’لو جہاد‘ قانون کے تحت انڈیا میں پہلی گرفتاری: ’میں بے گناہ ہوں، لڑکی سے کوئی تعلق نہیں‘


انڈیا
انڈیا کی ریاست اُتر پردیش میں پولیس نے ایک مسلمان لڑکے کو ایک ہندو لڑکی کو اسلام قبول کروانے کے الزام کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔

یہ گرفتاری ریاست اتر پردیش میں حال ہی میں متعارف کروائے گئے متنازع ’لو جہاد‘ قانون کے تحت کی گئی پہلی گرفتاری ہے۔

’لو جہاد‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو قدامت پسند ہندو تنظیمیں استعمال کرتی ہیں اور اس سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مبینہ طور پر مسلمان لڑکے پیار محبت اور شادی کے چکر میں پھنسا کر ہندو لڑکیوں کا مذہب جبراً یا دھوکہ دہی کے ذریعے تبدیل کرواتے ہیں۔

لو جہاد کے حوالے سے بنائے گئے قانون کے خلاف کافی غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا کیونکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کو اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انڈیا میں کم از کم چار اور ریاستیں بھی لو جہاد کے حوالے سے قوانین تیار کرنے میں مصروف ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ہادیہ کا اسلام ’لو جہاد‘ کی مثال؟

’لڑکیوں کے مذہب کی تبدیلی کے واقعات عشق نہیں ’لو جہاد‘ ہے‘

اشتہار میں مسلمان گھرانے میں ہندو بہو دکھانے پر ایک بار پھر لو جہاد پر بحث

اتر پردیش میں پولیس نے بدھ کے روز ٹوئٹر پر مسلمان لڑکے کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔

لڑکی کے والد نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ انھوں نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی ہے کیونکہ لڑکے نے ان کی بیٹی پر مذہب تبدیل کرنے کے لیے ‘دباؤ ڈالا’ اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے دھمکیاں بھی دیں۔

انڈیا

مذکورہ لڑکی کے مبینہ طور پر ملزم کے ساتھ رومانوی تعلقات تھے تاہم اس سال کے آغاز میں لڑکی کی کسی اور شخص سے شادی کر دی گئی تھی۔

پولیس نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ لڑکی کے خاندان نے گذشتہ برس بھی اس مسلمان لڑکے کے خلاف مبینہ اغوا کا کیس درج کروایا تھا تاہم لڑکی کی بازیابی اور اس کی جانب سے الزام مسترد کیے جانے کے بعد یہ کیس خارج کر دیا گیا تھا۔

بدھ کے روز ملزم کی گرفتاری کے بعد اسے چودہ روزہ عدالتی ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے۔ ملزم نے رپورٹرز کو بتایا تھا کہ وہ بے گناہ ہے اور اس کا لڑکی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔

لو جہاد قانون کیا ہے؟

نومبر میں ریاست اتر پردیش انڈیا کی وہ پہلی ریاست بن گئی تھی جس نے ’جبر‘ یا ’دھوکہ دہی‘ کے ذریعے مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظور کیا تھا۔ ’لو جہاد‘ قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر ملزم کو دس قید تک کی سزا ہو سکتی ہے جبکہ یہ جرائم ناقابلِ ضمانت ہیں۔

تاہم یہ ریاست شاید اس نوعیت کا قانون لاگو کرنے والی آخری نہ ہو کیونکہ کم از کم مزید چار انڈین ریاستوں، مدھیا پردیش، ہریانہ، کرناٹکا اور آسام، میں اسی نوعیت کے قوانین بنائے جانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

انڈیا

ان پانچوں ریاستوں میں انڈیا کی برسراقتدار جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی، کی حکومت ہے۔ اس جماعت پر مبینہ طور پر مسلمان مخالف جذبات کو عام کرتے رہنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کرنے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ لو جہاد کی اصطلاح انڈین قانون میں موجود نہیں ہے تاہم سخت گیر قدامت پسند ہندو گروہ اس قانون کے لیے یہی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

گذشتہ چند ماہ میں یہ اصطلاح شہ سرخیوں میں رہی ہے۔ اکتوبر میں ایک معروف جیولری برانڈ کو ایک اشتہار منسوخ کیا تھا جس میں بین المذہب شادی (ایک مسلمان لڑکے کی ایک ہندو لڑکی) دکھائی گئی تھی۔ دائیں بازو کی ہندو جماعتوں کی طرف سے یہ الزام عائد کیا گیا کہ یہ اشتہار لو جہاد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

نومبر میں حکام نے نیٹ فلیکس پر بھی یہی الزام لگایا تھا جس میں ایک ٹی وی سیریز ’اے سوٹیبل بوائے‘ میں ایک مسلمان لڑکے اور ایک ہندو لڑکی کی ایک مندر کے سامنے کھڑے بوسے کی عکس بندی کی گئی تھی۔

مدھیا پردیش کے وزیرِ داخلہ ناروتم مشرا کا کہنا تھا کہ اس منظر نے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے اور حکام سے کہا کہ اس کے خلاف کارروائی جائے۔

بی جے پی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ سنہ 2014 میں نریدر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں مذہبی منافرت میں اضافہ ہوا ہے۔

انڈیا میں ہندو مسلم شادیوں پر تنقید تو ہمیشہ سے ہی رہی ہے تاہم اس کے پیچھے دیگر منفی عزائم ہونے کا دعوی قدرے نیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp