مامالوسی پوسی مریا


وہ مجھے عید کی نماز میں مل گیا تھا۔ پہلے تو میں اسے نہیں پہچانا مگر جب اس نے اسکول کے بیتے دنوں کی باتیں کی تو مجھے فوراً ہی یاد آ گیا۔ ہم دونوں ہی بی ایم بی اسکول کے پڑھے ہوئے تھے۔ پانچ سال تک ساتھ رہا تھا ہمارا۔ چھٹی کلاس میں ہم دونوں ساتھ ہی داخل ہوئے تھے۔ میرا تو داخلہ ہی چھٹی کلاس میں ہوا تھا۔ پہلے تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے داخلہ دینے سے صاف انکار کر دیا تھا مگر جب میرے والد نے کسی ذریعے سے ان سے بات کی تو وہ ٹیسٹ لینے پر راضی ہو گئے تھے۔

میں پڑھنے لکھنے میں بہت اچھا تھا۔ ٹیسٹ میرے لیے بالکل حلوہ ثابت ہوا، پھر انہوں نے بڑی خوشی خوشی مجھے اسکول میں داخلہ دے دیا تھا۔ وہ بڑے شفیق انسان تھے، بڑے محنتی۔ ایسے ہیڈ ماسٹر اسکولوں کو کم ہی ملتے ہیں۔ صبح سے شام تک وہ اسکول میں ہی رہتے تھے نہ ان کا کوئی کوچنگ سینٹر تھا نہ وہ لڑکوں کوگھر پربلا کر پڑھاتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر لڑکوں کو کوچنگ سینٹر میں جانا پڑجائے تو ایسے اسکولوں کو بند کر دینا چاہیے۔

انہیں میں نے صرف محنت ہی کرتے دیکھا تھا۔ ان کا غصہ بھی بہت غضب کا تھا۔ صبح اسمبلی لائن میں وہ ہر ایک کلاس کو دیکھا کرتے تھے۔ کسی کے بال بڑھے ہوئے ہیں، کسی کے ناخن نہیں کٹے ہوئے ہیں، کسی کا جوتا پالش نہیں کیا ہوا ہے، کسی کی قمیض پر نشان پڑا ہوا ہے، کسی کی پینٹ پر روشنائی گری ہوئی ہے، ہر ایک چیز پر ان کی نگاہ ہوتی تھی۔ لمبے بالوں سے تو انہیں بلا کی چڑ تھی اگر ہم میں سے کسی کے بال کانوں سے نیچے آ جاتے تھے تو وہ گھر خط لکھتے تھے کہ اپنے بچے کے بال کٹوالیں اور اگر دوسرے دن بال نہیں کٹے ہوں تو اسکول میں ایک حجام آ کر بال کاٹ دیا کرتا تھا۔ میں اب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ پانچ سال میں جس طرح سے میری تربیت ہوئی تھی وہ اب میری شخصیت کا حصہ بن گئی ہے۔ ہمارے اسکول کے ہر لڑکے کا یہی حال تھا۔ آج کل کے مہنگے اسکولوں کے مقابلے میں وہاں صرف تعلیم نہیں ملتی تھی بلکہ انسانیت کے ہنر بھی سکھائے جاتے تھے۔

زاہد کا داخلہ بھی چھٹی کلاس میں ہوا تھا۔ وہ میرے بعد کلاس میں آیا تھا۔ میرا نمبر اکتالیس تھا اور اس کا بیالیس، اور ہم دونوں کو آخری سیٹ ملی تھی۔ شروع میں پوری کلاس ہمارے خلاف تھی لہٰذا ہم دونوں کی دوستی فوراً ہی ہو گئی تھی۔ مگر آہستہ آہستہ ہم دونوں کلاس میں گھل مل گئے تھے۔

میں آگرہ تاج کالونی میں رہتا تھا۔ غازی اسکول کے بس اسٹاپ سے اتر کر اسکول کے پیچھے ہی ہم لوگوں کا گھر تھا۔ میرے والد پاکستان ٹوبیکو کمپنی میں کام کرتے تھے اور کیپسٹن سگریٹ بہت شوق سے پیتے تھے۔ میں کالج میں تھا کہ انہیں خون کی الٹیاں شروع ہو گئیں، سول ہسپتال سے ڈاکٹروں نے بجلی لگانے کے لیے جناح ہسپتال بھیجا، تھوڑے دنوں بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ مجھے سگریٹ سے شاید نفرت اسی لیے ہو گئی تھی۔ سگریٹ کے ساتھ ہی مجھے خون کی الٹیاں کرتے ہوئے میرے والد صاحب نظر آ جاتے ہیں۔

زاہد کھارادر میں رہتا تھا۔ ایک دن جب میں دس نمبر کی بس پکڑ کر بجائے ٹاور جانے کے کھارادر پر اترگیا تھا تو وہ مجھے میمن مسجد کی طرف جانے والی مرزا آدم خان سڑک پر مل گیا تھا۔ میں اکثر ایسا کرتا تھا۔ مجھے روزانہ پانچ آنے یا چھ آنے ملا کرتے تھے۔ ایک آنا ٹاور تک کرایہ وہاں سے ایک آنا دے کر جامعہ کلاتھ مارکیٹ۔ واپسی میں جامعہ کلاتھ مارکیٹ سے ٹاور ایک آنا اور پھر ٹاور سے ایک آنے میں آگرہ تاج کالونی۔ اکثر میں صبح سویرے نکلا کرتا تھا اور بجائے ٹاور جانے کے کھارادر پر اترجاتا تھا۔

کھارادر سے ایک شارٹ راستہ تھا جس سے ہوتے ہوئے میمن مسجد کے گیٹ سے نکل کر بولٹن مارکیٹ میں بندر روڈ پر راستہ نکلتا تھا۔ بولٹن مارکیٹ سے ٹرام لے کر جامعہ کلاتھ مارکیٹ پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ فائدہ یہ ہوتا تھا کہ ٹرام میں بغیر ٹکٹ سفر ہو سکتا تھا اور اس طرح سے ایک آنے کی بچت ہوجاتی تھی۔ میں اپنے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے اس طرح سے پیسے جمع کر لیا کرتا تھا۔ سستا زمانہ تھا ایک آنے میں آدھا سیر امرود یا تین کریم رول مل جایا کرتے تھے۔ اسکول کے باہر بنگالی کے ٹھیلے سے چورن یا بابا سے جنگل جلیبی لے کر کھانے میں بہت مزا آتا تھا۔ بنگالی کا چورن اور املی کے گولے یا گولاگنڈا اور فالودہ ہر چیز ہمیں کھانے سے منع کی جاتی تھی مگر اس کے باوجود ان کا کھانا روز کی بات تھی۔

پھر تو میرا یہ معمول ہی بن گیا تھا کہ کھاردر پر زاہد سے مل کر اس کے ساتھ بولٹن مارکیٹ جانا، پھر وہاں سے ٹرام پر بیٹھ کر جامعہ کلاتھ جانا اور پیسے بچانا اور نئی نئی وہ تمام چیزیں کھانا جن سے میرے گھر والے منع کیا کرتے تھے۔ زاہد ہر چیز کا پتا تھا۔ وہ ہماری کلاس کا سب سے سیانا بندہ تھا۔ ٹاور سے مرچوں والے چھولے، صدر میں گھسیٹے خان کی حلیم اور چوہدری فرزند علی کی قلفی، سعید منزل کے کھیر ہاؤس کی کھیر اور برنس روڈ کے کباب، میٹرک تک پہنچتے پہنچتے ان سب چیزوں کا مزا ہم لوٹ چکے تھے۔ گھر سے چھپ کر پہلی فلم ”ارمان“ میں نے زاہد کے ساتھ ہی ناز سینما میں دیکھی تھی۔ شمیم آرا کی ”سہیلی“ بھی سب سے چھپ کر دیکھی تھی اور بعد میں لی مارکیٹ کی قسمت ٹاکیز میں انگلش فلمیں دیکھنی شروع کی تھیں۔

میٹرک کے بعد ساری کلاس جیسے غائب ہو گئی تھی۔ میں نے ایس ایم کالج کامرس میں داخلہ لیا تھا جہاں سے بی کام پاس کر لیا تھا۔ بی کام کے دوران ہی میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا تھا جس کے بعد مجھے نوکری پر بھی توجہ دینی پڑی تھی۔ مجھے پارسیوں کی ایک پرانی اکاؤنٹنگ فرم میں نوکری مل گئی اور زندگی کی اس دوڑ میں بہت سی چیزیں بچھڑگئی تھیں، زاہد بھی ان میں سے ایک تھا۔

میں نے بڑی محنت سے کام کیا تھا۔ میرا بڈھا پارسی باس جس کے دونوں بیٹے امریکا میں آباد ہو گئے تھے اور ایک بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ کینیڈا چلی گئی تھی، مجھ پر بڑا مہربان تھا۔ اس نے نہ صرف یہ کہ میری مالی مدد کی تھی بلکہ اس طرح سے رہنمائی کی تھی کہ میں بغیر وقت ضائع کیے ہوئے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بن گیا تھا۔

اب میری اپنی اکاؤنٹنگ کی فرم ہے۔ ہم لوگ اب آگرہ تاج کالونی میں نہیں ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہتے ہیں۔

اس عید پر ڈیفنس کی بڑی مسجد میں زاہد سے ملاقات ہوئی تھی۔ عید ملنے کے بعد ہم لوگوں نے اپنے فون نمبروں کا تبادلہ کیا تھا۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ اب میں اکاؤنٹنٹ ہو گیا ہوں۔ مجھے یاد نہیں تھا کہ اس نے اپنے بارے میں کیا بتایا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ اسے ضرور فون کروں گا مگر اس کا نمبر مجھ سے کھوگیا۔

ایک دن آفس میں اس کا فون آیا۔ میں آواز سے ہی پہچان گیا تھا۔ اس نے مجھے اپنے آفس میں بلایا تھا اس نے کہا تھا کہ اسے مجھ سے کام بھی ہے وہ اپنے اکاؤنٹنٹ کو بدلنا چاہ رہا تھا اور اس سلسلے میں اسے کچھ مشورہ چاہیے تھا۔ ہم نے کچھ پرانی باتیں کی تھیں پھر میں نے اسے بتایا تھا کہ میں کب اس کے آفس آؤں گا۔

تین دن کے بعد میں اس کے آفس پہنچ گیا۔ کلفٹن کی اس بلڈنگ میں پوری تیسری منزل پر اس کا آفس تھا۔ آفس میں داخل ہوتے ہی جو چیز سامنے تھی وہ ایک بڑی سی خوب صورت بلی کی بڑی سی تصویر تھی۔ یہ اس کا ادارہ تھا، ادارہ تحفظ حقوق بلیاں، اور وہ اس ادارے کا ڈائریکٹر تھا۔ اس کے کمرے کے باہر کچھ لوگ مختلف ٹیبلوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ دربان نے مجھے اس کے کمرے کے باہر ایک چھوٹے کمرے میں پہنچادیا تھا جہاں اس کی سیکریٹری اپنے کمپیوٹر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی تھی، ”اچھا آپ احسان صاحب ہیں؟ جی ہاں زاہد صاحب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔“ وہ مجھے لے کر سیدھے زاہد کے کمرے میں چلی گئی تھی۔

اس کا کمرہ خوب صورت تھا۔ بڑے سلیقے سے سجایا گیا تھا۔ دیواروں پر خوب صورت تصویروں کے ساتھ بلیوں کی تصویر مختلف انداز میں لگی ہوئی تھی۔ اس کے بالکل پیچھے دیوار پر تین بلیوں کی تصویر تھی جن کی دم کو آپس میں باندھ دیا گیا تھا۔ ساتھ میں ایک تیر کی طرح کا ہتھیار تھا جو دموں کی گرہ کو الگ کر رہا تھا۔ اس تیر کے اوپر ادارہ تحفظ حقوق بلیاں کا نشان بنا ہوا تھا۔ اس کی ٹیبل کے دائیں جانب ایک بوڑھی یورپین عورت کی تصویر تھی جو بہت ساری بلیوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی۔

وہ مجھے دیکھ کر کھڑا ہو گیا، بڑے خلوص سے ملا تھا۔ دیر تک ہم دونوں اسکولوں کی باتیں کرتے رہے۔ ماسٹر فضل دین کی کہانیاں اور پی ٹی ماسٹر کی مختلف سزائیں۔ ہمارا اسکول سے بھاگنا اور الفنسٹن اسٹریٹ پر چکر لگانا یا خواہ مخواہ بوہری بازار میں پھیرے لگانا۔ اسے ہر کلاس کی بہت ساری چھوٹی چھوٹی باتیں یاد تھیں۔ ہم گپ مارتے رہے اور چائے پیتے رہے، وہ شام میری بھی فارغ تھی اور شاید اس نے بھی اپنے آپ کو فارغ رکھا ہوا تھا۔ ہم دونوں بچھڑے دنوں کی باتیں کرتے رہے، کبھی ہنستے رہے۔ اس نے ہی بتایا تھا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا انتقال ہو گیا تھا اور کچھ اور کلاس ٹیچوں کے بارے میں بھی اسے پتا تھا۔ وہ ایک اچھی شام ثابت ہوئی۔

رخصت ہوتے ہوئے اس نے مجھ سے وقت مانگا تھا کہ کچھ کام کی باتیں کرے۔ دو دن بعد میں نے اسے اپنے آفس بلالیا تھا۔

اس کا ادارہ دنیا بھر میں بلیوں کے حقوق کا تحفظ کرتا تھا۔ پاکستان میں اس نے ہی اس ادارے کی بنیاد رکھی تھی، اب اس کا کام بہت بڑھ گیا تھا۔ لاکھوں ڈالر کا بجٹ تھا اور بقول اس کے اگلے سال سے کتوں کے حقوق کے لیے بھی انہیں کام کرنا تھا۔ اس صورت میں مزید بڑھ جانا تھا، اسے سارے کام کے اکاؤنٹس کو صحیح رکھنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اکاؤنٹس کی دیکھ بھال کے لیے میں اسے کوئی آدمی دوں اور ہر سال اس کا آڈٹ بھی کروں تاکہ بین الاقوامی میٹنگوں میں مشکل نہ ہو۔ اس نے کہا تھا کہ جو بھی ہماری فیس ہوگی اسے ادا کرنے میں ادارے کو کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا ہوگا۔ میں نے حامی بھرلی کہ ایک اکاؤنٹنٹ بھیج دوں گا اور اس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق فیصلہ کروں گا کہ ہماری فرم کے لیے کام کرنا ممکن ہوگا کہ نہیں۔

جلد ہی مجھے پتا چل گیا کہ ادارے کا نظام اطمینان بخش ہے۔ لاکھوں ڈالر کا فنڈ ہر سال یورپ اور امریکا سے آتا ہے۔ ادارے کا مرکز درحقیقت سوئٹزرلینڈ میں تھا۔ زاہد پاکستان کی برانچ کا بانی بھی تھا اورڈائریکٹر بھی، جسے پاکستان میں تمام اختیارات حاصل تھے۔ ادارہ ہی اس کی تنخواہ دیتا تھا اور اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر مختلف مہمیں چلاتا تھا۔ ہر سال جنیوا میں ادارے کی مختلف برانچوں کی میٹنگ ہوتی تھی اور ہرتین سال پر دنیا کے مختلف حصوں میں ادارے کا کنونشن ہوتا تھا۔ آمدنی اور اخراجات کا حساب کتاب بہت مناسب تھا اور میری فرم نے اس کے ادارے کے آڈٹ کا کام سنبھال لیا تھا۔

زاہد خیابان توحید پر دو ہزار گز کے پلاٹ پر ایک خوب صورت سے مکان میں رہتا تھا۔ اس مکان میں وسیع و عریض لان تھا جس کے ساتھ ہی ایک خوب صورت سا سوئمنگ پول تھا جس کے کنارے پر باربی کیوں کے لوازمات بھی موجود تھے۔ اندر کشادہ سادہ ڈرائنگ روم تھا جہاں ایک بڑی سی تصویر تھی، بیچ میں وہی یورپین بوڑھی سی عورت بہت ساری بلیوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی۔

آہستہ آہستہ ہم دونوں کی پرانی دوستی مزید مستحکم ہو گئی، ساتھ ہی مجھے اس کے ادارے کی سرگرمیوں کا اندازہ بھی ہو گیا تھا۔ بلیوں کے حقوق سے متعلق اس کے ادارے کی سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ مثلاً انہوں نے ”بلیوں کے حقوق اور انسان“ نام کی کتاب چھاپی ہوئی تھی جس میں انسان اور بلیوں کے صدیوں پرانے تعلقات پر روشنی ڈالی گئی تھی اور بلیوں کے ان حقوق کا ذکر کیا تھا جن کا انسان بالکل خیال نہیں کر رہا تھا۔

”بلی کی ذاتی رائے“ نامی کتاب میں بلی کے احساسات اور جذبات کا احترام کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ بچوں کے لیے ایک خوب صورت باتصویر کتاب تھی ”بلیاں ہم سب کی دوست“ بلیوں کے بارے میں ہی ایک کارٹون کہانی تھی جو کسی انگریزی کتاب کا ترجمہ تھا۔ اسی طرح سے چھوٹے چھوٹے کئی پمفلٹ تھے جن میں بلیوں پر ہونے والے ظلم سے لے کر بلیوں کے ساتھ ہونے والے عجیب و غریب واقعات کی نشان دہی کی گئی تھی۔ ایک پمفلٹ میں مختلف مذاہب میں بلیوں کے مقام کے بارے میں اطلاعات فراہم کی گئی تھیں۔ اسی پمفلٹ سے مجھے پتا لگا تھا کہ حضرت ابوہریرہؓ کا نام ابوہریرہ اس لیے رکھا گیا تھا کہ وہ مکے کی بلیوں کی حفاظت و نگہداشت کیا کرتے تھے۔

ادارہ تحفظ حقوق بلیاں کے حساب کتاب دیکھنے سے جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ زاہد ہی اس سارے نظام کا بانی بھی ہے۔ اس ادارے کے چلانے کی ذمہ داری بھی اسی پر ہے۔ یورپ، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور جاپان سے فنڈ ادارے کے لیے آتا تھا اور زاہد کی نگرانی سارا کام ہوتا تھا۔ ادارے میں کام کرنے والے تمام لوگ تنخواہ دار ملازم تھے اور بہت اچھی تنخواہوں پر کام کر رہے تھے۔ زاہد بھی تنخواہ دار ڈائریکٹر تھے۔ ادارے کے مرکزی دفتر جنیوا میں تھا، وہاں کی ہدایات پر وہ کام کرتے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ زاہد نے یہ سلسلہ شروع کیسے کیا تھا۔ اس کی بھی تفصیل ایک دن مل گئی تھی۔

اس شام میں زاہد کے خوب صورت ڈرائنگ روم میں بیٹھا اس سے گپ مار رہا تھا۔ زاہد پچھلی شام ہی جنیوا سے واپس آیا تھا اور اپنے ساتھ ٹیچر کی کچھ بوتلیں بھی لے آیا تھا۔ ٹیچر مجھے بھی بہت پسند ہے۔ یہ شراب ایک مہربان استاد کی طرح ہے جس کی چھی باتوں کا نشہ کبھی بھی نہیں اترتا ہے۔ ترش ترش، دھیمی دھیمی اور بہت گداز۔ اس نے مجھے شام ساتھ گزارنے کے لیے بلایا تھا۔ میں عادی پینے والا نہیں تھا۔ مگر کبھی کبھار ضرور پی لیتا تھا۔

یہ بھی میں نے اپنے پارسی باس سے سیکھا تھا۔ جب کبھی کبھار وہ مجھے اپنے گھر بلاتے تھے، پی آئی ڈی سی بلڈنگ کے پیچھے پتھروں کے بنے ہوئے گھر کے کشادہ لان پر جب کیماڑی سے آنے والی ہوا اپنے سرور میں چلتی تھی تو شراب کا سرور کچھ اور ہی مزا دیتا تھا۔ نہ جانے مجھے ٹیچر کیوں بہت اچھی لگتی تھی۔ اس دن بھی ہم دونوں باب مارلے، ٹیناٹرنر اور بروس اسپرنگ کے مختلف گانوں سے دھیمے سروں میں لطف اندوز ہو رہے تھے تو نہ جانے کیوں یکایک میں اس سے پوچھ بیٹھا تھا کہ یار یہ بلیوں کے چکر میں تو کب سے پڑگیا تھا؟

زاہد زور سے ہنسا تھا۔ ”یار پرانا قصہ ہے، کہاں سے شروع کروں؟ چلو شروع سے شروع کرتا ہوں۔ ہوا یہ کہ میٹرک میں میری سیکنڈ ڈویژن آئی تھی اور میں نے داخلہ اسلامیہ کالج میں لیا تھا اور وہاں ہی میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں کام کرنے لگ گیا تھا۔ ایم ایس ایف میں کام کرنے سے یہ ہوا تھا کہ مسلم لیگ کے لیڈروں سے دوستی ہو گئی۔ ساتھ ہی میں تقریریں وقریریں بھی کرنے لگا تھا۔ پھر پابندی سے مسلم لیگ کا وظیفہ بھی ملتا تھا۔

ایوب خان کے الیکشن میں تو میں نے کام بھی کیا تھا اور اگر ایوب خان رہتا تو مغربی پاکستان کی اسمبلی کا ممبر توشید بن ہی جاتا۔ مگر نہ ایوب خان رہے اور نہ ہی ایوب خان کی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن۔ 1968 ء میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن والوں نے بھٹو کے ساتھ مل کر چھٹی کرائی تھی، پھر الیکشن ہوئے تھے اورپاکستان ٹوٹ گیا تھا۔ بھٹو صاحب کے وزیراعظم بنتے وقت میں بی اے کر کے لاء کالج میں قانون پڑھ رہا تھا۔ اس وقت میں پیپلز پارٹی میں شامل ہو گیا تھا۔

ایل ایل بی تو جیسے تیسے میں نے پاس کر لیا تھا مگر وکالت کرنا بڑا مشکل تھا۔ میں کام کی تلاش کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے آفس میں کام کرتا تھا جس میں پیداگیری بھی ہوتی تھی۔ بہت سے لوگوں کے بہت سے کام کرائے تھے۔ میڈیکل انجینئرنگ کالج میں داخلے سے لے کر پلاٹوں کے الاٹمنٹ تک ہر کام کا کوئی نہ کوئی وزیر تھا اور پیسوں سے سارے کام ہو جاتے تھے۔ جس بلڈنگ میں میرا آفس ہے اس بلڈنگ کا وہ فلور میری ملکیت ہے۔ وہ بھی مجھے ایسے ہی ملا تھا۔

اس کے بلڈر کا سارا کام نے کرایا تھا۔ اس پلاٹ کا کمرشیلائزیشن، پھر اس کا نقشہ اور اس نقشے کے پاس ہونے کے بعد اس میں دو منزلوں کا اضافہ۔ کے ایم سی، کے ڈی اے تک ہر جگہ یہ حال تھا اور ہر جگہ یہ کام ہو گیا تھا۔ میں اپنے دھندوں میں لگا ہوا تھا کہ پھر مارشل لاء آ گیا تھا۔ مارشل لاء کے ساتھ ہی میں نے بھی پیپلز پارٹی چھوڑدی تھی۔ فوجی حکومت میں تو بڑی آسانی ہو گئی تھی۔ فوجیوں کو تو کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ جلد ہی میری دوستی صحیح لوگوں سے ہو گئی تھی اور بیچ کے آدمی کی حیثیت سے میں نے بھی کافی کمایا تھا۔

یہ والا پلاٹ مجھے اسی زمانے میں کوڑیوں کے بھاؤ مل گیا تھا۔ اسی زمانے کی بات ہے ایک دن اخبار میں میں نے پرہا تھا کہ سوئٹزرلینڈ میں ایک میٹنگ ہوئی ہے جس میں دنیا بھر کی بلیوں پر ہونے والے مظالم پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ایک تنظیم بنائی گی ہے جو بلیوں کے حقگوق کا تحفظ کرے گی اوراس سلسلے میں ساری دنیا میں کام کرے گی۔ میں نے ایسے ہی انہیں خط لکھ دیا تھا کہ میں بھی اس جدوجہد میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ فوراً ہی مجھے جواب آ گیا تھا کہ اس سلسلے میں ایک کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے جس میں مجھے بھی بلایا گیا تھا۔ یہ میرا پہلا دورہ پاکستان سے باہر کا تھا۔ اس میٹنگ میں یک بوڑھی خاتون جنہوں نے لاکھوں ڈالر اس مقصد کے لیے دیے تھے نے بڑی شاندار تقریر کی تھی۔ ان کی کہانی بھی خوب ہے۔

یہ کہہ کر وہ رکا اپنے اور میرے خالی گلاس کو ٹیچر اور برف سے لبریز کر کے پھر بولا کہ ”یہ بڑی بی اپنی سیاحی کے دوران ہندوستان کے کسی پہاڑی علاقے میں پہنچ گئی تھیں وہاں انہوں نے دیکھا تھا کہ بچے اور بڑے سب شوق سے بلیوں کا کھیل کھیلتے ہیں۔ اس کھیل میں پانچ بلیوں کی دم کو سختی سے باندھ کر میدان میں چھوڑدیا جاتا ہے اور جس کی بلی سب سے پہلے دم چھڑا کر یاتڑا کر بھاگتی ہے اسے انعام ملتا ہے۔ بلیوں کا یہ کھیل ان سے برداشت نہیں ہوسکا تھا۔

ہماری تنظیم کا یہ نشان وہیں سے آیا ہے۔ یہ تیر ہم لوگوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ہم دنیا کی تمام بلیوں کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ اس کانفرنس میں اسلامی اور ایشیا افریقہ کے ملکوں سے میں واحدہ نمائندہ تھا۔ مادام نے مجھے اپنے گھر خصوصی طور پر بلایا تھا۔ مجھے ابھی تک یاد ہے جنیوا شہر سے تھوڑا باہر ایک بڑے سے ولا کے ایک بڑے سے ہال میں وہ اپنے کئی بلیوں کے درمیان کھڑی تھیں جب میں پہنچا تھا۔ یہ ہال میں لگی ہوئی تصویر اسی وقت کی تھی۔

کائنات کا سارا پیار ان کے چہرے پر عیاں ہے جو صرف بلیوں کے لیے تھا۔ یہ تھیں مامالوسی پوسی مریا۔ ان کا نام تو لوسی مریا تھا مگر بلیوں کی محبت کی وجہ سے انہیں مامالوسی پوسی مریا کہا جاتا تھا۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ارب پتی شوہر کے مرنے کے بعد تمام دولت انہیں مل گئی تھی، جس سے انہوں نے بلی فاؤنڈیشن بنایا تھا۔ مجھے بہت اہمیت دی گئی تھی اور پھر میں نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ اب زندگی بلیوں کی مدد میں ہی گزاروں گا۔

اس علاقے کا ڈائریکٹر مجھے بنایا گیا تھا۔ میں نے بھی عقل مندی سے کام لیتے ہوئے اپنا آفس ادارہ تحفظ بلیاں کو کرائے پر دے دیا تھا اور وہیں سے ہی آپریٹ کرتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ رکا، دھیرے سے مسکرایا تھا اور چڑھی چڑھی آنکھوں کے ساتھ بولا تھا۔ ”یار بلی ولی تو اپنی جگہ پر خیر ہے مگر ہوا یہ ہے کہ بہترین افس ہے، بہترین تنخواہ ہے اور ہر سال کا بجٹ ہے اور بلیوں کے حقوق کا مسئلہ ہے۔ ساتھ میں دنیا گھومنے کو الگ ملتی ہے۔ زندگی مزے میں گزررہی ہے اور مجھے نہیں لگتا ہے کہ میری زندگی میں بلیوں کا مسئلہ حل ہو سکے گا۔“

زندگی مزے میں ہی گزررہی تھی۔ اس کا اکاؤنٹنٹ ہونے کے ناتے مجھے پتا لگ گیا تھا کہ یہ کام کبھی بھی ختم نہیں ہوگا۔ یورپ امریکا میں مرنے والے ارب پتی، کروڑ پتی لوگ اور پیٹ کے مسائل سے آزاد قومیں دنیا بھر کے بلیوں کتوں اورجانوروں کے لیے رقم دیتے رہیں گے اور زاہد جیسے پروفیشنل لوگ یہ کام خوب طریقے سے کرتے رہیں گے۔ ٹیچر کی آخری بوند کے بعد وہ محفل برخواست ہو گئی تھی۔

ایک دن شام کو زاہد کا فون آیا تھا کہ اب کام بڑھ جائے گا کیوں کہ یہ تنظیم دوسرے جانوروں کے حقوق کے لیے بھی کام کرے گی، پچھلی ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں بڑے بحث و مباحثہ کے بعد اب ہمارے مینڈیٹ یعنی دائرہ عمل کو بڑھادیا گیا ہے۔ کتوں سے غیرانسانی سلوک، گدھوں گھوڑوں کا استعمال اور دیگر جانوروں سے غیر معیاری رویہ قابل قبول نہیں ہے۔ یہ کہہ کر وہ رکا تھا، پھر بولا تھا کہ تمہارا بھی کام بڑھ جائے گا کیوں کہ میرا بجٹ تقریباً تین گنا بڑھ جائے گا۔ مجھے ٹیلی فون کے دوسری جانب اس کے چہرے پر کھلی ہوئی مسکراہٹ صاف نظر آئی تھی۔ پھر یکایک وہ بولا تھا، یا ر کیا کر رہے ہو۔ آ جاؤ پول پہ کباب لگ رہے ہیں اور ٹیچر کی بوتل کھلی ہوئی ہے آؤ اور غم غلط کرو۔

میں بھی فارغ ہی تھا، فوراً ہی حامی بھر بیٹھا جب پہنچا تو وہ بڑے سے ڈرائنگ روم میں مامالوسی پوسی مریا کی تصویر کے نیچے بیٹھا تھا۔ مامالوسی پوسی مریا کا بلیوں کے لیے پیار اس کے چہرے پر عیاں تھا۔ یہ پیار ہی تو تھا کہ جس کی وجہ سے اس نے اپنی زندگی، جائیداد اوردولت ان بلیوں کے لیے تیاگ دی تھی۔ یہ آج کی دنیا کا عجب معاملہ ہے۔ وہ جن کے پاس بے انتہا دولت تھی وہ کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں اور ان کے کچھ نہ کچھ میں بھی ہم لوگ اپنی ذاتی دنیاؤں کو آباد کر رہے تھے۔ وہ مجھے دیکھ کر زور سے چیخا، یار آ گئے، آ جاؤ آج خوشی کا دن ہے۔ ٹیچر کی بوتل کسی مہربان استاد کی طرح بڑے شاطر انداز سے مسکرارہی تھی۔ بیٹھوون کی پانچویں سمفنی بجنی شروع ہوئی تھی تاتاشاتا۔ تاتاتاشا۔ تاتاشاتا۔

ہم دونوں نے پینا شروع کر دیا تھا جب پی پی کر بھوک لگی تھی تو نوکر نے خبر دی تھی کہ سوئمنگ پول پر کباب لگادیے گئے ہیں۔ پھر یکایک وہ واقعہ ہو گیا تھا۔ ہم دونوں جب جھومتے ہوئے سوئمنگ پول پر پہنچے تو دیکھا تھا کہ ٹیبل پہ لگے ہوئے چکن تکوں سے ایک بلی بڑی انہمام سے شوق کررہی تی۔ زاہد زور سے چیخا۔ ”حرام زادی۔“ سووروں دیکھتے نہیں ہو، اس نے ایک نوکر کو آواز دی تھی اور زور کی لات بلی کو ماری تھی۔ بلی کے منہ سے چکن تکا الگ جاگرا تھا اور وہ ہوا میں چکر کھا کر سوئمنگ پول کے بیچ میں جاگری تھی۔

میرے سامنے یکایک ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس کمیشن، انصاف برائے انسانی حقوق اور حق انسانیت کے بے شکار کارکن آ گئے جو زاہد کے ساتھ کھڑے مجھے منہ چڑارہے تھے۔

بیتھوون کی پانچویں سمفنی دوبارہ شروع ہو گئی تھی تاتا تاشا۔ تاتا تاشا۔ تاتاشاتا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).