ٹیمپر، ٹینٹرم، ٹرمپ


وائٹ ہاؤس کارسپانڈنس کے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے سن 2011 میں صدر اوبامہ نے ڈونلڈ ٹرمپ پر بطور ایگزیکٹو پروڈیوسر ان کے ریالٹی شو ”سلیبریٹی اپرنٹس“ میں ان کے فیصلوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ بظاہر تو سب آپ کی قابلیت اور تجربے سے واقف ہی ہیں لیکن آپ نے ریالٹی شو ”سلیبریٹی اپرنٹس“ میں مردوں کی کوکنگ ٹیم کی ناکامی کا ذمہ دار، ٹیم کی بجائے لیڈر شپ کو ٹھہرا دیا تھا۔ آپ کے اس قسم کے فیصلے نے مجھے رات کو سونے نہ دیا۔

اوبامہ کے اس طنز کو جو ٹرمپ سامنے بیٹھے سن رہے تھے لوگوں نے بہت محظوظ کیا۔ بظاہر اوبامہ اس تقریب میں ٹرمپ کی جانب سے ان پر برتھ سرٹیفیکیٹ سے متعلق چلائی جانے والے منفی پروپیگنڈا مہم کا حساب چکا رہے تھے، لیکن شاید یہ ان کے وہم و گمان بھی نہ ہوگا کہ چار سال بعد وہی ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں بطور صدر پوری تمکنت کے ساتھ جلوہ افروز ہو کر اپنے فیصلوں اور خیالات سے امریکہ سمیت پوری دنیا کی نیندیں اڑا دیں گے۔

وائٹ ہاؤس کارسپانڈنس ایسوسی ایشن، وائٹ ہاؤس اور امریکی صدر کی پریس کوریج کرنے والی ایک تنظیم ہے، جو ہر سال امریکی صدر اور وائٹ ہاؤس کے پریس عملے سمیت ہالی وڈ کے ستاروں اور دیگر ممتاز شخصیت کو مدعو کرتی ہے۔ اس تقریب کی خاص بات یہ ہے کہ امریکی صدر سمیت، کامیڈین، اداکار، صحافی ایک دوسرے یا اپنے حریفوں پر کھل کر طنزو مزاح کے تیر برساتے ہیں اور تقریب کا یہ کھٹا میٹھا انداز اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ امریکی جمہوریت میں اظہار رائے کی کس قدر آزادی اور اہمیت ہے، دنیا کے طاقتور ترین شخص یعنی امریکی صدر کو بھی طنز و ہجو کا بلا خوف و خطر نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

وائٹ ہاؤس کارسپانڈنس ایسوسی ایشن کے سالانہ عشائیے کو واشنگٹن ڈی سی میں آسکر ایوارڈ جیسی تقریب کا رتبہ حاصل ہے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کے امریکی پریس سے تعلقات اس قدر خراب رہے کہ انہوں نے دوران صدارت وائٹ ہاؤس کارسپانڈنس ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقدہ ایک بھی عشائیے میں شرکت نہیں کی۔

ناقدین کے نزدیک ٹرمپ نے ریپبلکن پارٹی کی سیاست کو نیست نابود کر کے پارٹی کو اپنا رنگ دے دیا، ٹرمپ کی سیاست کو پاپولرازم یا نیونیشنل ازم کی سیاسی لہر کا نام بھی دیا جاتا رہا بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی، آسٹریلیا کی ”ون نیشن پارٹی“ کی پولین ہینسن، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، اور کچھ حد تک برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن بھی اسی طرح کی سیاست کے نمائندے تصور کیے جاتے ہیں، ٹرمپ کے اپنے دور صدارت میں ان رہنماؤں کے ساتھ حیرت انگیز طور پر بڑے خوشگوار تعلقات رہے۔

اس قسم کی سیاست میں معاشرے کے طاقتور یا غالب طبقے کو معاشرے کے کمزور یا کم وسائل یافتہ طبقے کے خلاف اکسا کر سیاسی کامیابیاں حاصل کی جاتی ہیں۔ پاکستان کی قوم پرست جماعتوں کے لیڈران بھی کچھ ایسی ہی سیاست کرنے کے کوشش کرتے ہیں، مگر ایسی سیاست معاشرے میں اتحاد کی بجائے تقسیم پیدا کرتی ہے۔ مثلاً امریکہ میں لاطینی تارکین وطن، مسلمان یا سیاہ فام امریکن کو تمام مسائل کی جڑ بتانے کی کوشش کی گئی اور ٹرمپ نے اس بنیاد پر بھی کامیابی حاصل کی کہ وہ میکسیکو اور امریکہ کے درمیان آہنی دیوار تعمیر کر کے اور مسلمانوں کی امریکہ آمد پر پابندی لگا کر امریکہ کو محفوظ بنائیں گے۔

اس کے برعکس ٹرمپ کے جمہوری روایات کے پاسدار ممالک اور سربراہان سے تعلقات کچھ سردمہری کا شکار رہے، مثلاً جرمنی کی اینجلا مرکل ہوں، نیوزی لینڈ کی جیسنڈا آرڈن یا کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو، امریکی صدر سے ان سربراہان کے تعلقات میں گرمجوشی دیکھنے میں نہ آ سکی۔ جرمنی میں تو صورتحال یہ تھی کہ عوام روسی صدر پوتن اور چینی صدر شی چنگ پن کو ٹرمپ کی بنسبت زیادہ پسند کرتے تھے۔

ٹرمپ کے بارے میں یہ بھی تاثر ر ہا کہ وہ اپنی کامیابی یا اپنے مخالفین کو شکست دینے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔ مثلاً اوبامہ کے متعلق وہ مہم چلاتے رہے کہ ٹرمپ امریکہ میں پیدا ہی نہیں ہوئے یا وہ مسلمان ہیں، اسی لیے وہ اپنا برتھ سرٹفکیٹ عوام کو نہیں دکھاتے۔ ہیلری کلنٹن کو مشکوک بنانے کی مہم، جو اس بنیاد پر تھی کہ ہیلری کی اسٹاف ممبر ہما عابدین پاکستانی نژاد تھیں۔ جو بائیڈن کو بدعنوان ہونے کا سرٹفکیٹ دینے کے علاوہ ٹرمپ عالمی سربراہوں کو بھی مختلف ناموں سے پکارنے سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔

مثلاً شمالی کورین صدر کم جونگ ان کو بات چیت شروع ہونے سے پہلے تک ”راکٹ مین“ کہ کر مخاطب کرتے رہے، کرونا وائرس کو بغیر کسی ثبوت کے ”چائنا وائرس“ پکارنا، یہ سب وہ باتیں تھیں جو نہ صرف امریکی صدارتی اقدار بلکہ بین الاقوامی سفارتی آداب کے بھی منافی سمجھی جاتی ہیں۔ بقول ایک تجزیہ کار، چین کو ٹرمپ کے جانے سے خوشی نہیں مایوسی ہوئی ہوگی کہ ٹرمپ مزید چار سال تک امریکہ کی تباہی نہ کر سکے۔

ٹرمپ کے دور اقتدار میں ڈیموکریٹ پارٹی کی چار کانگرس وومن، اوکاسیو کارٹز، الہان عمر، راشدہ طالب اور ایانہ پریسلی، ٹرمپ اور ان کے حواریوں کے خاص نشانے پر رہیں۔ یہ چار خواتین جو ’دی اسکواڈ‘ کے نام سے بھی مشہور تھیں شاید اس وجہ سے ہرزہ سرائی اور بیہودگی کا نشانہ بنیں کہ وہ سفید فام طبقے کی نمائندہ نہ تھیں، ان کو محض اس وجہ سے امریکہ چھوڑنے کے لیے کہا گیا کہ ان کے آبا و اجداد غیر امریکی تھے، صومالی نژاد الہان عمر پر ٹرمپ کا خاص نظر کرم رہا اور اخلاقیات کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے ٹرمپ نے ان پر الزام لگایا کہ الہان عمر نے اپنے بھائی سے شادی کر رکھی ہے۔ ٹرمپ اپنے ناپسندیدہ طبقے کو انسانیت کے درجے سے گرانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے، مثلاً میکسیکو کا بارڈر پار کرنے والوں کے متعلق ٹرمپ کی رائے تھی کہ یہ انسان نہیں بلکہ جانور ہیں۔

امریکی یا مغربی طرز جمہوریت کی یہ روایت ہے کہ ہارنے والا فریق کھلے دل سے اپنی شکست تسلیم کرتا ہے اور جیتنے والے فریق کو مبارک باد پیش کرتا ہے مگر ٹرمپ نے انتخابات کو حد درجہ تک مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ آخری وقت تک بھی ٹرمپ نے یہ کہتے ہوئے اقتدار سے علیحدہ ہونے پر رضامندی ظاہر کی کہ وہ بائیڈن کی جیت کو تسلیم نہیں کرتے۔

جو بائیڈن کے آنے سے جنوبی ایشیا اور چائنا سے متعلق امریکی پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی تو متوقع نہیں ہے، مگر پاکستان کے لیے یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ ٹرمپ کے دور حکومت میں کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالی پر، امریکہ کی جانب سے جو چشم پوشی کی گئی اس کی توقع شاید بائیڈن کے دور صدارت میں نہ کی جاسکے۔ بائیڈن نے اپنی انتخابی ویب سائٹ پر، کشمیریوں کے حقوق کی بحالی کے ساتھ، این آر سی اور سی اے جیسے متنازعہ قوانین کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ قوانین مسلمانوں کے خلاف امتیازی قوانین تصور کیے جاتے ہیں۔ امریکی نائب صدارت کی امیدوار کملا حارث بھی ہندو انتہا پسند تنظیموں کے خلاف سخت موقف رکھتی ہیں۔

امریکہ کے باشعور عوام نے مضبوط جمہوری نظام کی بدولت شاید ٹرمپ کا باب بند کر دیا ہے، مگر بھارت جیسے ملک میں بی جے پی کی طرز سیاست کو بظاہر کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا، لیکن اگر پاکستان بائیڈن انتظامیہ کی توجہ بھارتی مسلمانوں سے امتیازی سلوک اور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی جانب مبذول کروانے میں کامیاب ہو جائے تو مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب مثبت پیش رفت کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).