نیشنل ڈائیلاگ۔ کس کے درمیان؟


ملتان جلسے کے دوران حکومتی اقدامات، رویے اور پکڑ دھکڑ کے خلاف پی ڈی ایم کے موقف و عزم کے واضح اظہار کے بعد ملک کے سنجیدہ صحافتی حلقے ایک بار پھر ”تصادم“ سے بچنے کی دہائی دینے اور تمام اسٹیک ہولڈر کے مابین نئے عمرانی معاہدے یا مذاکرات کے ذریعے بحران حل کرنے کی تجویز دے رہے ہیں۔ یہ تجویز سیاسی حلقوں کے نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟ اس سے قطع نظر مذکورہ تجویز بارے مباحثہ ہونا چاہیے کہ آیا یہ ملک کے آئینی سیاسی بندوبست میں رچی بسی سیاسی مداخلت کی بحرانی نوعیت اور کیفیت کو کم کرنے۔ حل کرنے میں معاون ہوگی؟ یا اس کے بر عکس بحران کے اسباب کو ختم کرنے کی بجائے اسے مستحکم سماجی تائید و سیاسی بنیاد مہیا کر دے گی؟ کیا، تصادم کے خوف ”کے ذریعے۔ ملک میں سیاسی استحکام ممکن العمل ہے؟

پہلا سوال تو درپیش سیاسی بحران کی درست تشخیص کا متقاضی ہے۔ لائحہ عمل و علاج کا مرحلہ تو اس کے بعد سامنے آیا گا۔ مرض چونکہ معاشرتی اجتماعی نوعیت رکھتا ہے لہذا اس کی تشخیص کے لئے مشاہدات کی بجائے عملی تجربے سے گزرنا ہوگا۔ دریا کے کنارے کھڑے ہوئے تیراکی کے رموز سمجھانا نہایت مشکل ہے۔ جبکہ دریا کے پانی میں اتر کر اس کے بہاؤ کی قوت کو جاننے کے بعد ہی ایک اچھا تیراک دریا کی چاروں سمت تیراکی کر سکتا ہے۔ تو لازماً اس بارے کسی قسم کی رائے بھی اسے کی معتبر ہوگی۔ وہ جو دریا کے پانی میں اترے ہوئے ہیں وہی جانتے ہیں کہ دریا کی روانی اور جوش کا رخ کیا ہے؟ اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟ اور کس سمت آگے بڑھا ہے؟

کہا جاتا ہے کہ حکومت کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ کیا یہ مطالبہ آئین پاکستان کی کسی شق سے اخذ کیا گیا ہے؟ کیا جمہوریت اور آئین کو الگ الگ خانوں میں بانٹ کر ملک کو مستحکم اور پائیدار جمہوری آئینی حکمرانی دی جا سکتی ہے؟

آئین میں منتخب ہونے والی پارلیمان کی مدت پانچ سال مقرر کی گئی ہنگامی حالات میں طے شدہ طریقہ کار کے مطابق البتہ اس میں مزید ایک سال کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ مدت بھی ناگزیر نہیں مشروط ہے۔ لازمی نہیں کہ ہر منتخب شدہ پارلیمان پانچ سال یا جو بھی مقرر مدت ہوا سے پورا کرے گی کیونکہ وزیراعظم اور اسی طرح صوبائی وزرا اعلیٰ اسمبلیوں کو قبل از وقت تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کرانے کے مجاز ہیں۔ جب اسمبلی معینہ مدت سے قبل تحلیل ہو سکتی ہے تو اس کے اندر سے بننے والی حکومت کی پانچ سالہ مدت کے کیا معنی و مفہوم رہ جاتا ہے۔

ہاں مستحکم جمہوری نظام کی موجودگی کا عکس معینہ مدت کی تکمیل میں پوشیدہ ہے مستحکم جمہوریت نہ تو دھاندلی زدہ ہوتی ہے نہ نا اہلیت کی مجسم تصویر۔ ناکام حکومت کا تسلسل بالذات جمہوریت مملکت اور معاشرتی وجود کی بقا کے منافی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر اسمبلی کو آئینی حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی حکومت کے خلاف۔ کسی بھی وقت اور جتنی بار چاہے عدم اعتماد کی تحریک لا سکتی ہے۔ تحریک کی کامیابی سے اسے اقتدار سے الگ کر سکتی ہے اور پھر اپنے ووٹ آف کانفیڈنس کے ذریعے اسے یا پھر کسی دوسری جماعت کو حکمران بنا سکتی ہے یہ آئینی ذرائع مسلمہ ہیں۔

ان آئینی حوالوں کے بعد حکومت کو پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا موقع دینے کی وکالت کرنے والے مصلحت کوشی یا غفلت شعاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ آئینی اور جمہوری مثالیت پسندی اس کے بالکل برعکس عمل کی راہیں وا کرتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آئینی جمہوریت کی نظری مثالیت پسندی پر کاربند ہونا مشکل عمل ہے جو مصالحانہ موقع پرستی کی بجائے اصولوں کی خاطر ڈٹ جانے، مشکلات قبول کرنے اور قربانیاں دینے کا متقاضی ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی، نیپ اور اب مسلم لیگ نون ریاستی طاقت کے خلاف آئینی بالادستی کا پرچم بلند کر کے قربانیوں کی روایت میں اضافہ کر رہی ہیں۔

ماضی بعید و قریب میں سیاسی اکابرین کی بے مثال قربانیوں کی میراث بھی پھولوں کی سیج نہیں نہ ہی ہر کسی کے دامن میں دارورسن کی راہداریوں سے نکلتی اس میراث یہ مسند نشین ہونا ممکن ہے برادرم وجاہت مسعود نے سیاسی وراثت کے ناقد ین کو اس ترازو کے دوسرے پلڑے میں آن بیٹھنے کی چنوتی بھی دی ہے کہ ”وہ آئے سامنے جس کے پاس قربانیوں کی میراث ہو“

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک اور حکومت کی ہٹ دھرمی تصادم کی فضا پیدا کر رہی ہے جس کے نتیجے میں ” کچھ بھی“ ہو سکتا ہے۔ یہ نعرہ بلند کرنے والے یہ تو نہیں کہنا چاہ رہے کہ پیش یا حالات میں انقلابی تبدیلیاں بھی نمو دار ہو سکتی ہیں بلکہ وہ تو جبر و آمریت کے تسلط کے سیاسی خوف سے جمہوری عوامی تحریک کو دھمکانے کے لئے اپنی تان بلند کر رہے ہیں، شیخ رشید سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ملک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے فیصلہ سازی کا مکمل اختیار کس کے پاس رہا اور اب بھی یہی سلسلہ جاری ہے۔ اقتدار بہ امر مجبوری۔ ”ادھوری جمہوریت“ بننے اور پسندیدہ افراد کو منتخب کرانے طفیلی رسم بن کر رہ گئی ہے۔

اقتدار و اختیار کی اسی تقسیم اور دوئی نے پاکستان کے ”جڑواں شہروں“ کو عملاً دو دارالحکومتوں میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ ممالک غیر سے آنے والے سفارتی وفود۔ غیر ملکی وزرا اور سربراہان مملکت اب اسلام آباد سے پہلے پنڈی جا کر بات کرتے ہیں گویا پاکستان میں اقتدار کا مرکز منقسم ہو چکا ہے تو حکومت کا اعتبار و ساکھ بھی باقی نہیں رہی چنانچہ سفارتی شعبے میں پاکستان کی علاقائی، عالمی تنہائی اور ماضی کے دوست ممالک سے بڑھتی ہوئی ناراضی کے سیاہ فاصلے اب شہر اقتدار کی ہر دیوار پر سایہ فگن دکھائی دے رہے ہیں۔

معاشی عدم استحکام ملکی تاریخ کی نچلی ترین سطح کو چھو چکا ہے ایسے میں ”تمام اسٹیک ہولڈر“ کو ایک میز پر بیٹھ کر معاملات طے کرنے کی تجویز اگر آئینی مثالیت و وابستگی کی نفی کرتی ہے تو ساتھ ہی درپیش بحران کا سبب بننے والے فریقین کی نشاندہی کا فریضہ بھی ادا کرتی ہے۔ مگر اس کے ساتھ یوں انہیں سیاسی اسٹیک ہولڈر کا رتبہ عطا کرتے ہوئے۔ کیا کبھی طاقت محض پند و نصائح کے ذریعے اپنے ارادے بدلا کرتی ہے؟ تاریخ عالم اور انبیا علیہم اسلام و تمام سیاسی سماجی مصلحین کی زندگیاں بتاتی ہیں کہ کسی بھی طاقت کو قانونی حدود میں لانے کے لئے اس کے مساوی قوت کی ضرورت پڑتی ہے۔

اگر یہ بات درست نہ ہوتی تو تاریخ عالم کا ہر بر ورق انسانی خون کی ارزانی کی داستان نہ سناتا۔ سماجی سیاسی توازن۔ قانون کے ذریعے اختیارات کی تقسیم اور اس پر اکتفا سماجی سیاسی معاشی طاقتوں کے توازن سے ہی قائم ہو پاتا ہے میں تصادم کے لفظ کو پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والی عوامی تحریک کو قرار دے رہا ہوں۔ تاریخی ارتقا کے نتیجے میں اب ماضی کے برعکس پرامن انسانی سیاسی جدوجہد شہری آئینی سماجوں و ریاستوں میں کامیاب اور موثر حیثیت اختیار کرچکی ہے۔

اگر شیخ رشید کو قابل اعتبار گواہ مان لیں تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا پاکستان اس وقت ماورائے ریاست ایک ریاست بن چکا ہے جسے نواز شریف صاحب نے سٹیٹ اپر دی سٹیٹ کہا ہے میں اسے سلطنت کی اصطلاح میں بیان کرتا ہوں۔ وضاحت اس کی اتنی ہے کہ میرے نزدیک جدید ریاست آئین پر کاربند بندوبست کا نام ہے جبکہ ماورائے آئین حاکمیت (پوشیدہ یا نمایاں ) ریاست کو ”سلطنت“ کی فرسودہ و نچلی سیاسی سطح پر لے جاتی ہے۔ جہاں قانون حکمرانی نہیں کرتا بلکہ محض حکمرانوں کا آلہ کاربن جاتا ہے۔ ملک بھر میں عمومی سطح پر پھیلی موجودہ قانونی لاپرواہی جو بے ہنگم ٹریفک اور اب کرونا کے حوالے سے عوامی رویے میں نمایاں طور پر دیکھی جا رہی ہے دراصل مملکت کی بالائی سطح پر آئینی پامالی کا ناگزیر نتیجہ ہے یا پھر رد عمل!

ہمارے محترم سہیل وڑائچ صاحب نے پی ڈی ایم کی تشفی کے لئے ”حکومت کی مدت میں ایک سال کمی کر دینے کی“ تجویز دی ہے۔ یہ بھی دریا کے کنارے بیٹھ کر تیراکی کے رموز پر ماہرانہ تبصرے کی ایک مثال ہے۔ جناب پی ڈی ایم کی تحریک موجودہ حکومت کی جگہ جلد از جلد خود برسر اقتدار آنے کے لئے نہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مارچ 2021 میں سینیٹ آف پاکستان کے نصف ارکان مدت پوری کر لیں گے جن کی اکثریت کا تعلق پی ڈی ایم کی مختلف جماعتوں سے ہوگا اور مارچ میں خالی ہونے والی ان کی نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے ذریعے سینیٹ میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی عددی قوت بڑھ جائے گی۔

اس بات کو اگر یوں کہا جائے کہ پھر سینیٹ میں ایک طرح کی نئی ”باپ“ ( بلوچستان عوامی پارٹی ) طاقتور ہو جائے گی تو زیادہ مناسب ہوگا۔ قبل ازیں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں 64 اراکین کھڑے ہو کر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں مگر نجانے پھر کون سا جادو چلتا ہے کہ وہ 64 ووٹ 48 بن جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں پی ٹی آئی یا ”باپ“ کی عددی قوت میں اضافے کے بعد خدشہ ہے کہ آئین میں ایسی ترامیم کرنا سہل ہو جائے گا جس سے 18 ویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ میں تخفیف اور شاید نیم صدارتی طرز حکومت رائج کرنا ممکن ہو جائے گا۔

پی ڈی ایم خود برسراقتدار آنے کی بجائے مذکورہ امکانی خدشات کے موثر سدباب کے لئے جنوری 2021 تک سیاسی تبدیلی کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ اور جب وہ حکومت گرانے کے لیے عسکری ادارے کے حوالے سے بات کرتی ہے تو اس کے معنی کسی مذکورہ طاقتور ادارے کو سیاست میں ملوث ہونے کی دعوت دینے کے بجائے اسے سیاسی میدان سے فاصلہ پیدا کرنے پر مجبور یا قائل کرنا ہے بڑھتے عوامی احتجاجی سیاسی دباؤ کے نتیجے میں جیسے ہی مذکورہ سرپرستی نے ہاتھ ہٹائے۔ پی ڈی ایم عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت کو بدل دے گی۔ تاہم اس کے بعد لازم ہے کہ نئی بننے والی حکومت بھی عبوری مگر وسیع البنیاد ہونی چاہیے تاکہ صرف سیاسی جماعتیں یک آواز ہو کر ایک نئے سیاسی میثاق پر متفق ہوں۔ جو ملک میں

غیر جانبدارانہ شفاف مداخلت سے پاک انتخابات کرائے ایسے انتخابات جن کے نتائج قبولیت عامہ کا معیاری درجہ رکھتے ہوں۔ تب تک سینیٹ کے نصف ارکان کا انتخاب بھی ملتوی رہے کیونکہ 2018 کے مشکوک و متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں قائم صوبائی اسمبلیاں قانونی طور پر سینیٹ کا الیکٹرول کالج نہیں ہو سکتیں جن کی اپنی نمائندہ ساکھ مشکوک ہو وہ اگلے چھ سال کے لئے پارلیمان کے ایوان بالا کے ارکان کیونکر منتخب کر سکتی ہیں؟ یہ بڑا ہم اور بنیادی سوال ہے جسے حل کیے بغیر سیاسی استحکام اور سیاست میں مداخلت کا دروازہ بند نہیں کیا جاسکتا۔

میاں شہباز شریف کی وسیع تر نیشنل ڈائیلاگ کی تجویز مبہم بھی ہے اور مشکوک بھی، متذکرہ ڈائیلاگ میں کسی بھی طور پر کسی سرکاری محکمے کی بطور فریق یا اسٹیک ہولڈر شمولیت قطعی قابل قبول نہیں ہو سکتی یہ آئین کو سبوتاژ کرنے کی سیاسی کوشش ہوگی اور اس کی مزاحمت ہر آئین دوست جمہوری کارکن پر فرض ہے آئین پاکستان کے طے شدہ ڈھانچے کو تسلیم کرانا ہی دراصل آج کے جمہوری سیاسی ایجنڈے کا اہم نکتہ اور قومی تحریک کا محور ہے۔

پس نوشت :۔ 13 دسمبر کو لاہور جلسہ میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا سرکاری بیان ایک چال ہو سکتا ہے بعید نہیں کہ حکومت دس دسمبر کو لاہور اور آس پاس کے قریبی شہروں میں مکمل لاک ڈاؤن کر کے اس بار جلسے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے۔ مشتری ہوشیار باش۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).