ریپ کا شکار 15 سالہ لڑکی سے ملزم کی عدالت میں شادی کیسے ممکن ہوئی؟


            <figure>
  <img alt="شادی" src="https://c.files.bbci.co.uk/3881/production/_115756441_child.jpg" height="549" width="976" />
  <footer>Getty Images</footer>
  <figcaption>وہ کونسی قانونی خامیاں ہیں جن کی وجہ سے ایک کم عمر بچی کو مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنانے والا ملزم اسی لڑکی سے شادی کر کے قانون کے شکنجے سے بچ نکلا؟ (فائل فوٹو)</figcaption>
</figure>ایک کم عمر لڑکی اپنے ہی محلے کے ایک رہائشی پر الزام لگاتی ہے کہ وہ کئی برسوں سے اس کا ریپ کر رہا ہے۔ پولیس مقدمہ درج کر کے تفتیش کرتی ہے، معاملہ ذیلی عدالت سے ہائی کورٹ میں چلا جاتا ہے اور جوں ہی ملزم کی گرفتاری کا امکان پیدا ہونے لگتا ہے وہ اسی لڑکی سے کورٹ میرج کر کے جیل جانے سے بچ جاتا ہے۔

یہ کسی کرائم تھرلر کا مرکزی خیال نہیں بلکہ لاہور میں پیش آنے والے ایک حالیہ کیس کی داستان ہے جس کے بعد کئی سماجی حلقے یہ سوال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ پولیس کی ناک کے نیچے ایک کم عمر لڑکی کی شادی، اس کو مبینہ طور پر ریپ کرنے والے ملزم سے کیسے طے پائی اور کیا اس کے خلاف کوئی قانونی چارہ موجود ہے یا نہیں؟

اگرچہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے قانون کے مطابق 16 برس سے کم عمر کی شادی غیر قانونی تصور ہوتی ہے، اس معاملے میں ملزم بظاہر قانون میں موجود خامیوں کو استعمال کرتے ہوئے ناصرف کارروائی سے بچنے میں کامیاب ہو گیا ہے بلکہ کوئی بھی متعلقہ فرد بظاہر اس ‘غیر قانونی’ شادی پر اعتراض اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ریپ کی گئی بچی سے ملزم کی موجودگی میں تفتیش ’انہونی بات‘ نہیں؟

’لڑکی کی شادی کی عمر کم از کم 18 سال کرنے کی تجویز‘

پنجاب میں کم عمری کی شادی کے خلاف ترمیمی بل منظور

کم عمری کی شادیوں کا رواج کیسے بدلیں؟

پولیس سے لے کر لڑکی کے ریپ کے مقدمے کی پیروی کرنے والے وکیل تک، سب اس پیش رفت پر نالاں نظر آتے ہیں لیکن ان کے مطابق وہ اب اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔

تو پھر یہ معاملہ ہے کیا اور وہ کونسی قانونی خامیاں ہیں جن کی وجہ سے ایک کم عمر بچی کو مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنانے والا ملزم اسی لڑکی سے شادی کر کے قانون کے شکنجے سے بچ نکلا؟

یہ معاملہ کب سامنے آیا؟

لڑکی کی والدہ کوثر بی بی (فرضی نام) لاہور کے ایک علاقے میں چھوٹے سے ایک کمرے کے مکان میں اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھیں جہاں تینوں بچیاں اور والدہ فرش پر ہی سو کر گزارا کرتی تھیں۔

کوثر کے خاوند کئی برس پہلے ہی وفات پا چکے ہیں اور تب سے کوثر اپنی بیٹیوں کے ساتھ کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہی تھیں۔

رواں برس اپریل میں کوثر بی بی نے تھانہ بادامی باغ میں ایک درخواست جمع کروائی کہ ان کے ہمسائے میں ایک دودھ دہی کی دکان ہے جس کا 25 سالہ مالک گذشتہ ڈیڑھ سال سے مسلسل ان کی ایک بیٹی کا ریپ کر رہا ہے۔

پولیس کو دی گئی درخواست میں کوثر بی بی نے بتایا کہ ملزم اگست 2018 سے ان کی بیٹی کی زبردستی نازیبا تصاویر بنا کر اسے ڈرا دھمکا بھی رہا ہے اور بلیک میل کر رہا ہے۔

درخواست میں کوثر بی بی نے مزید لکھا کہ ملزم نے ان کی بیٹی کو دھمکی دی کہ وہ اس کی بہنوں کے ساتھ بھی ویسا ہی کرے گا جو اس کے ساتھ کرتا رہا ہے، اس لیے ڈر کے مارے ان کی بیٹی اتنا عرصہ خاموش رہی اور کسی سے کبھی کچھ نہیں کہہ پائی۔

کیس کی ابتدائی تفتیش جوزف کالونی پولیس چوکی کے پاس آئی اور پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 376 کے تحت ریپ کے جرم میں (جس کی سزا کم سے کم 10 سال اور زیادہ سے زیادہ سزائے موت ہے) ملزم امانت علی پر مقدمہ درج کر لیا اور تفتیش تھانہ شاہدرہ میں ریپ کیسز کی تفتیش کے لیے قائم پنجاب پولیس کے خصوصی سیل میں خواتین پولیس افسران کے سپرد کر دی۔

بچی کے لیے حالات وہاں بھی زیادہ سازگار نہیں رہے۔ ان کی والدہ کوثر بی بی نے اس سے قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ تھانہ شاہدرہ میں ان کی بیٹی کو اس کے ریپ کے ملزم کے ساتھ ایک ہی کمرے میں بٹھا کر ‘تفتیش’ کی گئی اور پولیس کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ‘انھیں پتا ہے کہ لڑکی کا ملزم کے ساتھ افیئر تھا‘ اور وہ اپنی مرضی سے اس کے پاس آتی جاتی رہی۔

تاہم ایس ایس پی انویسٹیگیشن لاہور عبد الغفار قیصرانی پولیس پر لگنے والے ایسے تمام الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پولیس تفتیش میں ایسے رویے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔

کورٹ میرج کن حالات میں ہوئی؟

تفتیش تقریباً چھ ماہ چلی اور پولیس نے ملزم کو قصور وار ٹھہرا کر رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی۔ ملزم نے سیشن کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری کروا لی اور جب اس کی ضمانت منسوخ ہوئی تو اس نے نے ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔

تفتیش کے ان چھ ماہ کے دوران پولیس ایک بار بھی ملزم امانت کو گرفتار نہ کر سکی اور جیسے ہی ہائی کورٹ نے ملزم کی درخواست مسترد کی اور اس کی گرفتاری کا دوبارہ امکان پیدا ہوا تو اس نے لڑکی کے ساتھ پانچ ہزار روپے حق مہر کے عوض کورٹ میرج کر لی۔

لڑکی کے چچا نے بتایا کہ جس دن بچی کی کورٹ میرج ہوئی، ’وہ گھر پر اکیلی تھی اور اس کی والدہ اور دونوں بہنیں کسی کام سے باہر گئیں ہوئیں تھیں۔ وہ لوگ (ملزم کے رشتہ دار) اسے گھر کے روشن دان سے نکال کر ساتھ لے گئے۔‘

جب کوثر بی بی گھر واپس آئیں اور بیٹی کو گھر پر نہیں پایا تو انھوں نے بادامی باغ پولیس کو ایک درخواست دی۔ تاہم پولیس نے اسی شام انھیں نکاح نامے کی ایک کاپی دیتے ہوئے آگاہ کیا کہ ان کی بیٹی نے اپنے ریپ کیس کے ملزم سے اپنی ’مرضی‘ اور ’بغیر کسی دباؤ‘ کے شادی کر لی ہے۔

نکاح کے فوراً بعد اسی روز ان کی بیٹی نے سیشن کورٹ میں بیان حلفی بھی جمع کروا دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ملزم، جو کہ اب ان کا شوہر ہے، نے کبھی ان کا ریپ نہیں کیا اور پولیس میں جمع کروائی جانے والی درخواست ان کی والدہ کی جانب سے دی گئی تھی۔

لڑکی نے اپنے بیان حلفی میں مزید لکھا کہ انھوں نے اپنی ‘مرضی’ سے ملزم کے ساتھ نکاح کر لیا ہے، اس لیے وہ اب کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتیں اور کیس خارج کرنے میں انھیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

لڑکی کے چچا کے بقول اس کے بعد کوثر بی بی نے بھی کہہ دیا کہ ’ٹھیک ہے، میں تو اس کی زندگی بچانا چاہتی تھی لیکن اگر اس کو ہی کوئی پرواہ نہیں تو پھر میں کیا کر سکتی ہوں‘ اور اس معاملے کی مزید پیروی کرنے سے انکار کر دیا۔

ریپ کے مقدمے میں لڑکی کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے بتایا کہ جب انھوں نے ملزم سے شادی کی تو وہ اس کیس سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ ان کے مطابق لڑکی کی وجہ سے ’ہم ایک جیتا ہوا کیس ہار گئے۔’

کوثر بی بی سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے متعدد کوششیں کی گئیں لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔

انڈیا کم عمری میں شادی

AFP
نکاح کے فوراً بعد لڑکی نے سیشن کورٹ میں بیان حلفی بھی جمع کروا دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ملزم، جو کہ اب ان کا شوہر ہے، نے کبھی ان کا ریپ نہیں کیا اور پولیس میں جمع کروائی جانے والی درخواست ان کی والدہ کی جانب سے دی گئی تھی (فائل فوٹو)

کیا قانونی طور پر یہ کم عمری کی شادی ہے؟

لڑکی کے نکاح نامے (جس کی کاپی بی بی سی نے دیکھی ہے) پر ان کی عمر17 سال درج کروائی گئی ہے جبکہ صحافی شاہد اسلم کو دستیاب نادرا چائلڈ رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ کے مطابق اس کی پیدائش 23 جنوری 2005 کو ہوئی تھی اور جس روز ان کی کورٹ میرج ہوئی اس روز وہ محض 15 سال، آٹھ ماہ اور 22 دن کی تھیں۔

پنجاب میرج ریسٹرینٹ (ترمیمی) ایکٹ 2015 کے مطابق پنجاب میں لڑکے کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال جبکہ لڑکی کی شادی کی عمر کم از کم 16 سال مقرر کی گئی ہے۔ ایکٹ کے مطابق خلاف ورزی کرنے والوں جن میں نکاح خواں سے لے کر لڑکی اور لڑکے کے والدین، لڑکا (اگر بالغ ہے) اور دیگر تمام سہولت کاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔

الزامات صحیح ثابت ہونے پر ملزمان کو چھ ماہ قید اور پچاس ہزار روپے جرمانے تک کی سزا ہو سکتی ہے۔

سابق چیئرمین پنجاب کمیشن برائے سٹیٹس آف وومین فوزیہ وقار نے بی بی سی کو بتایا کہ پنجاب میں 16 سال سے کم عمر کی شادی غیر قانونی تصور ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ قانون کی نظر میں ایسی شادی کی کوئی اہمیت نہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان میں وفاق اور صوبہ سندھ کے قوانین کے تحت شادی کے لیے عمر کی قانونی حد 18 برس ہے۔

کیا اب اس بارے میں کچھ نہیں ہو سکتا؟

ایس ایس پی انویسٹیگیشن لاہور عبد الغفار کے مطابق جب مدعی یا متاثرہ بچی ہی جا کر ملزم سے شادی کر لے اور کورٹ میں اس کے حق میں بیان بھی دے دیں تو پولیس کیا کر سکتی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ کسی کو نکاح کرنے سے روک سکے۔

بچی کی کم عمری میں نکاح کے متعلق پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ملزم اور متاثرہ بچی نے کورٹ میرج کی ہے اور اگر اس کی عمر میں کوئی غلط بیانی کی گئی ہے تو وہ ‘متعلقہ’ لوگوں کو دیکھنا چاہیے تھا۔

‘میرے نوٹس میں کئی ایسے کیسز بھی آئے ہیں جن میں متاثرہ خاندان پیسے لے کر ملزم کے حق میں بیان دے دیتا ہے یا صلح کر لیتا ہے۔ اس میں بتائیں ہم پولیس والے کیا کر سکتے ہیں؟’

دوسری جانب فوجداری قوانین کے ماہر اور معروف قانون دان احسن بھون کہتے ہیں کہ ایسی کورٹ میرج جس میں لڑکی کی عمر کے حوالے سے متضاد دعوے ہوں تو اس میں عدالت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بچی یہ چیلنج کرتی ہے کہ اس کی شادی کم عمری میں کر دی گئی تھی تو قانون ایسی شادی کو نہیں مانے گا۔

‘اگر متاثرہ بچی کے والدین اور ان کے وکیل عدالت جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے مرضی سے شادی کر لی ہے لیکن یہ بچی بالغ ہی نہیں ہے تو اس کا اوسیفیکیشن ٹیسٹ کروایا جائے جس کے ذریعے ڈاکٹر بچی کی ہڈیوں، جسم اور مختلف اعضا کی حالت کا مشاہدہ کر کے اس سے بچی کی عمر کا تعین کر سکتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32489 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp