’’بچے کا مقدمہ‘‘


’’بچے کا مقدمہ‘‘یہ ایک کتاب ہے ،مکمل کتاب۔اس کی خواندگی کے بعد آپ اپنے بچے کو جان پائیں گے،جب جان پائیں گے ،تواُس کی تربیت بھی کر پائیں گے۔ مَیں نے جب یہ کتا ب پڑھی،تو مصنف (وقاراحمد ملک) سے جنہیں ،مَیں اُن کی تحریروں سے جانتا تھا، فون پر بات کی اورایسی کتاب لکھنے کا شکریہ اداکیا۔مجھے بچوں پر ایک کتاب’’زینب کیس:ایک سماجی مطالعہ‘‘لکھنے کا موقع ملا۔یہ کتاب لکھنے سے قبل ،مجھے بچوں پر لکھی کتابوں کو دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا۔

مجھے بے حد تکلیف پہنچی کہ بچوں پرلکھی گئی سنجیدہ کتب کا فقدان ہے۔بچوں کے حقوق ہپر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیںکے پاس محض ڈیٹا کی حدتک معلومات ہیں ،یہ ادارے بجٹ اور دوسری سہولیات کے باجود اچھا لٹریچر ترتیب دینے سے قاصررہے ہیں۔جن دِنوںمَیںنے ،زینب کیس پر کام کیا،اُن دِنوں ملک کی ایک معروف جامعہ کے سوشیالوجی شعبہ کے چند ’’سماجی دانشوروں‘‘ سے ملاقات اور اُن کے طریقہ ٔ کام کو سمجھنے کا موقع ملا،بہت دُکھ ہوا کہ یہ لوگ ایک اچھا سوال نامہ تک ترتیب دینے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

جب کہیں کسی سیمینار ،یا ٹی وی ٹاک شو میں ،مجھے’’ بچوں پر تشدد‘‘کے موضوع پر بات کرنے کے لیے بلایا جاتاتو،مَیںہمیشہ ایک بات کرتا ہوں ،جسے میرے فلسفی دوست جمشید اقبال ہمیشہ سراہا کرتے ہیں ،کہ ’’ہمیں بچوں کا احترام کرنا چاہیے اور اُن کو عزت دینی چاہیے‘‘، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں احترام اور عزت جیسے الفاظ بڑوں کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں۔مثال کے طورپر ’’بڑوں کا احترام کریں ،بڑوں کی عزت کریں‘‘مگر سوال یہ ہے کہ بچوں کی عزت کیوں نہ دیں اور اُن کا احترام کیوں نہ کریں؟

اس کا جواب یہ کتاب دیتی ہے اور بہت بھرپور طریقے سے دیتی ہے۔تاہم یہاں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ خاکسار،یا کتاب کے مصنف بڑوں کی عزت اور اُن کے احترام سے منع کررہے ہیں۔یہ کتاب بڑوں کی عزت اور اُن کے احترام میں مانع نہیں ،بس یہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ چونکہ بڑے نصاب ترتیب دیتے ہیں تو وہ اپنے احترام اور اپنی عزت پر زور دیتے ہیں،بچہ چونکہ کمزور ہوتا ہے اور نصاب ترتیب دینے کا اختیار بھی اُس کے پاس نہیں ہوتا ،یوں ہماری نصابی کتابیں بچوں کے احترام اور عزت جیسے لفظوںسے معذور رہتی ہیں۔

’’بچے کا مقدمہ‘‘کی خواندگی کے دوران ،آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم بچوں کے نکتہ نظر سے کم سوچتے ہیں،جب ہم بچے کے نکتہ نظر سے سوچیں گے تومعلوم پڑے گا کہ بچے توجہ حاصل کرنے کے لیے تنگ کرتے ہیں۔ ’’کھلائو سونے کا نوالہ…دیکھوشیر کی نظر سے‘‘یہ محاورہ ہم سنتے رہتے ہیں ،مصنف کہتے ہیں کہ ’’یہ محاورہ کسی کمزور دِل والد کی تخلیقی کاوش کا مظہر ہے،جو بچوں کی ذمہ داریوں کے بوجھ سے گھبرا کر یہ کہتا ہے کہ میرا کام کمانا ہے اور بچوں کی ضروریات پیدا کرنا ہے۔

شیر کی نظر ،والد کو دیگر سرگرمیوں میں بچوں کی رکاوٹ نہ بننے کے لیے کمال نفسیاتی ومدافعاتی نظام مہیا کرتی ہے‘‘ہم یہ بھی سنتے ہیں کہ ’’جیسا باپ ویسا بیٹا‘‘مصنف کے نزدیک جب معاشرہ بچے کو اس طور ٹیگ کرتا ہے تو معاشرے کا عمومی روّیہ بھی بچے کے ساتھ اس طورمنفی اور تعصب پر مبنی ہوتا ہے۔

بچہ مکمل طورپر ایک علیحد ہ شخصیت ہے ،وہ کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ‘‘آ پ کسی کے گھر جائیں ،یا کوئی آپ کے گھر آئے اور آپ کا بچہ ایک نکڑمیں خاموش بیٹھا رہے ،یعنی والدین کو تنگ نہ کرے تو کہا جاتا ہے کہ ’’خاموش بیٹھا رہتا ہے ،کیسا شریف بچہ ہے۔

‘‘مصنف کہتے ہیں کہ خاموش بیٹھا ہوابچہ شریف نہیں کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہوتا ہے۔بچہ پیکر ِ جذبات مخلوق ہے‘‘بعض بچوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ ’’بچہ تیز طرارہے ،زندگی میں کامیاب ہوگا‘‘وقار احمد ملک ،اپنی اس کتاب میں ،اس کی ایک مثال دے کر سمجھاتے ہیںکہ اگر ایک بچہ کمرے میں آیا ،اُس نے دیکھا وہاں بیٹھنے کے لیے جگہ خالی نہیں ہے تو وہ ایک دوسرے بچے کو بہانے سے اُٹھا کر ،وہاں خود بیٹھ جاتا ہے ،تو اس عمل کو دو طرح سے دیکھا جاتا ہے ،جو بچہ چالاکی سے کرسی پر بیٹھ جاتا ہے تو اُس کے والدین کا یہ دیکھ کر سینہ چوڑا ہوجاتا ہے اور جو جھانسے میں آکر جگہ چھوڑدیتا ہے ،اُس کے والدین کہتے ہیں کہ نرا گدھا ہے ،زندگی میں کامیاب کیسے ہوگا؟مصنف کے نزدیک ’’اِن دونوں کیسز میں معاشرے کی عمومی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔

جھوٹ ،مکر وفریب، چھیناجھپٹی ،جب معاشرے میں کامیابی کی شرط قرار پائے اور معاشرہ ان کو قبولیت بخشے تو ایسی صورت میں متذکرہ بالا تیز طراری ذہانت کا مظہر ٹھہرتی ہے۔لیکن ایسے تیز طرار بچے میں ہم دِلی کے فقدان اور جذباتی تحریک بے قابو ہونے کے سبب مستقبل میں اپنے آپ کو یا معاشرے کو نقصان دینے کی اہلیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں‘‘ بچوں کی تربیت پر مبنی یہ وقیع کتاب ،اس مختصر کالم میں نہیں سموسکتی۔یہ کتاب والدین کے لیے لکھی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جانیں ،پھر اُن کی تربیت کریں۔

سچ تو یہ ہے کہ مَیں نے اس سے قبل بچوں کی تربیت کے حوالے سے ،اس سے جامع کوئی کتاب نہیں دیکھی ۔یہ کتاب ہر گھر میں ہونی چاہیے۔ہمیں بچوں کا احترام کرنا چاہیے اور اُن کو عزت دینی چاہیے،کہ یہ بچے بڑے ہو کر سماج کو احترام اور عزت دیں گے۔یہ کتاب صریر پبلی کیشنزنے چھاپی ہے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).