آصفہ اور مریم: موروثی سیاست کے الزامات کی حقیقت


آصفہ بھٹو کے میدان سیاست میں اترنے کے بعد موروثی سیاست پر ایک بار پھر زور و شور سے تبرہ بازی ہو رہی ہے۔ سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ اس طرح کے الزام اور اتہام کے تیر ان کی طرف سے آتے دکھائی دیں گے، جو موجودہ ہائبرڈ حکومت یعنی مکس اچار والی حکومت کے گن گاتے پھرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کہیں سے یہ سن گن لگ گئی کہ سیاست میں موروثیت ناجائز ہے۔ یہ بد بخت جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کا کلمہ پڑھتے ہوئے تو شرمسار نہیں ہوتے مگر بندوق برداروں کے ہاتھوں جمہوری حکومت کے قلع قمع کو ملک کی بقا اور سلامتی کا ضامن سمجھتے ہیں۔ انہیں سیاست میں کچھ سال بعد ایک ”عمران خان“ تو گوارا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھی پر اقتدار میں آ کر اشاروں پر ناچنا جانتا ہو مگر انہیں قائد اعظم کی نیک سیرت، پاکدامن اور سیاسی بصیرت سے مالا مال بہن فاطمہ جناح ہر گز گوارا نہیں کیونکہ وہ آمریت کے قبیح کاروبار کو ببانگ دہل للکارنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔

یہ نابغے سیاست میں موروثیت کا واویلا اس وقت مچاتے ہیں جب کوئی حسین شہید سہروردی آمریت کے قلعے میں شگاف ڈالتا ہے اور اسے اونچی بارگاہوں کے رٹو طوطے غدار قرار دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی ذوالفقار علی بھٹو ایوبی مارشل لا کے راستے کی دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے، ایٹم بم کی بنیاد رکھتا ہے جس کی پاداش میں خود بھی پھانسی پر جھول جاتا ہے اور اپنی دختر، دختر مشرق اور دو جواں سال فرزندوں کی قربانی بھی دے دیتا ہے۔ آج جاں نثاروں اور شہیدوں کے اسی خانوادے کی تازہ دم بیٹی جب نادیدہ مارشل لا کی فصیل پر جمہوریت کے تیر برساتی ہے تو آمریت کی آغوش میں پلے دل جلے موروثی سیاست کے طعنے دینے لگتے ہیں۔

آپ نے قلوب و اذہان اور طرز فکر کو سال ہا سال تک آمریتوں کی بھٹی کی آنچ میں تپانے والوں کو اتنی سی سی بات کی سمجھ نہیں آتی کہ سیاست کا تاج اس جواں مرد کے سر کی زینت بنے گا جس کے گرد عوام جمع ہوں گے۔ کار سیاست و حکومت کا معیار اگر زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت و قرب الٰہی ہوتا تو لوگ حضرت امیر معاویہ رض کے مقابلے میں حضرت حسن ابن علی رض کے گرد جمع ہوتے۔ اگر عدل و انصاف ہوتا تو قاضی شریح خلیفۂ وقت ہوتے۔

اگر علم و عرفان، وسعت مطالعہ، حاضر جوابی اور تدبر و تفکر حکومت کرنے کا پیمانہ ہوتا تو جلال الدین اکبر کی جگہ اس کا کوئی نورتن مغل اعظم کہلاتا۔ شریعت و طریقت، تصوف و قلندرانہ شان یہ معیار ہوتا تو سلطان غیاث الدین تغلق کی جگہ فرید الدین گنج شکر اور نظام الدین اولیا سریر آرائے سلطنت ہوتے۔ حکمت، فلسفے اور ذہانت و فطانت سیاست و حکومت میں فیصلہ کن قدریں ہوتیں تو سکندر اعظم کے بجائے ارسطو بادشاہ بن کر آدھی سے زیادہ دنیا فتح کرتا۔

سائنس و ٹیکنالوجی اور ایجاد و اختراع اقتدار کے حصول کا پیمانہ ہوتا تو اوباما کی جگہ سٹیفن ہاکنگ امریکہ کا صدر ہوتا۔ عسکری طاقت و ہیبت و جلالت کے بل بوتے پر فیصلہ ہوتا تو برطانیہ پر حکومت جانسن کی جگہ وہاں کے آرمی چیف کی ہوتی۔ بے پناہ دولت و ثروت اور جاگیر و کاروبار کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا تو آج ٹرمپ کی جگہ بل گیٹس امریکہ پر حکمرانی کر رہا ہوتا اور خاکی وردی و تیغ و تفنگ ہی کو حکمرانی کی دلیل مانا جاتا تو آج جنرل مشرف پاکستان کا حکمران ہوتا۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کار سیاست و حکومت کا تعلق درج بالا کسی چیز سے نہیں ہوتا بلکہ سیاسی بصیرت، عزم و ہمت، ایثار و قربانی اور عوام کی پسندیدگی سے ہوتا ہے۔ آج جب آمریت کے دسترخوان پر بیٹھا خوشہ چینوں کا ابن الوقت ٹولہ ہر قسم کی دھونس، دھمکی، دباوٴ اور نیچ سے نیچ ہتھکنڈے کے باوجود نواز شریف کا پرچم مریم نواز اور بینظیر و زرداری کا پرچم بلاول و آصفہ بھٹو کے ہاتھوں میں دیکھتا ہے تو موروثیت کا پٹ سیاپا شروع کر دیتا ہے کیونکہ اس طرح ہتھ پال سیاست میں مرغ دست آموز ”عمران خان“ کی آمد کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔

کار سیاست سیاسی بصیرت اور عوامی خدمت کے سچے جذبے کا مرہون منت ہے۔ حکومت کرنا اس شخص یا پارٹی کا حق ہے جس پر عوام کا اعتماد ہو اور عوام اس پر اعتماد کرتے ہیں جسے سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے۔ جسے سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے اس کی سیاست کو اوچھے ریاستی ہتھکنڈوں اور بندوق کے زور سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جنرل ضیا نے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد ان کی بیٹی اور پورے خاندان کے خلاف کس کس طرح ظلم و ستم کا بازار گرم کیا۔

وہ اپنے تئیں پیپلز پارٹی کو جڑ سے اکھاڑ چکے تھے مگر جب 1986 میں محترمہ بے نظیر طویل اور صبر آزما جلا وطنی کے بعد وطن واپس آئیں تو لاہور میں دس لاکھ افراد ”زندہ ہے بھٹو“ کے نعرے لگاتے ان کے استقبال کے لیے نکل آئے۔ بھٹو کی سیاسی عصبیت کا جادو کم و بیش پانچ عشروں سے سر چڑھ کر بول رہا ہے اور وہ قبر سے ہو کر حکومت کر رہے ہیں۔

میاں نواز شریف تین بار ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے مگر پھر کچھ ”گستاخیوں“ کی وجہ سے ”مقتدرہ“ کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے۔ دنیا نے دیکھا کہ گزشتہ چار پانچ سال کے دوران کس بھونڈے طریقے سے ان کی عزت، دولت، شہرت اور سیاست کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی مگر نواز شریف آج پاکستان میں سیاسی عصبیت کا استعارہ بن چکے ہیں۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد ان کی بیٹی ان کا پرچم نہ اٹھاتی تو پیپلز پارٹی ٹوٹ چکی ہوتی۔ محترمہ بے نظیر کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو پارٹی کا جھنڈا نہ اٹھاتے تو بھی یہ پارٹی منقسم ہو جاتی اور میاں نواز شریف کی نا اہلی اور بیماری کے بعد محترمہ مریم نواز پارٹی کا علم نہ بلند کرتیں تو نون لیگ ”جرنیلی“ ہتھکنڈوں کے طفیل تتر بتر ہو جاتی۔

آج اپوزیشن کے خلاف جب چوری، ڈاکے، کرپشن اور غداری کے ”جرنیلی“ ہتھکنڈے بری طرح پٹ رہے ہیں تو کرائے کے ترجمانوں، لکھاریوں اور زرد صحافیوں کے ذریعے موروثی سیاست کا پٹ سیاپا شروع کر دیا گیا ہے۔ تاریخ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ اس سے سبق حاصل نہیں کیا جاتا۔ ہماری مقتدرہ نے بھی ستر سال کی خجل خواری کے بعد بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جب تک ریاستی ظلم و جور اور جبر و استبداد کا سلسلہ جاری رہے گا، موروثی سیاست بھی جاری رہے گی۔ میکسیکن کہاوت ہے کہ انہوں نے ہمیں دفن کرنا چاہا مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ہم بیج کی طرح جگہ جگہ اگ آئیں گے۔ موروثیت کی بنیاد اگر اہلیت اور قابلیت ہے تو اس پر بے جا تنقیص کیسی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).