شناختی کارڈ کا غلط استعمال اور لاعلمی میں کھولے جانے والے بینک اکاؤنٹ


کل کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن اور یوسف گوٹھ کے، حالیہ بارش سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لئے کام کرتے ہوئے کچھ تجربات سے گزرنا پڑا جس نے ہماری ایک قوم کے طور پر عمومی رویہ کو بھی ظاہر کر دیا۔ 11 متاثرین کو ایک پروسیس کے ذریعے منتخب کیا گیا تھا، اور اس پروسیس کے دوران پتہ چلا کہ ان 11 میں سے کوئی چار افراد، (جو کہ خواتین تھیں ) کے تو شناختی کارڈ ہی نہیں بنے ہوئے۔

ان میں سے جن کے بنے ہوئے تھے (مطلب 7 افراد جن کے بنے ہوئے تھے ) ، ان میں سے 1 صاحب کا شناختی کارڈ ایکسپائر ہو چکا تھا، اور ان کے علاوہ ان کے گھر میں کسی بھی فرد کا (حتیٰ کہ بیگم کا بھی) ، شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا تھا، ان 11 میں سے ایک بیوہ خاتون (جن کے خاوند کا کچھ عرصے پہلے ہی انتقال ہوا تھا) کا بھی شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا تھا، اور ان کے گھر کے تمام افراد میں سے کوئی ایسا فرد نہیں تھا جن کے پاس شناختی کارڈ موجود ہو۔

اس پر مزید جب ان کے ایچ بی ایل کنیکٹ موبائل اکاؤنٹ کھولنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ، ( 11 ) گیارہ میں سے ( 5 ) پانچ افراد کے موبائل اکاؤنٹ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں، جو کے ان کے لئے بھی حیران کن تھا، کیونکہ ان تمام 5 افراد کے مطابق انہوں نے کبھی ایچ بی ایل کنیکٹ موبائل اکاؤنٹ بنوایا ہی نہیں۔

میرے آفس میں موجود ایچ بی ایل کنیکٹ اکاؤنٹ کے ایجنٹ سے جب پوچھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے تو، اس نے میری معلومات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے بہت معصومیت سے کہا کہ یہ لوگ کبھی کسی موبائل شاپ پر گئے ہوں گے، اور کسی کو پیسے یا تو بھیجے ہوں گے، یا وصول کیے ہوں گے، اور اس دوران ان کے این آئی سی، موبائل نمبر کی تفصیلات اور اب تو بائیو میٹرک کی بھی تفصیلات اس دکان دار کے پاس آ جاتی ہیں، اور کیونکہ ہر موبائل دکان والا جو منی ٹرانسفر یا وصولی کا کام کرتا ہے کسی بھی وینڈر ( مطلب ایزی پیسہ، موبی کیش، جاز کیش وغیرہ) کے ساتھ، وہ وینڈر اسے ہر ماہ کا موبائل اکاؤنٹ کھولنے کا ٹارگٹ بھی دیتا ہے، تووہ موبائل کی دکان والا، ایک ریس سے دو شکار کرنے کے مترادف، ان افراد کی تفصیلات کے مطابق، ہاتھ کے ہاتھ، موبائل اکاؤنٹ بھی بنا دیتے ہیں، تاکہ ان کا ماہانہ ٹارگٹ حاصل ہو سکے، اس طرح کسی بھی فرد کا موبائل اکاؤنٹ اس کی لاعلمی میں نا صرف کھل جاتا ہے بلکہ وہ انجانے میں ایک اکاؤنٹ کے مالک بھی بن جاتے ہیں۔

اور یہ تو ہمیں علم ہے کہ ہمارے ملک میں لٹریسی ریٹ 58 فی صد ہے (سورس گوگل، جس میں وہ بھی شامل ہے جو صرف اپنا نام لکھ سکتا ہے ) ، اور حیران کن طور پر پاکستان کی آبادی کے تقریباً 57 فی صد افراد کسی بھی قسم کا موبائل فون رکھتے ہیں ( سورس گوگل) ، اور ان میں سے زیادہ تر افراد لکھنا پڑھنا نہیں جانتے، اور اگر کسی کے موبائل میں، کسی موبائل اکاؤنٹ کے کھل جانے کی تفصیلات آ بھی جاتی ہیں تو وہ اسے سمجھ نہیں پاتا۔ اور اسے اگنور کر دیتا ہے۔ اور پیسے بھیجنے اور وصول کرنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق بھی لوئر مڈل کلاس، مزدور، دیہاڑی دار، اور مڈل کلاس سے تعلق ہوتا ہے، جو زیادہ تر کسی اور شہر میں کام کرتے ہیں اور اس سہولت کو وہ اپنے گاؤں یا شہر میں اپنوں کو پیسے بھیجنے یا وصول کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

اب اگر آپ شناختی کارڈ کے معاملے کو سامنے رکھیں، جو کہ اب کسی بھی 18 سال سے زائد عمر کے فرد کے لئے لازمی ہے، اور حکومت پاکستان کے احساس پروگرام کو سامنے رکھیں، تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب ہمیں صرف، گیارہ افراد کو سہولت دینے میں اتنے مسائل سامنے آ سکتے ہیں تو اس 22 کروڑ افراد کے ملک میں رہنے والے افراد کو، سہولت دینے والے پروگرامز میں کام کرنے والے لوگوں کے حوصلوں کو سلام ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔ اب آپ احساس پروگرام، صحت انصاف کارڈ، نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم، احساس انڈر گریجویٹ پروگرام، پرائم منسٹر یوتھ لون اسکیم، وغیرہ کی بات کریں تو ان میں شمولیت کے لئے آپ کے بنیادی کاغذات کا، آپ کے پاس نا ہونا حکومت کا قصور نہیں۔

اگر آپ اپنی کسی سستی، کاہلی، غفلت یا لاعلمی کی وجہ سے ان پروگرامز یا ان جیسے کسی بھی پروگرام کا حصہ نہیں بن پاتے تو اس میں حکومت سے زیادہ قصور ایک عام شہری، مطلب ہمارا یا آپ کا ہے، کہ ہم کم از کم وہ بنیادی کاغذات، جو کسی بھی شہری یا اس کے بچوں کے لئے ضروری ہوتے ہیں وہ تو بنوا لیتے، جن میں سی این آئی سی، بچوں کے برتھ سرٹیفیکیٹ، ب فارم، ڈومیسائل، پی آر سی، فیملی رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ، ڈیتھ سرٹیفیکیٹ ( اگر اللہ نا کرے کسی کے گھر کا سربراہ یا فرد انتقال کر گیا ہو تو) ، اور ان جیسے کئی بنیادی کاغذات شامل ہیں۔

اور ہماری سستی، کاہلی، کاموں کی مصروفیت یا اسے جو بھی نام دے دیا جائے، کی وجہ سے، ہم یہ کاغذات نہیں بنوا پاتے اور جب ان ضروری کاغذات کی کسی بھی بنا پر فوری ضرورت پڑتی ہے تو پھر ہم سر پر پاؤں رکھ کر دوڑتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہو، جو وہ گھما کر فوری ان کاغذات کو حاضر کر دے یا کوئی کتنے ہی پیسے لے لے اور بس فوری بنوا کر دے دے۔ اور اسی بنا پر کئی مستحق، ضرورت مند، سفید پوش افراد بہت سی حکومت کی مہیا کردہ اسکیموں سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ اور پھر اس سسٹم، حکومت کو برا بھلا کہتے ہیں۔

اب اگر آپ، آپ کے خاندان، آپ کے گھر میں کام کرنے والے افراد، آفس میں کام کرنے والے ایسے افراد جو معاشی طور پر کمزور ہیں، ان کو کم از کم آپ ضرور کہیں، اور اگر انہیں کوئی سہولت مہیا کر سکتے ہیں یا کروا سکتے ہیں تو ضرور مہیا کر کے، کم از کم یہ ضروری کاغذات ضرور بنوا لیں، تاکہ حکومت کے کسی بھی پروگرام میں با آسانی شامل ہوا جا سکے یا اب تو غیر سرکاری تنظیموں کے لئے بھی یہ لازمی ہو گیا ہے کہ اگر کسی کو معاشی طور پر کوئی سہولت فراہم کی جائے گی تو اس فرد کا کم از کم شناختی کارڈ ہونا لازمی ہو گا، یا کوئی بھی ایسا سرکاری کاغذ جو اس کی موجودگی یا اس کی اہلیت کو ثابت کر سکتا ہو۔

ساتھ ہی، موبائل اکاؤنٹ والے تجربے کو سامنے رکھیں تو یہ لازم ہے کہ احتیاط کریں، اور بہت احتیاط کریں، خاص طور پر اپنی ایسی معلومات کسی کو بھی دینے میں، یا مہیا کرنے میں، جس کے حوالے سے آپ کو خود درست طور پر مکمل پتہ نا ہوں، اور کسی کو بھی پیسے بھیجتے ہوئے یا موصول کرتے ہوئے تمام معلومات کو بہت احتیاط سے استعمال کریں اور کسی کو بھی خاص طور پر اپنے شناختی کارڈ کی کاپی بنا تصدیق کے نا دیں۔ اور اگر دینا لازم ہو تو اسے کراس کر کے دیں۔ کیونکہ آپ جانے انجانے میں کسی بھی مصیبت کو دعوت دے سکتے ہیں۔

اور اگر آپ کو یاد ہو یا نا یاد ہو، میں آپ کو یاد دلوا دوں کہ ”کسی فالودے والے کے اکاؤنٹ میں 2 ارب روپے آ گئے تھے، اور اس بیچارے کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا، کہ یہ کیسے ہوا“ ۔
اللہ آپ کا، میرا اور اس ملک کا حامی و ناصر ہو، آمین۔

راشد محمود خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد محمود خان

بلاگر تعلیم کے حوالے سے سافٹ وئیر انجینئر ہیں اور نوجوانوں کی ایک غیرسرکاری تنظیم میں چیف ایگزیکٹیو افسر کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔

rashid-mehmood-khan has 15 posts and counting.See all posts by rashid-mehmood-khan