لال ٹوپی والے فرشتے اور شیطانی ویکسین


پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں کووڈ کی نئی لہر سر اٹھا رہی ہے۔ اب تک پندرہ لاکھ کے قریب لوگ اس بیماری کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اور ان تباہ کاریوں کے علاوہ پوری دنیا میں اس کی وجہ سے جو اقتصادی نقصان ہوا ہے اس کی وجہ سے غریب پہلے سے بھی غریب ہو رہا ہے۔ ان حالات میں ایک روشنی کی کرن نظر آنی شروع ہوئی اور دنیا کی مختلف کمپنیوں اور تحقیقاتی ٹیموں کی طرف سے یہ اعلان سامنے آنے شروع ہوئے کہ انہوں نے اس بیماری سے بچاؤ کے لئے ویکسین تیار کر لی ہے۔

ایک ویکسین بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے تیار کی اور اس وقت پاکستان سمیت 7 ممالک میں اس کا آزمائشی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور چین میں خاص ہوائی جہاز تیار کیے جا رہے ہیں جو کم درجہ حرارت پر یہ ویکسین دنیا کے مختلف ممالک میں پہنچا سکیں۔

حال ہی میں یہ اعلان کیا گیا کہ امریکی کمپنی پفائزر اور جرمن کمپنی بایون ٹیک کی بنائی ہوئی ویکسین اب استعمال کے لئے تیار ہے اور مغربی ممالک میں سب سے پہلے برطانیہ نے اس کے استعمال کی منظوری دینے کا اعلان کر دیا۔ اور اس کے ساتھ ہی برطانیہ نے اس ویکسین کے چار کروڑ ٹیکوں کی خرید کا آرڈر بھی دے دیا ہے۔

اس کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم نے بھی ویکسین تیار کر لی ہے گو اس کی افادیت پفائزر کی ویکسین سے کچھ کم ہے۔ اور امریکی کمپنی موڈرنا نے بھی اپنی تیار کی ہوئی ویکسین کی منظوری کے لئے کارروائی شروع کر دی ہے۔ روس کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اس نے کووڈ کی ویکسین تیار کر لی ہے۔ کل برطانیہ میں اعلان کیا گیا کہ ہم ایک ہفتہ کے بعد اس کا استعمال شروع کر سکتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے بھی اس ویکسین کی خریداری کے لئے رقم مختص کر دی ہے۔

اس مرحلہ پر بھی پاکستان میں ایک طبقہ نے وہی ڈرامہ شروع کر دیا ہے جو کہ آزادی کے بعد تہتر سال سے کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے علماء میں زاہد حامد صاحب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ خاکسار ان کے بعض مخصوص خیالات پر پہلے بھی ایک کالم پیش کر چکا ہے۔ ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ اس ویڈیو میں انہوں نے اپنی مخصوص لال ٹوپی پہنی ہوئی ہے۔ انہوں نے فرمایا:

”اب جو ایک بہت خطرناک حملہ یہ تمام انسانیت پر کرنے جا رہے ہیں وہ ویکسینز کے ذریعہ ہے۔ بل گیٹس یہ شخص ایک دجال ایک شیطان کائنات میں بہت بڑا فتنہ ہے۔ جس کا مقصد دنیا کی آبادی کم کر نا ہے۔ جس کا مقصد انسانیت کو تباہ و برباد کر کے نئے ورلڈ آرڈر کے لئے انسانوں کو غلام کرنا ہے۔ یہ جس قسم کے پراجیکٹس پر کام کر رہا ہے۔ ہمارے عام مسلمان جیسا کہ کہا کہ سادہ لوگ ہیں جانتے نہیں ہیں۔ یہ نینو ٹیکنالوجی پر بہت عرصہ سے کام کر رہا تھا کہ جو چھوٹی چھوٹی چپس [Chips] کے ذریعہ سرنج کے ذریعہ آپ کے جسم میں داخل کر دی جائے۔

انسان کے ڈی این اے تبدیل کرنے کی ویکسین پر یہ کام کر رہے ہیں۔ یہ جو نئی ویکسین کووڈ کی آ رہی ہے۔ یہ ڈی این اے تبدیل کرنے کی ویکسین ہے پہلے کوئی ویکسین اس طرح کی نہیں بنتی تھی۔ ایک مرتبہ اگر انسان کا ڈی این اے تبدیل کر دیا جائے یعنی انسان کو مشین کے ساتھ اور دوسرے جانوروں کے ساتھ مکس کردیں تو جو اللہ نے تخلیق کی ہوئی ہے یہ اسے مکمل طور پر تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حقیقتیں ہیں۔ یہ مفروضے اب نہیں ہیں۔ ان پر اب اتنا تحقیقی کام ہو چکا ہے۔ یہ خود اپنے منہ سے یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم یہ کرنے جا رہے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم اور بل گیٹس۔

ہر انسان کو ایک ڈیجیٹل سرٹیفیکیٹ دیا جائے گا کہ اس نے ویکسینیشن کرائی ہے کہ نہیں۔ کووڈ کا مطلب یہی ہے کہ COVIDسرٹیفیکیشن آف ویکسینیشن آئی ڈی۔ یہ بالکل documentedبات ہے۔ ان کی اپنی تقریریں اور ویڈیو موجود ہیں۔ یہ ہر انسان کو ویکسینیشن آئی ڈی لگائیں گے۔ انسانوں کی نسل در نسل غلامی کا سفر شروع ہو جائے گا۔ ”

کئی پڑھنے والے شاید زاہد حامد صاحب کی اس تقریر دل پذیر پرہنسیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی اس قسم کے اوٹ پٹانگ نظریات پیش کیے جائیں تو پاکستان میں ایک طبقہ کم از کم جزوی طور پر ان کو سنجیدہ نظریات سمجھنے لگ جاتا ہے۔ اور ہم ان سازشی نظریات کی افیم کے نشے کے زیر اثر سوتے رہتے ہیں اور دنیا ہمیں سوتا چھوڑ کر بہت آگے نکل جاتی ہے۔ اس کے بعد ہم اپنی پسماندگی کو اپنی حق گوئی کی آسمانی دلیل سمجھنے لگتے ہیں۔

پولیو کے حفاظتی ٹیکوں کے بارے میں بھی اس قسم کے ڈرامے پیش کیے گئے کہ یہ قطرے تو اس لئے پلائے جا رہے ہیں تاکہ پاکستانی قوم دنیا کے تمام کاموں سے فارغ ہو کر پوری یکسوئی سے زیادہ سے زیادہ بچے نہ پیدا کر سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اگر پاکستان اور افغانستان کی نا اہلی اس راستہ میں حائل نہ ہوتی پوری دنیا سے پولیو ختم ہو جاتا۔ 1988 میں تین لاکھ پچاس ہزار بچے پولیو سے معذور ہوئے تھے۔ ان قطروں کی بدولت 2016 میں یہ تعداد صرف 42 رہ گئی۔ لیکن پاکستان اور افغانستان میں طالبان اور طالبان نما عناصر کی وجہ سے پولیو کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔

اور اب وہی پرانی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ ابھی کووڈ کی ویکسین کی صحیح طریق پر تقسیم بھی شروع نہیں ہوئی کہ کچھ علماء نے اس خلاف مہم شروع کر دی۔ تاکہ ایک مرتبہ پھر ہم دنیا میں اچھی طرح تماشا بنیں۔ ہم یہ نہیں سوچیں گے کہ اگر کسی گروہ نے یہ افسانوی چپ [Chip] لوگوں کے جسموں میں داخل کرنی تھی تو اس کے لئے کووڈ کی ویکسین کا انتظار کیوں کیا؟ دنیا بھر میں حفاظتی ٹیکے تو پہلے بھی لگائے جاتے ہیں۔ ان کے ذریعہ یہ پراسرار Chip لوگوں کے جسموں میں کیوں نہ داخل کر دی؟

ہمیں یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ پاکستان میں چوٹی کے ماہر ڈاکٹر اور ویکسین کے میدان کے سائنسدان بھی موجود ہیں۔ اور کئی پاکستانی سائنسدان تو ان ویکسینز پر تحقیق کی ٹیموں میں بھی شامل ہیں۔ اگر اس ویکسین کے ذریعہ ایسی کوئی بین الاقوامی سازش کی جا رہی تھی تو اس کا اظہار ان کی طرف سے کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ تہلکہ خیز انکشاف زاہد حامد کی طرف سے کیوں سامنے آیا۔

اس قسم کے سازشی نظریات مغربی ممالک میں بھی پیش کیے گئے ہیں لیکن وہاں پر میڈیا فوری طور پر سائنسدانوں کے انٹرویو کر کے اس قسم کی افواہوں کی دھجیاں اڑا دیتا ہے۔ چنانچہ جب برطانیہ میں اس قسم کی افواہیں شروع ہوئیں تو

بی بی سی نے سائنسدانوں سے انٹرویو کر کے ان کی تردید نشر کردی۔

یہ ٹھیک ہے کہ فائزر کی طرف سے تیار کی گئی کووڈ کی ویکسین وہ پہلی آر این اے ویکسین ہوگی جو کہ اس وسیع پیمانہ پر استعمال کی جائے گی۔ اس ویکسین کے ذریعہ وائرس کا آر این اے جسم میں داخل کیا جائے گا۔ اور اس کے نتیجہ میں جسم کے خلیے کووڈ وائرس کی پروٹین کو پیدا کریں گے۔ اور پھر انسانی جسم کی قوت مدافعت اس پروٹین کے خلاف حرکت میں آ کر اس کے خلاف اینٹی بوڈیز یا دوسرے الفاظ میں وہ مادہ پیدا کرے گی جو کہ کووڈ کے وائرس کے خلاف موثر ہوگا اور جب یہ وائرس انسانی جسم میں داخل ہوگا تو اسے تباہ کردے گا۔

اس کے نتیجہ میں انسان کا ڈی این اے کسی طرح تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اب تک مختلف ممالک میں ہزاروں انسانوں کو یہ ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ اور ان پر اس قسم کے کوئی اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).