افغان حکومت، طالبان کے درمیان دوحا میں اہم معاہدہ: کیا افغانستان میں ’دیرپا امن‘ کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟


افغانستان
امریکہ میں صدارتی انتخابات کے بعد افغانستان میں امن عمل کے حوالے سے کئی سوالات نے جنم لیا اور ان میں سب سے اہم سوال تو یہی تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ان انتخابات میں واضح شکست کے بعد کیا افغانستان میں دیرپا امن قائم کرنے سے متعلق افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں میں امن مذاکرات آگے بھی بڑھ سکیں گے یا نہیں؟

بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ صدر ٹرمپ جنوری میں وائٹ ہاؤس سے نکلنے سے پہلے پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کرکے گھر جانا چاہتے ہیں۔ ایک طرف مشرق وسطیٰ میں امریکی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے تو دوسری طرف افغان امن مذاکرات سے متعلق بھی امریکی حکام پرعزم دکھائی دے رہے ہیں۔

بدھ کو افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کی طرف سے ایک اہم اعلان سامنے آیا تھا جس کے مطابق فریقین امن مذاکرات آگے بڑھانے کے لیے ایک ابتدائی معاہدے پر رضامند ہو گئے ہیں۔

افغان حکومت اور طالبان نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے اس معاہدے کے تحت مستقبل میں ہونے والے مذاکرات کا ایجنڈا تیار کرنے کے لیے ایک مشترکہ ورکنگ کمیٹی قائم کی ہے، جس نے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے اپنا کام بھی شروع کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا امریکہ اور افغان حکومت ایک پیج پر ہیں؟

’افغان امن عمل میں امریکہ کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا‘

افغان امن عمل: خواتین واپس پیچھے نہیں جانا چاہتیں

اس بیان کے مطابق دونوں فریق افغانستان میں دیرپا امن کے لیے اپنی حقیقی کوششوں کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان طے پانے والے اس تین صفحات پر مشتمل معاہدے میں آئندہ کے مذاکرات، جس میں مستقبل کا سیاسی نقشہ اور جامع سیز فائر جیسے آپشن شامل ہیں، سے متعلق رولز اور طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔

امریکہ نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ابتدائی معاہدہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں جاری کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد ممکن ہو سکا ہے جو افغانستان میں دیرپا امن قائم کرنے سے متعلق ایک اہم پیش رفت ہے۔

افغان صدر محمد اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے ٹویٹ کیا کہ یہ معاہدہ اہم امور پر بات چیت کے لیے ایک اہم ابتدائی قدم ہے۔ اہم امور کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ جامع سیز فائر‘ افغان عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ ہے۔

دونوں فریق سنجیدہ ہیں‘، امریکہ کا خیر مقدم

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ایک بیان میں اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے ان مذاکرات کی میزبانی کرنے کے لیے قطر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس کامیابی یہ ظاہر کرتی ہے کہ افغان حکومت اور طالبان نہ صرف مذاکرات میں سنجیدہ ہیں بلکہ وہ باہمی اختلاف کو ختم کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں اور وہ مشکل صورتحال سے نمنٹنے کے لیے بھی پُرعزم ہیں۔

افغان امن عمل کے لیے محکمہِ خارجہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے بھی امن مذاکرات کی طرز عمل سے متعلق معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔

زلمے خلیل نے کہا کہ ہے امریکہ ان مذاکرات کے تمام فریقوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں تشدد میں نمایاں حد تک کمی لانے اور اس عرصے میں جنگ بندی تک کے لیے جانفشانی سے کام کرے گا۔

اپنے ٹوئٹر پیغام میں انھوں نے کہا کہ افغانستان میں پاکستان کے وزیر اعظم کے مندوب صادق خان نے بین الافغان مذاکرات میں نئی پیشرفت کا خیرمقدم کیا اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اس عمل کی حمایت کرے گا۔

افغانستان

افغانستان میں اقوام متحدہ کے معاون مشن (یوناما) نے بھی امن مذاکرات میں نئی پیشرفت کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک مثبت پیشرفت قرار دیا ہے۔

مشن کے فریقین کا ایجنڈے کی طرف بڑھنا ایک مثبت قدم ہے اور دیرپا امن کی بحالی کی طرف ایک اہم قدم ہے جو تمام افغان چاہتے ہیں۔‘

برطانیہ نے اپنے مؤقف میں کہا ہے افغانستان میں امن کی راہ میں پرتشدد کارروائیاں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور افغانستان میں پائیدار استحکام کا واحد حل امن و سلامتی ہے۔

گذشتہ ستمبر میں دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان میں بات چیت کا آغاز ہوا تھا لیکن کچھ اختلافات کی وجہ سے فریقین میں کسی طریقہ کار پر اتفاق نہیں ہو پایا تھا۔

اب توقع کی جا رہی ہے کہ اب فریقین مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھائیں گے لیکن اس بات کا اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اگلے دور کے مذاکرات میں کتنا وقت لگے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp