کرونا، کتنوں کے پیاروں کو لے گیا


کرونا کی دوسری لہر کے خوفناک مہلک وار بے رحمی سے جاری و ساری ہیں۔ یہ وبا کتنوں کے پیاروں کو بے دردی سے اپنے ساتھ لے گئی اس کا اندازہ شاید ان لوگوں کو نہیں ہے جو اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وطن عزیز میں بہت سے پڑھے لکھے ذی شعور لوگ بھی یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ کرونا نہیں ہے حکومت ڈراما کر رہی ہے۔ کرونا میں متاثرہ شخص جب وہ بات کرے یا کھانسے کے تھوک یا ناک سے نکلنے والی رطوبتوں سے پھیلتا ہے۔ موسم سرما میں چونکہ عام نزلے زکام کے بھی لوگ شکار ہوتے ہیں لہٰذا بیشتر لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ وائرس کے نشانے پہ آچکے ہیں۔

ہر دن اپنے دامن میں کہیں خوشیاں تو کہیں غم لیے ہوئے طلوع ہوتا ہے۔ زندگی کو تو بے رحم کہا ہی جاتا تھا لیکن اب اس سے بھی زیادہ اور ظالم ایک عالمگیر وبا آئی ہے جو کرونا یا کووڈ۔ 19 کہلاتی ہے۔ کچھ لوگوں کو خدا محبت اور احساس کی اس مٹی سے گوندھتا ہے جو اپنی مشفق فطرت کی وجہ سے دوسروں کے دلوں میں اپنا ایک انمٹ تاثر چھوڑ جاتے ہیں۔ میں آج ایک بہت نیک دل ہمدرد اور ذہین انسان کا ذکر کروں گی جو اپنی فیملی کے واحد کفیل تھے۔

میرے بہت سے قریبی عزیز جو کرونا کا شکار ہوئے بتاتے ہیں کہ خدا کسی دشمن کو بھی اس میں مبتلا نہ کرے یہ جتنی اذیت ناک بیماری ہے۔ کسی بھی ملک میں پروفیسر آف میڈیسن ایک قومی اثاثہ ہوتا ہے جو اپنے وسیع تجربوں اور علم کی بنا پر اپنے مریضوں کا بہترین علاج کرتا ہے۔ کل کا دن اپنے دامن میں بہت سا غم لے کر آیا۔ لاہور شہر کے نامور پروفیسر آف میڈیسن ڈاکٹر ضیا اللہ پر بھی کرونا نے اپنا ایسا کاری وار کیا کہ پہلے تو وہ بہت ہائی آکسیجن پر رہے پھر انہیں کافی دن پہلے وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا۔

لیکن کرونا ایسی ظالم وبا ہے جس کی پیاس پھر بھی نہ بجھی جب تک کہ اس نے ڈاکٹر ضیا اللہ کی جان نہ لے لی۔ ڈاکٹر ضیا اللہ کے جانے کا نقصان تو ان کے اہل خانہ کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے ہی ساتھ ہی ساتھ تمام بیماروں اور میڈیکل کے شعبے کے لیے بھی بہت بڑا نقصان ہے۔ اس وقت ان کی موت پر پورا لاہور ماتم کناں ہے واٹس ایپ کے مختلف گروپس پر، فیس بک پر ہر جگہ ہر آنکھ اشک بار ہے۔ میں ضیا بھائی کو تقریباً بیس بائیس برس سے جانتی ہوں۔

میری بیٹی اور ان کی بیٹی کونوینٹ کی پریپ کلاس کی سہیلیاں ہیں۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے اچانک سے میری انگلیوں، گھٹنوں اور دیگر ہڈیوں میں شدید درد رہنے لگا حتیٰ کہ چلنا بھی دشوار ہو گیا۔ میں بہت سے ڈاکٹروں پر ادھر سے ادھر بھاگتی رہی کبھی کسی آرتھوپیڈک سرجن پر تو کبھی کسی فزیشن پر لیکن کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ ایسے میں ایک روز ضیا بھائی اپنی بیٹی مریم کو ہمارے گھر سے لینے کو آئے تو میں نے ان سے اپنی نا معلوم بیماری کا ذکر کیا۔

انہوں نے جھٹ سے مجھے اپنے اس کمرے کا نمبر دیا جہاں وہ شیخ زید میں پریکٹس کیا کرتے تھے اور کہا ”آپ وہاں آ جائیں ہم مکمل چیک اپ کریں گے“ ۔ میں اگلے ہی روز پہنچ گئی ہسپتال کا وہ کمرا، انتظار گاہ میں بیٹھے ہوئے ڈھیروں لوگ اور ضیا بھائی کا مسکراتا ہوا چہرہ۔ آج بھی یاد ہے۔ وہ پہلے ڈاکٹر تھے جنھوں نے میری بیماری Rheumatoid Arthritis کی تشخیص کی تھی ورنہ اس سے پہلے بڑے بڑے ڈاکٹر بھی اس میں ناکام رہے۔ کوئی مجھے ڈپریشن کی دوائیں دے دیتا تھا تو کوئی پٹھوں کے اکڑاؤ کی۔

ضیا بھائی میں ہمیشہ آپ کی احسان مند رہوں گی کہ آپ نے مجھے علاج کی درست سمت میں ڈالا بلکہ مجھے کسی Rheumatologist کے پاس جانے کا بھی بہترین مشورہ دیا۔ آج دل میں اک عجیب سا درد ہے آنکھ میں مسلسل پانی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں گھر پر بچوں کو آرٹ کلاسز کروایا کرتی تھی تو مریم اور اویس (ان کے بچے ) بھی آیا کرتے تھے۔ جب میں اویس سے پوچھتی تھی کہ تم بڑے ہو کر کیا بنو گے تو وہ کہتا تھا ”میں ڈاکٹر تو ہرگز نہیں بنوں گا“ ۔

میں وجہ پوچھتی تو کہتا ”ڈاکٹر کے پاس اپنی فیملی کے لیے وقت نہیں ہوتا۔“ پتہ چلا ہے آج اویس بھی ڈاکٹر بن گیا ہے۔ لیکن اب جو وقت آیا تھا کہ آپ اپنے بچوں کو وقت دیتے تو کرونا آ گیا۔ خدا را! جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وائرس بس یونہی سا ہے تو یقین مانیے یہ نادیدہ ضرور ہے مگر بہت ظالم ہے۔ اس میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ کرونا میں مبتلا ایسے مریض جو اے۔ سمپٹمیٹک کہلاتے ہیں ان کے اپنے اندر تو کسی قسم کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی مگر وہ دوسروں کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیتے ہیں۔

چونکہ وہ اس وائرس کا نادیدہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں خود تو وہ اتنے صحت مند ہوتے ہیں کہ ان پر اثر ہی نہیں ہوتا مگر وہ اپنی جہالت میں وہ بوجھ دوسرے کمزور لوگوں میں بآسانی منتقل کر دیتے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے ضیا بھائی بھی بہت احتیاط سے اپنے مریضوں کو دیکھتے تھے ڈبل ماسک اور دستانے بھی پہنے ہوتے تھے لیکن پھر بھی وہ کرونا وائرس کا اس بری طرح شکار ہوئے کہ جانبر نہ ہو سکے۔ انہیں بھی چاہیے تھا کہ اپنے مریضوں کو Zoom کے ذریعے دیکھتے۔

خدا را! ایک پندرہ سے بیس روپے کا ماسک آتا ہے لوگوں سے گزارش ہے اس کے استعمال کو ضروری بنائیے۔ ایک دوسرے سے چھے فٹ کا سماجی فاصلہ برقرار رکھیے۔ بلا ضرورت بھیڑ والی جگہوں پر جانے سے اجتناب کیجیے۔ ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا۔ اس مقولے پر ہی عمل کر لیجیے بلا شبہ انسانی جان بہت قیمتی ہے اس کی قدر کیجیے۔ ڈاکٹر پروفیسر ضیا اللہ کے بچے یتیم ہو گئے ان کی جوان بیوی ایک دم بیوہ ہو گئیں۔

ان کی ہنستی بستی زندگیوں میں اندھیرے چھا گئے۔ ایک ایسا شخص جس کے تمام شاگرد، ہم منصب، دوست، رفیق، رشتہ دار اور ہم جیسے پرانے ملنے والے سب اتنے اداس ہیں تو سوچیے وہ کتنی مہربان اور شفیق ہستی ہوں گے۔ بہت سے لوگوں نے بہت سی دعائیں کیں لیکن شاید اوپر والے کو وہاں بھی اپنے پیارے لوگوں کی سنگت کے لیے پروفیسر ضیا اللہ کی ضرورت تھی۔ سو وہ قادر مطلق ہے! ہر شے پر اختیار اسی کا ہے، وہ بے نیاز ہے، بس وہ لے گیا ان کو اپنے پاس۔

اب ہم صرف ان کے اہل خانہ کے لیے صبر کی اور ان کی مغفرت کی دعائیں کر سکتے ہیں۔ میں نے ان کی ایک حالیہ ویڈیو دیکھی ہے جس میں وہ شاید فائنل ائر کے شاگردوں کو وبا کے ہی دنوں میں لیکچر دے رہے ہیں کہ: ”ثابت قدمی سے اپنے مقصد پر ایمانداری سے ڈٹے رہیں گے تو آپ یقیناً اپنا نصب العین حاصل کر لیں گے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی آرزوؤں سے بھی زیادہ دے۔ آپ کی تمناؤں اور دعاؤں سے بھی زیادہ دے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسے مقام پر لے جائے جو ہم سے بھی اوپر ہو۔ I wish you all the way best۔ میرے سے مزید کچھ کہا نہیں جا رہا صرف ایک چیز کہوں گا کہ مجھے ایک شعر بڑا یاد آ رہا تھا:

دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
تھینک یو ویری مچ

پروفیسر ضیا اللہ کو کیا معلوم تھا کہ یہ شعر اتنی سرعت سے ان کے ہی اوپر ثابت ہو جائے گا۔ اس کرونا وائرس کا یقین کیجیے، زندگی کی قدر کیجیے، بے وجہ بھیڑ والی جگہوں پہ مت جائیے۔ یقین کیجیے یہ وقت گزر جائے گا۔ ظالم کرونا کتنوں کے پیاروں کو بے وقت اپنے ساتھ لے گیا اس کا احساس کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).