شیعہ عالم کی موت اور دعائے مغفرت کا جھگڑا


مولانا کلب صادق کے انتقال کے بعد فیس بک کی دیواروں پر جو کچھ چسپاں نظر آیا اس نے بیک وقت اطمینان اور مایوسی کا احساس دے دیا۔ ادھر کچھ برسوں میں شاید پہلی مرتبہ ہوا ہوگا جب کسی عالم دین کے مرنے پر زیادہ تر لوگوں نے تعزیتی کلمات لکھنے سے پہلے یہ نہیں دیکھا کہ مرحوم کس مسلک سے تھے؟ ورنہ اپنے یہاں عالم یہ ہے کہ اگر آپ ہمارے مکتب فکر سے نہیں ہیں تو آپ کی ہر علمی ریاضت اور خدمت ہماری نظروں میں خاک ہے۔ کسی بھی مسلمان کو روک کر پوچھئے ’ذرا کچھ بڑے علمائے دین کے نام تو بتاؤ‘ تو شاید ہی کوئی ایسا دیوانہ ملے جس کے جواب میں غیر مسلک کا کوئی عالم شامل ہو۔

شیعہ سے پوچھئے تو امام شاطبی، امام غزالی، حضرت شاہ ولی اللہ، مولانا انور شاہ اور مولانا ابوالحسن علی میاں کے ناموں سے یوں صرف نظر کرتا گزر جائے گا جیسے یہ کوئی عالم نہیں بلکہ اس کے اوسط ہم جماعت رہے ہوں۔ دیوبندی سے پوچھئے تو اس کی نظر میں بریلوی یا اہلحدیث صفر ہیں اور ایسا ہی کچھ نظریہ بریلویوں اور سلفیوں کی اکثریت کا دیوبندیوں کے بارے میں ملے گا۔ جہاں تک شیعوں کا ذکر ہے تو وہ تو ان تینوں کی نظر میں دائرہ اسلام کو کب کا پھلانگ چکے ہیں۔

ایسی وحشتناک عصبیت کے دور میں اگر کسی شیعہ عالم کے انتقال پر غیر شیعوں کی طرف سے تعزیتی پیغامات دیکھنے کو ملیں تو اطمینان ہوتا ہے کہ ’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘ ۔ یہ شاید اس بات کا اشارہ ہے کہ ابھی بھی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو مسلکی عصبیت کے خلاف لڑنے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ بڑی حوصلہ افزا صورتحال ہے۔ اس سے بھی زیادہ مثبت امر یہ ہے کہ تعزیت کرنے والے ان غیر شیعہ افراد میں بڑی تعداد نوجوان علما کی تھی۔

مایوسی کا احساس یہ دیکھ کر ہوا کہ ان تعزیت کرنے والے غیر شیعہ افراد کو بری طرح ٹرول کرنے کی کوشش بھی خوب ہوئی۔ بہت سے فارغین مدارس کا استدلال تھا کہ ایک گمراہ فرقے کے شخص کی مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں۔ ایسے افراد کو شرعی کمک کچھ بزرگ علما کے تعزیتی پیغامات کے بین السطور سے مل گئی جس میں مولانا کلب صادق کے مرنے کا افسوس بھی تھا، متعلقین کو صبر آ جانے کی دعائیں بھی تھیں لیکن مغفرت اور بخشش کے دعائیہ جملے لکھنے سے اجتناب فرمایا گیا تھا۔ ان میں سے ایک پیغام ایسے عالم کی طرف سے تھا جن کی ایک مسلم تنظیم میں بیسیوں برس سے مرحوم نیابت فرماتے چلے آ رہے تھے۔ دوسرا پیغام ایسے عالم کی طرف سے تھا جن کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے ایک عید پر مرحوم بہت سے شیعوں کو لے گئے تھے۔

اپنی مذہبی تعبیر کے مطابق کسی مکتب فکر کو گمراہ ماننے کی سب کو آزادی ہے۔ یہ زبردستی ٹھیک نہیں کہ ہم کسی سے اصرار کرنے لگ جائیں کہ وہ فلاں فلاں کو گمراہ ماننا چھوڑ دے۔ اس لئے جن لوگوں نے مولانا کلب صادق کے مرنے پر تعزیتی پیغامات نہیں دیے ان سے شکوہ جائز نہیں۔ البتہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس طبقے کو بھی کسی کے ساتھ یہ زبردستی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ بھی فلاں فلاں کو گمراہ مانتے ہوئے اس کے لئے دعائے مغفرت نہ کریں۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بزرگ علما کو اپنی جلالت قدر سامنے رکھتے ہوئے زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ مثلاً تعزیتی پیغام میں مغفرت کی دعا نہ کرنا ٹھیک ہے لیکن یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ کہیں لوگ یہ تو خیال نہیں کریں گے کہ یہ مولانا اور مرحوم مولانا تو دہائیوں تک شانے سے شانہ ملا کر ملی تنظیم کی میٹنگیں کر کے امت کی قسمت لکھتے رہے ہیں۔ پھر اب مرحوم مولانا کے مرنے پر تعزیتی خط کا مضمون بتا رہا ہے کہ وہ تو دعائے مغفرت کے بھی لائق نہیں تھے۔ تو پھر ایسے گمراہ فرقے کے مولانا کو امت کے ارباب حل و عقد میں جگہ کیوں دی گئی؟ عجب نہیں کہ ایسی صورت میں کسی دل میں یہ میل آ جائے کہ ہمارے علما خدانخواستہ ذوچہرگی فرماتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر دعائے مغفرت کے سلسلہ میں جو ہنگامہ بپا ہوا اس میں ایک باریک سی چیز چھوٹ گئی۔ بات یہ نہیں کہ بخشش کی دعا کس نے کی اور کون چپ رہا؟ بات دراصل اس حقارت کے اظہار کی ہے جو دعائے مغفرت کی شدید مخالفت کی شکل میں تھا۔ اگر یوں ہوتا کہ جو دعائے مغفرت کو جائز سمجھتے ہیں وہ دعا کرتے اور جو اس کے منکر ہیں وہ خاموش رہتے تو تنازع ہوتا ہی نہیں لیکن یہاں یہ ہوا کہ جو قائل نہیں تھے انہوں نے ’گمراہ فرقے کی گمراہیوں‘ کا حقارت کے ساتھ اظہار کرنا شروع کر دیا۔

یہ بات رواداری اور اخلاقیات کی رو سے مناسب نہیں تھی۔ ہم سب لوگ غیر مسلموں کو بار بار یاد دلاتے ہیں کہ اسلام پر امن بقائے باہم، ایک دوسرے کا احترام اور رواداری کا سبق دیتا ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ اگر کوئی دعائے مغفرت والا قضیہ دیکھے گا تو کیا وہ یہ نہیں کہے گا کہ اپنے ہی مذہب کے کسی اور مسلک کے معاملے میں آپ کی رواداری اور باہمی احترام کیا ہوا؟

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter