پبلک سروس کمیشن اور یونیورسٹی کا نظامِ تعلیم



امتحانات سے ہمیشہ ہی طالب علم جان چھڑاتے آئے ہیں۔ ہر طالب علم کی کوشش ہوتی ہے کہ بغیر امتحان کے کامیاب ہو جائے مگر ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ امتحانات تو زندگی کا حصہ ہے اور دیکھا جائے تو زندگی بذات خود ایک کڑا امتحان ہے۔ یونیورسٹی کی تعلیم ایک اعلی تعلیم سمجھی جاتی ہے جس سے ایک طالب علم کو اپنے متعلقہ مضمون میں مکمل عبور حاصل ہو جاتا ہے۔ ماسٹر ڈگری لینے کے بعد طالب علم مزید اعلی تعلیم اور اپنے مضمون میں تحقیقی اور منطقی مہارت حاصل کرنے کے لیے ایم فل اور پھر سب سے اعلی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرتا ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں تعلیم کا مقصد زیادہ تر روزگار کا حصول ہی ہوتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر زندگی کی جمع پونجی اس لیے لوٹا دیتے ہیں کہ اس طرح ان کے بچوں کا مستقبل روشن ہو جائے گا اور وہ زندگی میں زیادہ بہتر مقام حاصل کر لیں گے۔ اکثر والدین کو بچوں کی تعلیم اور اعلی ڈگریوں کے حصول کے لیے پریشان دیکھا گیا ہے۔ اعلی ڈگریوں کے حصول کی جدوجہد میں اکثر والدین اپنے بچوں کی تربیت کو نظر انداز کر دیتے اور انتہائی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے سلیبس کی تعلیم بھی بچوں اور نوجوان نسل کی تربیت میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتی۔

تربیت کے اثرات تو معاشرے میں واضح نظر آرہے ہیں لیکن اس وقت اگر تربیت کو نظر انداز کر کے جو کہ معاشرے میں پہلے بھی نظر انداز کی جا رہی ہے اگر والدین اور طالب علموں کے زندگی کے مقاصد جو کہ اعلی ملازمتوں کا حصول ہے کو دیکھا جائے تو وہاں بھی مسلسل ناکامی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ نوے فیصد نمبر حاصل کرنے والے طالب علم پبلک سروس کمیشن کے تحریری امتحانات میں فیل ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب میں لیکچررز کی تقرری کے لیے مختلف مضامین میں تحریری امتحانات کے نتائج نے پوری تعلیم یافتہ قوم کو پریشان کر دیا ہے۔

2019 کے سی ایس ایس کے امتحانات میں بھی کامیابی کا تناسب 2.5 فیصد ہے جو کہ ایک المیہ ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹیاں اعلی ڈگریوں سے لیس طالب علموں کی ایک فوج ہر سال پیدا کر کے مارکیٹ میں بھیج رہی ہیں جن کا ملک کی ترقی اور خوشحالی میں کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ کردار تو یہ طالب علم تب ادا کریں جب ان کو کردار ادا کرنے کا موقع بھی ملے۔ ان طالب علموں کو ایک سوچی سمجھی سازش، انفرادی اور اجتماعی لالچ کی وجہ سے برباد کیا جا رہا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جہاں دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کی وجہ سے علم کے وسائل میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے بالکل برعکس ہمارے ہاں تعلیم کا معیار انتہائی زوال کا شکار ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں تعلیم کا گراف مسلسل نیچے کی طرف جا رہا ہے جو کہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔

یونیورسٹیوں میں جب سے سالانہ نظام تعلیم کی بجائے سمیسٹر سسٹم شروع ہوا ہے تعلیم تو جیسے ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ سالانہ نظام میں اگر کسی مضمون کے دس اسباق ہوتے تھے تو تقریباً سارے ہی پڑھائے جاتے تھے کیونکہ سالانہ پرچہ کسی دوسری یونیورسٹی کے استاد نے بنانا ہوتا تھا۔ ممتحن کے پاس متعلقہ یونیورسٹی کا سلیبس بھیج دیا جاتا تھا جس میں سے اس نے پرچہ بنانا ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تمام اساتذہ کرام بڑی محنت اور جانفشانی سے سارا نصاب پڑھایا کرتے تھے اور کسی بھی باب کو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

اگر کوئی طالب علم اپنی مرضی سے کچھ ابواب چھوڑتا بھی تو وہ اس کی اپنی مرضی ہوا کرتی تھی اور اس کے نتیجے کا بھی وہ خود ذمہ دار ہوتا تھا۔ مکمل نصاب پڑھنے کی وجہ سے طالب علموں کا علم بھی زیادہ ہوتا تھا اور لکھنے کی صلاحیت بھی کمال کی ہوتی تھی۔ اب یونیورسٹیوں کی حالت یہ ہے کہ اساتذہ کرام دس ابواب میں سے دو باب پڑھا کر اس میں سے خود ہی پیپر بنا کر طالبعلموں کو نوے فیصد نمبر دے دیتے ہیں اور جب یہ طالب علم کسی مقابلے کے امتحان میں جاتے ہیں تو سو فیصد ناکامی ان کا مقدر ہوتی ہے۔

سن 2016 میں جب پنجاب پبلک سروس کمیشن نے لیکچرر کی تعیناتی کی اور اس کے امتحانات ختم ہوئے تو چیئرمین پنجاب پبلک سروس کمیشن نے چیئرمین ہائرایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے طالب علموں کی اپنے مضمون کے بنیادی علم کے بارے میں بڑی گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔ مگر اس خط کو بھی معمول کی خط و کتابت سمجھا گیا اور آج چار سال بعد بھی یہی حالات ہیں کہ طالبعلم اپنے مضمون کے بنیادی علم سے بے خبر ہے۔ مجھے کئی ایسے طالب علم ملے ہیں جو کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں مگر وہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے لیکچرر کی تعیناتی کے تحریری امتحان میں فیل ہو گئے ہیں۔

جب ان طالبعلموں سے امتحان میں ناکامی کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا پرچہ بہت مشکل تھا اور ہمیں باخبر ذرائع سے پتا چلا ہے کسی کالج کے پروفیسر صاحب نے پرچہ بنایا تھا۔ اور ساتھ ہی ایک طالبعلم تو باقاعدہ ناراض ہو کر کہنے لگا جناب کالج والوں کو کیا وہ تو خود بھی ہمیں بی ایس سی میں ساری کتاب پڑھا دیا کرتے تھے اور صاف ظاہر ہے جب ان کو پرچہ بنانے کا کہا جائے گا تو پرچہ بھی مکمل کتاب سے ہی بنائیں گے۔ اور جب ان طالبعلموں سے پوچھا گیا کہ کیا پرچہ نصاب میں سے نہیں تھا۔

اس پر وہ طالب علم کہنے لگے کہ نہیں جناب پرچہ نصاب میں سے ہی تھا مگر کیونکہ ہم لوگوں نے اپنے ایم ایس سی اور بی ایس کے سمسٹرز میں ایسے موضوعات نہیں پڑھے تھے لہذا ہم جوابات نہیں دے سکے۔ ان طالب علموں سے ایک اور سوال پوچھا گیا کہ یہ بتائیں جو لوگ پاس ہو گئے ہیں آخر وہ کون لوگ تھے جبکہ یاد رہے کامیابی کا تناسب سائنس کے مضامین میں صرف ایک فیصد ہے۔ انہیں طالبعلموں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کہیں نہ کہیں پرائیویٹ اکیڈمیوں اور کالجوں میں پڑھا رہے ہیں اسی لیے ان کا علم چونکہ تازہ ہے نصاب پر مکمل عبور حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ امتحانات میں آسانی سے پاس ہو گئے ہیں۔

اب اس گفتگو سے آپ خود ہی اندازہ لگائیں کے طالبعلم مختلف وجوہات بتانے کے باوجود بھی اس چیز کو مورد الزام نہیں ٹھہرا رہے کہ ان لوگوں نے مکمل نصاب نہیں پڑھا تھا اور نہ ہی یونیورسٹیوں میں ان کو مکمل نصاب پڑھایا گیا تھا۔ یہی مکمل نصاب کا نہ پڑھنا ان لوگوں کی پنجاب پبلک سروس کمیشن کے مقابلے کے امتحان میں ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔

سالانہ نظام تعلیم اور سمیسٹر سسٹم پر ملک کے بڑے بڑے ماہرین تعلیم بحث مباحثہ کرچکے ہیں اور ظاہر ہے ان لوگوں نے کچھ سوچ کر ہی یہ نظام یونیورسٹیوں میں لاگو کیا ہوگا۔ 2008 ء میں ایک یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے اجلاس کے بعد میں کچھ پروفیسرز و ممبران سنڈیکیٹ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں پر موجود ایک پروفیسر جو اس وقت سنڈیکیٹ کے ممبر بھی تھے اور دور حاضر میں ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں انھوں نے کہا تھا کہ ہم لوگ یہ سمیسٹر سسٹم یونیورسٹی میں لاگو کر رہے ہیں مگر یاد رکھیئے گا یہ نظام یونیورسٹیوں میں تباہی لائے گا۔ تعلیمی معیار کے تباہی تو آپ سب لوگوں کے سامنے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں بیٹھے ہوئے ارباب اختیار اس نظام کی وجہ سے جس اخلاقی، معاشی، سماجی بدعنوانی اور بلیک میلنگ کے مرتکب ہو رہے ہیں وہ آئے روز آپ اخباروں میں اور سوشل میڈیا پر دیکھتے رہتے ہیں۔

مکمل نصاب کا پڑھانا اور غیر جانبدار، آزاد اور با اختیار امتحانی نظام ہی ہمارے ملک میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).