میں یونیورسٹی کلچر کا حصہ کیوں نہیں بنتا


ابھی کچھ روز گزرے ، جب میرے ایک دوست نے سوال پوچھا کہ تصنیف! تم ادھر ادھر کی چیزیں لکھتے رہتے ہو، اس سے زیادہ بہتر تھا\"tasneef\"   کہ ایم فل لکھ کر جمع کردیتے، یہ جو خوار پھرتے ہو، دوستوں کے قرض اور رفیقوں کے احسانوں تلے زندگی گزارتے ہو یہ کب تک ممکن ہے۔ آخر زندگی کوئی سنجیدہ معاشی   وسیلہ تو چاہتی ہے۔ تمہیں ایک جانب آرام سے سردی کی دھوپ میں بیٹھ کر کتابیں پڑھنی ہیں، ادبی دنیا   کا بازار گرم رکھنا ہے۔ کتابیں لکھنی ہیں، شاعری کرنی ہے اور دوسرے بہت سے ایسے کام تمہارے ذہن میں ہیں، جن سے تم زندگی کو بھی خوبصورت بنانا چاہتے ہو۔ اس کی بات غلط نہ تھی، کوئی بھی دوست اسی طرح سوچ سکتا ہے اور اسے انہی خطوط پر سوچنا چاہیے۔کئی بار میں خود بھی ارادہ باندھتا ہوں کہ جس ایم فل میں بیس پچیس صفحات لکھنے رہ گئے ہوں،اسے مکمل کرکے جمع کردینے میں آخر ایسی کون سی آفت ہے۔ ممکن ہے کہ میری زندگی کبھی ایسا ہی کوئی جادو دکھادے کہ میں کسی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ٹائی کوٹ پہنا ہوا بیٹھا آپ کو دکھ جائوں، مگر یہ جادو ایسا کالا جادو ہوگا، جسے میں فی الحال پسند نہیں کرتا۔ وجہ اس کی یہ کہ میں نے پچھلے دو تین سالوں میں اپنے اندر یہ عجیب قسم کی تبدیلی دیکھی ہے کہ اردو اساتذہ میں اپنا شمار کرانے کا جی نہیں چاہتا۔ ایسا نہیں ہے کہ سب ایسے ہی ہیں۔ انہی یونیورسٹیز میں کہیں آپ کو خالد جاوید، کہیں طارق چھتاری اور کہیں دوسری ایسی شخصیات بھی دکھائی دیں گی جو اس پورے دھبے دار چاند میں اب بھی اجالے کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ اور میری اس تحریر کا مقصد کسی بھی اردو کے پروفیسر کو لعن طعن کرنا ہرگز نہیں۔دیکھیے! ہر چیز کا ایک کلچر ہمارے یہاں بنتا ہے، جو بہت دھیرے دھیرے پروان چڑھتا ہے اور پھر وہ ہماری رگوں میں اتر جاتا ہے۔یونیورسٹیز کیا کرتی ہیں، وہ کیا کرسکتی ہیں۔وہ بس تعلیم کو عام کرنے کا اعلان کرسکتی ہیں، مگر تعلیم کیا دسویں جماعت کے بعد صرف تعلیم ہی رہ جاتی ہے؟ میرے خیال میں تو اس سے پہلے ہی اس کا ایسا ارتقائی عمل شروع ہوجاتا ہے، جس سے ذہن کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں مدد ملتی ہو۔مگر یونیورسٹی کا یہ کلچر اس دوران ختم ہوگیا تھا، جب ہمارے اس وقت کے اہم ناقدین نے ایسے لوگوں کو یونیورسٹی کے دامن پر دھبوں کی طرح پھیلانا شروع کیا تھا، جو خود اس \"jnuta\"فکری جد وجہد سے بہت دور رہنا چاہتے تھے۔جن کا ڈائجسٹوں، قواعد اور تنقید کی گاڑھی اصطلاحوں سے تو گہرا رشتہ تھا، مگر تخلیق سے وہ کوسوں دور تھے۔میں پورے دو سال کے عرصے میں دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو شاید دو یا تین بار گیا ہوں، وہاں جاتے ہی میرے اندر ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، وہاں کے طلبا تو خیر کیا کسی اہم موضوع پر گفتگو کریں گے ، بلکہ اساتذہ خود عجیب سی زبانوں میں محو کلام نظر آتے ہیں۔ڈیپارٹمنٹ میں ساری چیزیں ہیں، سب لوگ اپنی کرسیوں پر ٹھسے سے بیٹھے ہیں، پھر بھی جہالت کی پھیلائی وہ بے رونقی ختم ہی ہونے کو نہیں آتی، جس میں کسی نئے پن کا احساس، کسی نئی بات کی رمق یا کسی نئے تخلیق پارے پر گفتگو کی روشنی نظر آتی ہو۔میں نے لوگوں کو انہی یونیورسٹیز میں لکچرر بننے کے لیے ایسے امتحانات کی تیار ی کرتے دیکھا ہے، جس میں اس قسم کے سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ ملا وجہی کی لکھی ہوئی مثنوی کا نام کیا ہے یا پھر فلاں افسانہ ان چاروں میں سے کون سے افسانہ نگار کا ہے۔کوئی مذاق ہی مذاق ہے صاحب۔اس سے تو ذہن کو جلا ملنے سے رہی۔اگر کوئی آدمی ایسے بے وقوفانہ اور اوٹ پٹانگ قسم کے سو میں سے اسی سوالات کے صحیح جواب دے کر لکچرر بننے کا اہل ہوجاتا ہے تو مجھے کھڑے ہوکر آپ ،اپنے لیے تالی بجانے کا موقع ضرور دیجیے۔میں سوچتا تھا کہ یونیورسٹی جائوں گا، میری والدہ کو شوق تھا یا شاید اب بھی ہوگا کہ پاس پڑوس کے رہنے والے ان کے بیٹے کو پروفیسر صاحب کہہ کر پکاریں۔مگر میں تو اس کھلے دوغلے پن اور ایک آنکھ والی مورکھتا پر ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا کہ طلبا لکچرر کے انٹرویو میں تنقیدی مضامین کی دس کاپیاں اس لیے چھپوا کر لے جاتے ہیں، کیونکہ تنقیدی کتاب کے پانچ دس نمبر جڑتے ہیں۔معلوم ہوا کہ تخلیقی کتاب انٹرویو \"international-journals\"میں کسی اہمیت کی حامل نہیں۔پروفیسر، ڈین، انٹرویوئر اسے بالکل کچرے کی مانند سمجھتا ہے۔یعنی ایک ایسی چیز جس کے کوئی نمبر نہیں، آپ شاعر ہیں، ہونگے، افسانہ نگار ہیں، بلا سے۔یعنی کہ تخلیق ایک حاشیے پر پڑی ہوئی یا شاید اس سے بھی باہر نکلی ہوئی کوئی شے ہے۔اگر کوئی معصوم امیدوار اپنی ایسی کسی کتاب کو لے کر انٹرویو میں پہنچ جائے تو اسے تضحیک کا نشانہ بنایا جائے گا اور واقعی پوری سنجیدگی سے اس کا اس بات پر مذاق اڑایا جاسکتا ہے کہ وہ تخلیقی بل بوتے پر کیسے اس گمبھیر، بھاری سانسیں بھرنے والی ادبی اور بوجھل ، پروفیسرانہ دنیا میں قدم رکھنے کی جرات کرسکا۔نہیں صاحب! تخلیق نہیں چلے گی۔بس وہی چلیں گی برسوں پرانے موضوعات پر لکھی ہوئی گاڑھی تحریریں۔غالب کی غزل اور اردو کا ارتقا، اقبال کے کلام میں موجود تلمیحات کا تحقیقی جائزہ، منٹو کے افسانے میں معاشرتی حقیقت کی تلاش فلاں فلاں فلاں۔میرے لیے ایسی کوئی کتاب تیار کرنا بالکل مشکل کام نہیں،بلکہ میں ایک رات میں ، جی ہاں پورے ہوش و حواس میں کہہ رہا ہوں، ایک رات میں ایسی ایک کتاب تیار کرسکتا ہوں، جو آپ کے یہاں پہنچ کر کم از کم وہ پانچ یا دس نمبر حاصل کرلے گی، جس کو امیدوار بڑی محنت اوربھاری دل کے ساتھ قلمبند کرکے حاصل کرتے اور خوش ہوجاتے ہیں۔لیکن اس لمبی چوڑی بحث کا مطلب کیا ہوگا، کیا میں اپنی زندگی کی ایک حسین رات، آپ کے اس بے ہودہ اور غیر عقلی مقصدکے لیے بے کار کروں؟ میں مانتا ہوں کہ آپ مجھے مہینے بھر تک بچوں کو شاعری کی تشریحات اور افسانوں کے پلاٹ کا جائزہ لے کر دکھانے کی ایک موٹی رقم دے سکتے ہیں، مگر وہ موٹی رقم حاصل کرنے کے بدلے، مجھے خود کو ضائع کرنا ہوگا۔سیمیناروں اور مذاکروں کی ایسی عجیب سی بو میرے نتھنوں میں آپ کے شعبوں کا ذکر سن

\"Theکر پھیلتی ہے کہ میں ابکائی لینے پر مجبور ہوجاتا ہوں، کوئی تازہ ہوا کا جھونکا اس طرف سے آتا نہیں، کوئی ایسی بات نہیں جو ذہن کو احساس دلائے کہ اخاہ! اسی نہج پر تو سوچا جانا چاہیے۔روز ایک استاد آتا ہے، اصناف کی الٹی سیدھی اجزائے ترکیبی پڑھا کر سمجھتا ہے کہ اس نے بہت بڑا مرحلہ سر کرلیا ہے۔میں نے اردو زبان و ادب کی تعلیم کا انتخاب کرنے والے طالب علموں کی ہیت کذائی پر کبھی آنسو تو نہیں بہائے مگر اس بات کا افسوس ہمیشہ رہا کہ انہیں چھٹی جماعت سے گریجویشن، پوسٹ گریجویشن تک صرف یہی سکھایا جاتا رہا ہے کہ غزل کا مطلب عورتوں یا محبوبہ سے باتیں کرنا ہوتا ہے۔
یہاں ایک عجیب اور قریب قریب لا تعلق سے ایک واقعے کا ذکر کرنا چاہوں گا، میری تربیت ایک ایسے خاندان میں ہوئی، جو تعویذوں، دعائوں، فاتحہ خوانی، میلاد اور مزارات کی زیارت سے بہت عقیدت رکھتا ہے۔وسئی گائوں میں ہمارے ہی محلے میں ایک بابا رہا کرتے تھے، ان کا نام میں نہیں جانتا، چھوٹا قد، ضعیف العمر ، مگراپنی پیٹھ پر ہمیشہ کتابوں کا ایک گٹھر لٹکائے گھوما کرتے تھے، اس نسبت سے پورے محلے میں وہ کتابوں والے بابا کے نام سے مشہور تھے۔نماز کوئی قضا نہ کرتے، ان سے اکثر مسجد میں میری ملاقات ہوا کرتی تھی۔سارا گائوں انہیں ولی اللہ سمجھا کرتا تھا،اس لیے ہمارے دل میں بھی ان سے عقیدت جاگ

گئی۔ ایک دن میں ان کے پاس گیا اور ان سے کوئی تعویذ طلب کیا، وہ ہنسنے لگے، کہنے لگے بیٹا! مسلمان کو تعویذ کی کیا ضرورت ہے۔ وہ تو خود چلتا پھرتا تعویذ ہے۔بسم اللہ پڑھو اور کوئی بھی اچھا کام شروع کردو! آج سوچتا ہوں کہ ہم نے تعلیم کے معاملے میں بھی ایسے ہی تعویذوں پر بھروسہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔یہ تعویذ ہمارے کسی کام کے نہیں ہیں۔ہمیں تو اب پھر سے بسم اللہ پڑھ کر اس میدان میں اترنے کی ضرورت ہے۔اور اس سے پہلے اس حالت پر ہنسنے اور بات کرنے کی ضرورت ہے، جس نے مجھ سے پہلے اور میری عم عصر نسل کو ذہنی طور پر قلاش و کنگال بنادیا ہے۔آخر اردو ادب پڑھانے والا پروفیسر یہ کیسے سمجھا سکتا ہے کہ غالب کا کوئی شعر تخلیقی لحاظ سے کتنا اہم ہے، \"Theجبکہ تخلیق سے اس کا دور کا کوئی واسطہ ہی نہیں، اسے تو تخلیق کے نمبر ہی نہیں ملے۔وہ تو موٹی موٹی تنقیدی کتابیں پڑھ کر یہاں چلا آیا اور پھر ایک ملغوبہ سا بنا کر کسی کتابی کنجی کی مدد سے غالب کے شعروں کو کھرچنے میں مصروف ہوگیا۔
روزگار کا ذریعہ ڈھونڈنا اچھی بات ہے، اس کی طرف متوجہ ہونا اور بھی اچھی بات۔معاشی حالت جس ذریعے سے سدھرے، سدھاری جانی چاہیے۔لیکن کبھی کبھی رک کر سوچ لینا چاہیے کہ پیسہ کمانے کے اس عجیب و غریب پھیر میں پڑ کر ہم گنوا کیا رہے ہیں۔ذہن ڈوب رہا ہے، جسم سن ہورہا ہے۔ہاتھ میں کوئی اجلا لفظ نہیں، دماغ میں کوئی دھلی دھلائی بات نہیں۔بس وہی گلے، پچکے، سڑے نوالے جو برسوں سے چبائے جارہے ہیں۔ہمارے آگے بھی پروس دیے جائیں گے۔مجھے معلوم ہے کہ اس سسٹم میں اگر میں گیا تو میرے میتھڈ سے آپ مجھے کسی کو پڑھانے کا موقع ہی نہیں دیں گے۔طلبا خود میری شکایت کریں گے کہ یہ آدمی جو کچھ کہتا ہے، ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا۔یہ ادب ودب تو پڑھاتا نہیں، زندگی کے بارے میں بتاتا ہے۔زندگی جس کے شعبہ اردو میں کوئی نمبرہی نہیں۔
٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments