میر ظفر اللہ خان جمالی، جنرل مشرف اور نواز شریف


سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کی سیاسی جدوجہد نصف صدی کے لگ بھگ رہی، پہلا الیکشن 1977 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا لڑا جبکہ ان کی زندگی کا آخری الیکشن 2013 کا تھا جس میں آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے اور مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کی، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دور میں ختم نبوت کے معاملہ پر نون لیگی حکومت سے ناراض ہو گئے اور اسمبلی کے فلور پر استعفی دے کر سیاست کو خیرباد کہہ دیا۔

ضیا الحق کی کابینہ میں وفاقی وزیر رہے، وزیراعلی بلوچستان، کئی مرتبہ رکن قومی اسمبلی، وفاقی وزیر، سینئر اور بالآخر 2002 میں وزیراعظم منتخب ہوئے، تاہم صدر پرویز مشرف کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے دو سال بعد وزارت عظمی کے عہدے سے ہٹا دیے گئے، بطور وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی انہوں نے دو اہم کارنامے انجام دیے جو جمہوری وزیراعظم کے لئے ایک مثال کے طور پر چھوڑ گئے ہیں، انہوں نے دو مرتبہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف دوسرے لفظوں میں امریکہ کو ناراض کیا جس کی وجہ سے ان کی چھٹی ہوئی۔

اول جب امریکہ کی طرف سے ڈاکٹر قدیر خان کی حوالگی کا معاملہ آیا تو پرویز مشرف فوری طور پر تیار ہو گئے جبکہ وزیراعظم جمالی ڈٹ گئے پرویز مشرف نے اعلی عسکری قیادت کی موجودگی میں وزیراعظم پر دباؤ ڈالا کہ ڈاکٹر قدیر کو امریکہ کے حوالے کرنا ہوگا انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ اور کابینہ فیصلہ کرے گی بعد ازاں انہوں نے کابینہ کو مینیج کر کے صدر مشرف کو فیصلہ سے آگاہ کر دیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔

دوم پرویز مشرف امریکی صدر بش سے عراق فوج بھیجنے کا وعدہ کر چکے تھے، وزیراعظم جمالی امریکہ کے دورے پر گئے تو انہوں نے صدر مشرف کے وعدے یاد دلایا تو ظفر اللہ جمالی نے کہا کہ یہ فیصلہ وزیراعظم، کابینہ اور پارلیمنٹ کرے گی صدر مشرف کو ایسا کوئی اختیار نہیں ہے پاکستان آ کر انہوں نے عراق فوج نہ بھیجنے کے فیصلے بارے مشرف کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس معاملہ میں نہیں پڑنا چاہیے، یہ دو وجوہات ان کی وزارت عظمی کی وجہ بنیں۔

ظفراللہ جمالی سچے عاشق رسول ﷺ تھے تقریباً 40 سال سے عمرہ پر باقاعدگی سے جاتے رہے، جب ختم نبوت کا معاملہ آیا تو انہوں نے یہ کہ کر استعفی دیدیا کہ روز محشر میں اپنے آقا کو کیا منہ دکھاؤں گا، سادہ اور شرافت کی زندگی گزاری، ذاتی ملازموں اور غریبوں پر خدا ترسی کرتے تھے، ذاتی ملازم طورے خان کو ان کی زندگی میں خاص اہمیت حاصل تھی، ان کی بیٹی کی شادی کے اخراجات ادا کیے، 2002 میں صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوئے فیصلہ کن ووٹ (ن) لیگ کے اقلیتی رکن کرشن بھیل نے دیا۔

ایک ووٹ کی اکثریت سے دو سال وزیراعظم رہے، اصولی آدمی تھے، پرویزمشرف نے جب جمالی کو وزارت عظمی سے ہٹانے کے فیصلہ سے آگاہ کیا تو انہوں نے شرط رکھی کہ ہمایوں اختر کو وزارت عظمی نہ دی جائے کیونکہ وہ مجھے ہٹانے کی سازش میں مشرف کے شریک رہے، اس طرح چوہدری شجاعت کے لئے وزارت عظمی کا راستہ ہموار ہوا، میر ظفر اللہ جب صدر مشرف کی نظر میں مشکوک ٹھہرے تو انہوں نے دو وفاقی وزرا خورشید قصوری اور شیخ رشید احمد کو ان پر چیک کے لئے مقرر کیا۔

نواز شریف کے ساتھ مختلف ادوار میں برسراقتدار رہے لیکن بن نہیں سکی، چونکہ وہ نواز شریف کے ساتھ بلوچستان کے وزیراعلی رہے تھے اس لیے برابری کی سطح پر بات کرتے تھے، ایوب خان کے مقابلہ میں فاطمہ جناح کا ساتھ دیا قائداعظمؒ کے بلوچستان میں میزبان میرجعفر خان جمالی کے بھتیجے تھے۔

2018 میں زرداری اور عمران خان ان کے گھر کراچی گئے اور اپنی اپنی پارٹیوں میں شمولیت کی دعوت دی، انہوں نے خاندان کے ساتھ مشاورت سے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، میر عمر جمالی صوبائی وزیر، محمد خان جمالی (بھتیجا) تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ایم پی اے، ایم این اے منتخب ہوئے، نواز شریف اور جونیجو میں اختلاف ہوا تو ظفراللہ جمالی نے محمد خان جونیجو کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اس لیے نواز شریف انہیں زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔

شہباز شریف کے زیادہ قریب تھے، وزارت عظمی کے دور میں نواز شریف سے ملاقات کے لئے کئی مرتبہ رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہ آیا جس پر اس قدر رنجیدہ ہوئے کہ نجی محفلوں میں بڑے دکھ کے ساتھ اس واقعہ کا اظہار کرتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).