گلگت بلتستان کی کابینہ امریکہ کی کابینہ سے بڑی


خدا کی پناہ! 16 لاکھ آبادی کے حامل گلگت بلتستان میں 19 رکنی کابینہ؟ گلگت بلتستان وہ علاقہ ہے کہ اگر پاکستان کی وزارت خزانہ کا ایک سیکشن افسر ایک فائل کو آگے نہ بڑھائے تو یہاں کی حکومتی، معاشی و تنخواہ داری الغرض پوری ”ریاستی“ مشینری بیٹھ جاتی ہے۔ 16 گریڈ کے ملازمین کی تنخواہ کے لیے بھی یہاں کی حکومت محتاج مند ہے۔ لیکن گلگت بلتستان کے معروضی و مالیاتی حالات سے بے نیاز گنڈاپور و ہمنوا ”سب کھپاؤ اور سب کو کھلاؤ“ فارمولے کے تحت 19 لوگوں کی فوج کو کابینہ کے نام پر اس غریب خطے اور اس کے مسکین عوام پر مسلط کر رہے ہیں۔ ہوا کا رخ اور نمود و نمائش دیکھ کر آہ واہ کرنے والی تماش بین قوم کے بے سمت لوگ مگر 19 لوگوں کو مبارک سلامت بھیجنے میں مصروف۔

2009 میں جب پیپلز پارٹی نے سیلف رول آرڈیننس کے تحت صوبہ نما سیٹ اپ دیا تھا تو بتایا گیا کہ کابینہ 6 وزیر اور 2 مشیر یعنی 8 ارکان پر مشتمل ہو گی۔ یہ بالکل صائب بات تھی، جائز تجویز تھی۔ آج بھی گلگت بلتستان کو 6 سے 8 رکنی حکومتی ٹیم اچھے سے چلا سکتی ہے۔ ویسے بھی فی زمانہ بہتر گورننس کے لیے مختصر مگر متحرک ٹیم کا ماڈل کارآمد سمجھا جاتا ہے۔ اب پی ٹی آئی حکومت مثل وفاق یہاں بھی مشیروں کے علاوہ معاون خصوصی اور کوآرڈینیٹر جیسے بے سود اور اضافی عہدے متعارف کرا رہی ہے، صرف اور صرف اپنے فارغ بندوں کو کھپانے واسطے، مگر بوجھ ہے تو گلگت بلتستان کے نحیف و غریب معاشی نظام پر، گنڈاپور اور گورنر کا کیا جائے گا۔

سب کھپاؤ فارمولے کے تحت وزارتیں توڑی گئی ہیں یعنی وزراء کو مزید بے اختیار کر دیا گیا ہے۔ محکموں میں اتھل پتھل مچانے کا سامان پیدا کیا گیا ہے۔ مثلاً گلگت بلتستان جیسے علاقے میں خزانہ اور ریونیو کو توڑ کر 2 لوگوں میں تقسیم کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ سوائے 2 حکومتی ارکان کو اکاموڈیٹ کرنے اور خزانے پہ بوجھ لادنے کے۔ سوشل ویلفیر جیسی عام سی وزارت کے بخیے ادھیڑ کر اس کو الیکشن میں عوام کے مسترد شدہ 3 لوگوں میں بانٹنے کی کیا تگ بنتی ہے۔

اب سماجی بہبود، ترقی نسواں اور پاپولیشن کے قلمدان الگ الگ۔ وزارت معدنیات یعنی مائنز اینڈ منرلز کے ساتھ کامرس کا محکمہ بھی جڑا ہوا تھا، پی ٹی آئی نے مائنز اینڈ منرلز سے وزارت صنعت کشید کر لی پے۔ اب بندہ سوچے کہ صنعتیں یہاں کہاں سے پیدا ہو گئیں؟ پیپلز پارٹی کے وزیر محمد جعفر کے پاس وزارت خوراک و زراعت اور جنگلات کا قلمدان تھا۔ نون لیگ نے خوراک، زراعت اور جنگلات کو الگ الگ کیا۔ اب پی ٹی آئی نے خوراک سے فشریز اور لائیو سٹاک کو علیحدہ کر لیا ہے۔ یعنی پیپلز پارٹی کے ایک وزیر جعفر برابر ہیں پی ٹی آئی کے 4 وزیر و مشیر کے۔ کل جعفر صاحب جس وزارت کو اکیلے انجوائے کرتے تھے وہ اب راجہ زکریا، کاظم میثم، شمس لون اور محبوب میں تقسیم در تقسیم۔

مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ اس کابینہ کے تقریباً آدھے ممبران نان الیکٹڈ ہیں۔ جمہوری حکومتوں میں فیصلے عوام کے منتخب نمایندے کرتے ہیں، کابینہ کا منتخب ممبران پر مشتمل ہونا جمہوری تقاضا ہے اور آداب بھی۔ یہی وجہ سے کہ اسمبلی ممبران ہی بطور وزیر حلف اٹھاتے ہیں۔ نان الیکٹڈ لوگ وزیر نہیں بن سکتے، حلف نہیں اٹھاتے مگر مشیر و معاون خصوصی وغیرہ کے نام کے ساتھ کابینہ کا حصہ ہوتے ہیں۔ مشیر یا اسپیشل اسسٹنٹ کا جمہوری فلسفہ یہ ہے کہ کابینہ میں کسی خاص قلمدان کو سنبھالنے کے لیے اسمبلی سے ریلیونٹ ممبر دستیاب نہ ہو تو مخصوص وزارت کے لیے باہر سے ایکسپرٹ کو شامل کیا جائے، یہ ایک استثنائی صورت ہے مگر یہاں تو آدھی کی آدھی کابینہ غیر منتخب لوگوں سے سجا دی گئی ہے، غیر منتخب لوگ بھی وہ جو کسی فیلڈ کے ایکسپرٹ نہیں بلکہ عوام کے دھتکارے ہوئے لوگ۔ یہ عمل خزانے پر بوجھ ہے، سیاسی نظام پر دھبہ ہے، جمہوری روایات کا خون ہے اور عوام کی رائے کی توہین ہے۔

وزراء، مشیران، معاونین خصوصی اور کوآرڈینیٹرز کی تعداد 19 بتائی گئی ہے۔ ایک آدھ سال بعد کابینہ میں وزیروں کی دوسری کھیپ آئے تو اب ڈر ہے کہ کابینہ گلگت بلتستان اسمبلی سے ہی بڑی نہ ہو جائے۔

مجوزہ کابینہ میں ایک بھی خاتون کا نام نہیں ہے۔ یہ اپنی جگہ المیہ سے کم نہیں۔ میل ڈومینیٹڈ علاقے میں کیا کسی عورت نے ایسی بیٹی نہیں جنی جو گلگت بلتستان کی تاریخ کی وسیع ترین کابینہ میں جگہ بنا پائے؟ پاکستان کی انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور پریشر گروپس کو اس پہ آواز اٹھانی چاہیے۔ پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں میں بھی اپنی خواتین رہنما اور کارکنوں پہ ظلم کیا ہے۔ تحریک انصاف کے حصے میں آئی 4 میں سے 3 فیمیل سیٹوں پر ایسی خواتین ممبر اسمبلی بنی ہیں جن کا اس سے پہلے سیاست سے کوئی تعلق تھا نہ تنظیمی کردار۔
سر دست یہ خبر کہ گلگت بلتستان کی صوبائی کابینہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کابینہ سے بڑی ہو چکی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen