عورت، ذہن کی آزادی اور صنف و ذات کا تعصب


آج میں نے ایک مختصر یو ٹیوب وڈیو دیکھی جس میں ایک چھوٹا سا معصوم کتے کا پلا چھلانگیں مارتا ہوا سیڑھیاں چڑھ رہا ہے اور اس کو دیکھ کر بچے ہنس رہے ہیں۔ ایک نئی زندگی جس کو کچھ ادراک نہیں کہ اس وسیع دنیا میں اس کی کیا جگہ ہے؟ کیا وہ ایسا جانور پیدا ہوا جس کو کھانے کے لیے بڑا کیا جائے گا، لڑانے کے لیے یا پھر اس کے ساتھ دوستی کرنے کے لیے؟ اس کو کیا وسائل حاصل ہوں گے؟ کیا اس کی تمام ضروریات پوری ہو سکیں گی؟ دنیا میں آنے والا ہر بچہ اسی طرح معصوم ہوتا ہے اور فطرت کی ایک خالی سلیٹ کے ساتھ آتا ہے۔ پھر ہم سب مل کر اس کو دنیا کی اونچ نیچ جیسی بھی ہمیں پتا ہو، سکھا دیتے ہیں۔

ڈاکٹر سہیل اور ہما جمال کا کالم پڑھا۔ ہما جمال نے بہت اچھا اور حقیقت پر مبنی سوال پوچھا اور ڈاکٹر سہیل کا جواب ہمیشہ کی طرح بہت عمدہ ہے۔ ہما جمال نے بالکل ٹھیک کہا کہ شرفاء کے شریف بیٹے منافقت سیکھ لیتے ہیں۔ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکلتا اور یہ انگلیاں سب کے سامنے ٹیڑھی نہیں کرنی ہیں۔ اور اس منافقت میں معاشرہ ان کا ساتھ دیتا ہے۔ ان کی مائیں تک ان کا ساتھ دیتی ہیں۔ کیوں نہ دیں آخر کو یہ سپوت اس پدرانہ نظام میں اونچی ذات کے حامل ہیں۔

ولکرسن کی حالیہ کتاب ”کاسٹ“ یعنی کہ ذات پات میں اس نے یہ بیان کیا ہے کہ ہر انسانی معاشرے میں انسانوں کی درجہ بندی ہے جس کو کچھ انسان دوسرے انسانوں کی قیمت پر اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایک اونچی ذات کے لوگ ہوتے ہیں، ایک نیچی ذات کے اور باقی سب درمیان میں ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ہندو مت میں براہمن اونچی ذات ہے اور شودر نیچی ذات۔ ایک شودر براہمن کو چھو نہیں سکتا۔ یہاں تک کہ شودر کا سایہ تک براہمن کو میلا کر دیتا ہے۔

اسی طرح ہندوستان میں آج کل ہندو ہونا اونچی ذات اور مسلمان ہونا نیچی ذات بن گیا ہے۔ امریکی معاشرے میں گورے اونچی ذات کے ہیں، کالے نیچی ذات کے اور باقی حالیہ مہاجرین اور لاطینی افراد وغیرہ درمیان میں ہیں۔ اس مصنوعی انسانوں کے گھڑے ہوئے نظام میں اونچی ذات کا ایک غیر تعلیم یافتہ اور معمولی تنخواہ والا گورا شخص بھی خود کو کالوں کے سامنے برتر محسوس کرتا ہے چاہے کوئی کالا شخص اس سے کہیں زیادہ تعلیم اور حیثیت رکھتا ہو۔

یہ گورا اپنے ذہن میں یہی سوچ کر خود کو تسلی دے لیتا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے میں کبھی کالا تو نہیں ہو سکتا۔ کالے صدیوں سے غلامی کے طوق سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایک کالے انسان میں اور دیگر انسانوں میں کچھ فرق نہیں۔ یہ فرق سفید فام آدمی کا گھڑا ہوا ایک جھوٹ ہے جس کے بل بوتے پر وہ خود کو اعلیٰ ثابت کرسکے اور دوسرے انسانوں کے استحصال سے مفید ہو۔ بالکل اسی طرح یہ نظام دنیا کے بقایا علاقوں میں بھی مختلف اشکال میں موجود ہے۔

درمیان میں موجود افراد اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ خود کو اونچی ذات کے لوگوں سے جوڑیں اور نیچی ذات سے جتنا ہو سکے دور رہنے کی کوشش کریں اور گاہے بگاہے ان کو اونچی ذات کے لوگوں کے ساتھ مل کر برا بھلا کہیں اور دباتے بھی رہیں۔ صنفی تعصب کی درجہ بندی کے خول میں جو خواتین طاقت کے درجے پر فائز ہوں تو وہ بھی شعوری یا لا شعوری طور پر خود بھی اس نظام کا آلہ بن جاتی ہیں۔ اونچی ذات کے افراد یہ بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ باقاعدگی کے ساتھ نیچی ذات پر تشدد کر کے ان کی یاددہانی کرواتے رہیں کہ کون برتر ہے۔ اسی لیے گھریلو تشدد کسی نہ کسی شکل میں تقریباً ہر گھر میں موجود ہے۔

بالکل اسی فلسفے کو پاکستانی مسلمان معاشرے پر لاگو کر سکتے ہیں۔ پہلے سارا ہندوستان ایک تھا جہاں بھانت بھانت کے لوگ رہتے تھے۔ پہلے ہندو مسلمان تفریق کے ساتھ ملک الگ کیے گئے اس کے بعد مسلمانوں کی اقسام، لسانیات اور پھر صوبائی تعصبات کھڑے ہوئے۔ جب ہٹلر نے یہودیوں کا صفایا کر دیا اور علاقوں میں سے یہ تمام کم نسل نکال دیے گئے تو باقی بچے ہوئے اعلیٰ نسل کے افراد کے درمیان خالص سے خالص تر ہونے کی سعی شروع ہو گئی۔

کسی گاؤں میں کسی نے ایک بچی کے بارے میں یہ تبصرہ کر دیا کہ اس کے بال باقی لوگوں سے زیادہ گہرے ہیں۔ اس کا سارا خاندان پریشان ہو گیا کہ اس بچی کے خد و خال عرب کیوں لگتے ہیں۔ بچے تک اپنی آنکھوں کی لمبائی چوڑائی، چہرے کی لمبائی چوڑائی ناپنے اور اس بات کی تسلی کرنے کی کوشش کرتے کہ ان کا خون خالص ہے۔ پاکستان کے اندر اس مصنوعی آدمی کے بنائے ہوئے نظام کی اونچی نسل ایک سنی مسلمان آدمی ہے جو کہ اتفاق سے آبادی کی اکثریت کی وجہ سے ہے۔

نہ صرف یہ کہ سنی مسلمان آدمی خود کو برتر اور بہتر سمجھتا ہے بلکہ گاہے بگاہے اقلیتوں اور خواتین پر تشدد، جارحیت اور بدسلوکی کے ذریعے بقایا تمام افراد کو یہ یاددہانی بھی کرواتا ہے کہ سب یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ اس نظام میں سب سے بڑا باس کون ہے۔ ایک نالائق پاکستانی سنی مسلمان کالج کا اسٹوڈنٹ یہی سمجھتا ہے کہ وہ پروفیسر عبدالسلام سے برتر ہے کیونکہ وہ احمدی ہونے کے لحاظ سے کم ذات ٹھہرے۔ اور ایک کم ذات کی کامیابی کی اعلیٰ ذات کے سامنے اس سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں کہ اس میں ان کا کیا فائدہ نکل سکتا ہے۔ ولکرسن نے اس نفسیات کو یوفوریا آف ہیٹ سے تشبیہ دی ہے جس میں ایک گروہ مل کر کسی گروہ کو نفرت کا نشانہ بناتا ہے اور خود کو بہت اعلیٰ اور ارفع محسوس کرتا ہے۔

رابندر ناتھ کے افسانے دیکھ لیں، منٹو کو پڑھ لیں، عصمت چغتائی کے ناول دیکھیں تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ سیدھا اور نارمل راستہ پدرانہ معاشرے میں شجر ممنوعہ ہے۔ ہما جمال کے خط سے یہ بھی تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جہاں وقت کے ساتھ انسانی معاشرے میں کچھ بہتری ہوئی ہے، کچھ خواتین کے حقوق کے لحاظ سے ترقی کے بجائے زوال ہوا ہے جہاں ان کے حقوق سلب کرنے کو اخلاقی اقدار سے جوڑ کر مقدس ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

کسی بھی ملک کا منشور کسی بھی مذہب کی بنیاد پر کبھی ٹھیک سے کام نہیں کر سکتا کیونکہ وہ گزرے ہوئے انسانوں کے فلسفے کو ایک بالکل مختلف وقت، علاقے اور افراد پر لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی مثال اوکلاہوما کے قانون سے دے سکتی ہوں جس میں یہاں وہیل مچھلی کا شکار ممنوع ہے۔ جو بھی افراد جغرافیے سے واقف ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ قانون ایک سمندر سے ملے علاقے سے اٹھا کر یہاں کے شہریوں پر نافذ کیا گیا ہے جہاں جھیلیں تک مصنوعی ہیں اور ریاست چاروں طرف سے دیگر زمینی ریاستوں سے گھری ہوئی ہے۔

اسی طرح صنفی تعصب میں ایک ناکام اور نالائق آدمی بھی خود کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خود سے کہیں زیادہ کامیاب خاتون سے بہتر تصور کرتا ہے۔ اس کے لیے یہ بات سمجھنا بہت مشکل ہوتی ہے کہ وہ کہیں کم بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں کہیں ایسا محسوس ہو کہ مات ہو رہی ہے تو آخری ہتھکنڈا مذہب کو استعمال کر کے کوئی بھی بہانہ بنا کر خواتین کو دبانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس کا بقایا دنیا پر یا اس کے مستقبل پر کیا اثر پڑے گا، اس بات سے اس کو کچھ سروکار نہیں ہوتا۔

جو افراد یہ تصور کر رہے ہیں کہ یہ دقیانوسی خیالات مغرب میں نہیں پائے جاتے وہ اپنے ذہن سے یہ بات نکال دیں کیونکہ ایسے دقیانوسی افراد کی یورپ یا امریکہ میں کوئی کمی نہیں۔ ایسے ہی 70 ملین افراد نے ٹرمپ کو ووٹ ڈالے۔ نارتھ امریکہ، افریقہ، ایشیا اور جنوبی ایشیا اس سفید فام عیسائی آدمی کی شہنشاہیت سے پہلے ذہنی طور پر آزاد اور فطرت سے قریب تھے۔ ڈاکٹر سہیل نے لکھا کہ ”جس دن مشرقی عورت نفسیاتی طور پر آزاد اور معاشی طور پر خود مختار ہو جائے گی اس دن وہ کسی بھی مرد سے تذلیل برداشت نہیں کرے گی۔“

اس کے بارے میں یہ کہنا چاہوں گی کہ دس ہزار سال سے رائج دنیا میں صنفی تعصب جو انسانوں کی نفسیات کا گہرا حصہ بن چکا ہے، یک دم ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کو توڑنے میں وقت اور کام درکار ہوگا۔ ہما جمال اور ڈاکٹر سہیل کے اہم مضمون کے نیچے کچھ افراد نے آئیں بائیں شائیں تبصرے لکھے جو ان سوالات کو ڈاج دینے کی کوشش ہیں جن کا یہ افراد سامنا نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ اگر بچوں کی برابر تعلیم و تربیت ہوگی جہاں لڑکوں کو فوقیت نہ دی گئی ہو تو ایک ایسی خاتون ان کو بیوی کے طور پر حاصل کیسے ہو سکے گی جو اپنے تمام وسائل کے ساتھ ان کی زندگی میں آئے، صبر شکر کے ساتھ ان کو ان کی اور ان کے خاندان کی تمام خامیوں، بدسلوکیوں، اور بے وفائیوں کے ساتھ برداشت کرتی رہے اور ان کے بچے پالنے کا اہم کام سرانجام دے۔

بہنیں وراثت سے برابر کی جائیداد لے جائیں اور بیٹیاں ان کے دیگر افراد کے ساتھ تعلقات یا کاروبار بہتر بنانے کا آلہ بننے کے بجائے اپنے پسند کے آدمیوں یا عورتوں کی ساتھی بن جائیں۔ آپ کے گرد تمام افراد اپنی زندگی خود اپنی خوشی اور پسند کے لیے گزارنے لگیں۔ ایک ایسا نظام جس میں انسانوں کی درجہ بندی نہ ہو، جہاں کوئی ان صاحبان کو اپنے استعمال یا استحصال کی اجازت نہ دے، ایک ایسا نظام ہے جس کو ہزاروں سالوں سے رائج پدرانہ نظام نہیں سمجھ سکتا اور نہ ہی سمجھنا چاہتا ہے۔ طاقت کبھی بھی دی نہیں جاتی، طاقت لی جاتی ہے۔

اردو زبان کے اندر صنفی تعصب موجود ہے۔ انگریزی میں اگر کوئی کہے کہ آئے گو! تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس شخص کی جنس کیا ہے؟ لیکن اردو میں میں جاتی ہوں یا میں جاتا ہوں کا فرق موجود ہے جس سے پڑھنے والے اپنے لاشعور میں موجود تعصب سے لکھاری کی درجہ بندی کرسکیں۔ ڈاکٹر سہیل نے لکھا کہ ”مشرقی مرد اور عورت نے آقا اور کنیز۔ میاں اور بیوی بننا تو سیکھ لیا ہے لیکن ابھی برابر کے محبوب اور دوست بننا نہیں سیکھا۔“

اس بات کے بارے میں میرا مشاہدہ یہی ہے کہ انسان سب ایک جیسے ہی ہیں، ان میں فرق صرف یہ ہے کہ کچھ افراد سیکھ کر آگے بڑھ گئے اور کچھ ابھی تک دائرے میں چکرا رہے ہیں کیونکہ وہ جھوٹ کی زندگی نسل در نسل گزارنا تو جانتے ہیں لیکن سچائی کو اپنے سامنے دیکھنا نہیں چاہتے۔ جیسا کہ ڈاکٹر سہیل نے کہا، ”مغربی عورتوں نے ڈگری اور ڈرائیونگ لائسنس کے راستوں سے گزرتے ہوئے خودغرض، آمر اور جابر مردوں سے آزادی حاصل کی ہے۔“

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان خواتین نے پہلے اپنے ذہن آزاد کیے اس کے بعد اپنے بیٹوں کی بہتر تربیت کی تاکہ وہ آگے چل کر بہتر دوست اور ساتھی، شوہر اور باپ بن سکیں۔ مشرقی خواتین کو بھی اپنے لیے خود یہی کرنا ہوگا۔ اگر ہجرت کا مطلب ایک طور زندگی چھوڑ کر آگے بڑھ جانا ہے تو اگر آپ چین کو چھوڑ کر چائنا ٹاؤن میں آ کر بس جائیں تو آپ نے چین کبھی پیچھے نہیں چھوڑا۔ وہ آپ کے اندر ہے۔ مشرق ہو یا مغرب، شمال یا جنوب، جو خواتین اس پدرانہ معاشرے کی دیواریں چننے میں مددگار ہیں، ان کو یہ سوچنا ہوگا کہ ایک دن آپ خود کو ان دیواروں میں محصور پائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).