھ جاتا ہے، ٹھوس اینڈھن میں لکڑی، کوئلہ کے علاوہ صنعتی فضلہ اور بھٹہ یا سیمنٹ کی تیاری کے لئے چونے کے استعمال کے علاوہ غیر روایتی آتش گیر مادے کے استعمال سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔

گزشتہ برس کرونا وبا کے وجہ سے لاک ڈاؤن نے صنعتی و معاشرتی سرگرمیوں کو انتہائی محدود کر دیا تھا، جس کے بعد جہاں ایک طرف فضائی آلودگی میں کمی واقع پذیر ہوئی تو دوسری جانب اوزان کی تہہ کو پہنچنے والے نقصان کا بھی بڑی حد تک ازالہ ہو گیا تھا، تاہم لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں انسانی حیات کو خطرات لاحق ہیں۔ عالمی ماحولیاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ’کرونا وبا کی وجہ سے دنیا بھر اور مقامی سطح پر بھی آمدورفت، تعلیمی اداروں کی بندش اور کاروبار کے ساتھ بڑی صنعتی سرگرمیوں میں ڈرامائی کمی دیکھی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وبا میں ان عوامل کی وجہ سے کئی ممالک میں ہوا کے معیار میں قدرے بہتری دیکھنے میں آئی۔ کئی ممالک میں ایک عرصے کے بعد صاف نیلا آسمان اور ستاروں بھری راتیں دیکھنے کا موقع ملا۔ سیٹیلائٹ اور زمینی مانیٹرنگ ڈیٹا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آلودگی پھیلانے کا باعث بننے والی نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ سمیت آلودگی پھیلانے والے گیسز کے اخراج میں خاطر خواہ کمی کے نتیجے میں موسمیاتی عوامل بشمول درجہ حرارت میں بھی کمی اور نتیجتاً اوزون کا شگاف پر ہونے میں کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آئی تھی۔

کرہئی ارض پر موجودہ اوزون کی تہہ میں شگاف کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں نے نظام زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ٹھوس اینڈھن کے غیر محتاط استعمال، پاور پلانٹس سے گیسوں کے اخراج، صنعتی بوائلرزاور دیگر ذرائع سے نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ نقصان کے اہم اسباب ہیں، بے احتیاطی و ماحول کے عدم تحفظ کی وجہ سے شگاف میں مختلف مقامات پر 30 سے 70 فیصد رپورٹ کیا گیا۔ مشرق وسطی کے علاوہ پاکستان، بھارت، نیپال، بنگلہ دیش، ایران اور کیوبا ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 70 لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر فضائی آلودگی کے بارے میں گزشتہ برس شائع ہونے والی ورلڈ بینک کی پورٹ کے مطابق فضائی آلودگی سے زیادہ متاثر ہونے والے بہت سارے ممالک جنوبی ایشیا، مشرق وسطی، سب صحارن افریقہ اور شمالی افریقہ میں ہیں۔ پاکستان نے ماحولیاتی تبدیلوں سے پیدا شدہ نقصان پر قابو پانے کے لئے کئی اقدامات کیے اور ائر کوالٹی سے تعلق قوانین کو واضح کیا، لیکن عملی طور پر موثر اقدامات کی خامیوں کی وجہ سے پاکستان کے اہم بڑے شہر فضائی آلودہ ترین خطہ قرار دیے جا رہے ہیں۔

لاہور کا دنیا کے آلودہ ترین شہر میں سرفہرست آنا، یقینی طور پر لمحہئی فکر ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں کوفضائی آلودگی سے بچانے کے لئے جہاں مزید حکومتی اقدامات کی ضرورت بڑھ جاتی ہے، تو دوسری جانب عوام پر فرض عاید ہوتا ہے کہ وہ معاشرتی زندگی میں ٹھوس ایندھن کے استعمال میں احتیاط و ایسے ذرائع استعمال کریں، جس سے حیات کو کم ازکم نقصان پہنچے، حکومت صنعتی اداروں کو ماحولیاتی آلودگی پھیلانے سے بچانے کے لئے سخت قوانین کے اطلاق کو یقینی بنائے۔ بالخصوص دیہی علاقو ں میں فصلوں کی کٹائی کے بعد بھوسہ جلانے سمیت اینٹو ں کی تیاری کے لئے بھٹہ کا مضر استعمال ماحولیاتی آلودگی کے لئے خطرناک ہے۔

ماحولیاتی ماہرین اس امر کو واضح طور پر بیان کرچکے ہیں کہ کنکریٹ کے پہاڑوں (عمارتوں ) کی وجہ سے ہر چیز چھپ گئی ہے، گھروں میں صحن، دلان اور عوامی پارکس میں پودے درخت سمیت سڑکوں پر سبزے کے خاتمے کی وجہ سے وبائی بیماریوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، بالخصوص خواتین میں وٹامن ڈی کی شدید کمی واقع ہو رہی ہے کیونکہ زیادہ تر خواتین گھروں میں رہتی ہیں، لیکن انہیں صاف ماحول میسر نہ آنے کی وجہ کئی بیماریوں اور کمزوریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جو آنے والی نئی نسل کو جسمانی طور پر کمزور بھی کررہی ہے۔

مملکت میں حکومت کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلوں کے مختلف منصوبوں کے لئے 80 کروڑ روپے کا بجٹ بھی رکھا ہے، جب کہ مستقبل کی پلاننگ میں ملک میں 2030 تک 30 فیصد گاڑیاں بجلی سے چلانے کے منصوبہ بندی کا عندیہ بھی دیا گیا، الیکٹرک وہیکل پالیسی کے تحت خاص طور پر شہر قائد کراچی میں دنیا کی پہلی ایسی میٹرو لائن قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، جس سے صنعتی شہر میں گاڑیوں سے آلودگی پھیلانے کی روک تھام ممکن ہو سکے گی۔

پلاسٹک بیگ اور پانی کے حصول کے لئے 2030 کے ویژن میں توانائی کے کئی منصوبوں کا حکومتی اعلانات سامنے آچکے ہیں، دس ارب درخت لگانے کے منصوبے بھی حکومتی پالیسی میں شامل ہیں، تاہم عملی طور پر ان اعلان اعلانات کو بڑھانے کی ضرورت زیادہ ہے، کیونکہ لکڑی مافیا کی جانب سے سمندری حیات و ساحلوں کے نگراں مینگروو درختوں کی بے دریغ کٹائی، شمالی و مغربی علاقہ جات میں پہاڑوں پر جنگلات کے خاتمے سمیت شہروں میں بڑھتی آبادی کی وجہ سے عمارتوں کی تعمیر میں گرین زون پر عمل درآمد نہ کیے جانے کی وجہ سے فضائی آلودگی میں تیزی سے اضافہہوا۔ عالمی ماحولیاتی اداروں کے جاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اگر ان پر اب بھی قابو نہ پایا گیا، تو آنے والے چند برسوں میں نقصانات میں اضافہ ہی دیکھنے میں آئے گا۔ جو یقینی طور پر انسانی و حیوانی حیات کے لئے بہتر نہیں۔

مملکت میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے وذرات بھی قائم کی گئی ہے، خیال رہے کہ دنیا میں یہ پہلی ایسی وذرات ہیجو ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے پالیسیاں مرتب کرتی ہے، لیکن ماہرین، وذرات کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور اس کی بنیادی وجہ اصل مسائل کا ادراک نہ ہونا اورعمل درآمد کرانے کا فقدان قرار دیتے ہیں۔ کرونا وبا کی وجہ سے پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کو کئی سنگین چیلنجز درپیش ہیں، ان دیرینہ مسائل میں ماحولیات ایک ایسا معاملہ ہے، جسے ترجیحات پر رکھنا ضروری ہے، کیونکہ صاف ستھرا ماحول کئی بیماریوں پر اٹھنے والے بھاری اخراجات سے نجات دینے کے علاوہ قوی و توانا نوجوان نسل کی آبیاری کا باعث بنتا ہے۔

شہری و دیہی علاقوں میں ماحولیات کے حوالے سے آگاہی ضروری ہے کیونکہ شہری و دیہی ماحول میں پلنے والے نسل کی فلاح و بہبود کے لئے صحت مند ماحول ناگزیر ہے، اگر فضائی آلودگی کے خاتمے کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ، اپنی مدد آپ کے تحت موثرعملی اقدامات نہیں کریں تو موسمیاتی تبدیلیوں کا نقصان سب کو اجتماعی طور پر اٹھانا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).