شاہین باغ سے کسان تحریک تک: انڈین خواتین قومی معاملات میں کیسے متحرک ہیں؟


خواتین مظاہرین
جدید معاشرے میں پہلی بار جب کسی عورت نے اپنے حقوق کے لیے گھر سے باہر قدم رکھا ہو گا تو شاید ہی کسی کو توقع ہو گی کہ خواتین ایک دن بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئیں گی۔ لیکن اب وہ وقت آ گیا ہے جب خواتین نہ صرف اپنے فرقے یا برادری بلکہ سب کے حقوق کے لیے سڑکوں پر ہیں۔

چاہے شاہین باغ کی دادیاں ہوں، پولیس کا سامنا کرتی کالج کی لڑکیاں یا زرعی قوانین کے خلاف گاؤں سے ملک کے دارالحکومت نئی دہلی تک کا سفر طے کرنے والی خواتین۔

عورتیں اب خاموشی سے سب کچھ ہوتے ہوئے نہیں دیکھتیں بلکہ اب وہ تبدیلی کا حصہ بنتی ہیں۔ کبھی وہ خاموش مظاہرین ہوتی ہیں تو کبھی حکومتوں سے ٹکرا جاتی ہیں اور پولیس کی لاٹھیوں کا مقابلہ کرتی ہیں۔ یہ بہت مضبوط خواتین ہیں۔

خواتین کی اس طاقت کو اب میڈیا اور سوشل میڈیا بھی پہچان گیا ہے۔ وہ گھروں سے باہر آ رہی ہیں، کھل کر آزادانہ گفتگو کر رہی ہیں اور کوئی بھی انھیں نظر انداز نہیں کر پا رہا۔

یہ بھی پڑھیے

کوئٹہ کی سڑکوں پر اتنی خواتین کیوں احتجاج کر رہی ہیں؟

عورت مارچ کی قیادت اور فنڈنگ پر اعتراضات کی وجہ کیا؟

فن لینڈ میں مکمل طور پر خواتین کی زیرقیادت حکومت کیسی چل رہی ہے؟

انڈیا میں شہریت سے متعلق متنازع قانون اور زرعی قوانین کے خلاف ہونے والے احتجاج میں خواتین نے بھرپور حصہ لیا ہے۔

ان معاملات پر احتجاج ہونا چاہیے یا نہیں اس بارے میں مختلف آرا ہو سکتی ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان مظاہروں کو خواتین سے طاقت ملی ہے۔

تاہم مظاہروں کے علاوہ خواتین کی اس طاقت کا استعمال کہاں تک ہوا ہے؟ کیا خواتین کا یہ عزم اور حوصلہ معاشرے میں کسی تبدیلی کی علامت ہے اور یہ تبدیلی کہاں تک جا سکتی ہے؟

خواتین کی ایک تعلیم یافتہ نسل

مظاہروں میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت کے بارے میں سینیئر صحافی گیتا شری کا کہنا ہے کہ ’خواتین اپنے آس پاس کے معاشرے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ باشعور اور بیدار ہو چکی ہیں اور اب انھیں یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ان کا دائرہ صرف گھر میں ہی نہیں ہے بلکہ ان کی دنیا میں بھی وسعت آ چکی ہے۔ اب وہ باشعور اور ذہین ہیں اور پورے معاشرے کے بارے میں اپنی آرا رکھتی ہیں۔‘

گیتا شری کا کہنا ہے کہ خواتین کی پوری نسل تعلیم یافتہ ہو کر تیار ہو چکی ہے اور اس نسل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ان تبدیلیوں کے ساتھ پیدا ہوئی ہے جو خاموشی سے ہر چیز کو قبول نہیں کرتی ہے۔ ان تعلیم یافتہ خواتین کی صحبت میں پرانی نسل بھی بدل رہی ہے۔

آل انڈیا پروگریسو ویمن ایسوسی ایشن کی سکریٹری کویتا کرشنن کا کہنا ہے کہ خواتین نے احتجاج میں ہمیشہ سے حصہ لیا ہے لیکن اس دور میں وہ زیادہ نظر آتی ہیں۔ اب میڈیا اور سوشل میڈیا ان کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ان کی قیادت بھی زیادہ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔

وہ کہتی ہیں ’خواتین آج ایک مشکل وقت میں لڑ رہی ہیں۔ انھیں دھمکیاں ملتی ہیں، گرفتاری کا خوف بھی ہے لیکن پھر بھی وہ بڑی دلیری کے ساتھ آگے آ رہی ہیں۔‘

نربھیا ریپ کیس سے کسان مارچ تک

خواتین میں یہ شعور اور حوصلہ اس سے پہلے بھی بہت سارے مواقعوں پر دیکھنے میں آیا ہے۔ دسمبر 2012 میں نربھیا ریپ کیس کے بعد انڈیا گیٹ پر خواتین نے اپنے حوصلے اور عزم کے ساتھ حکومت کو جنسی تشدد کے خلاف ایک مضبوط قانون بنانے پر مجبور کیا تھا۔

مارچ 2018 میں مہاراشٹر میں کسانوں نے ناسک سے ممبئی تک ایک لمبی ریلی نکالی۔ خواتین کاشتکاروں نے بھی اس میں بڑے پیمانے پر حصہ لیا۔ ان خواتین کے زخمی ننگے پیروں کی تصاویر اب بھی انٹرنیٹ پر پائی جاتی ہیں۔ اس کے بعد نومبر 2018 میں ملک کے مختلف حصوں سے کسان خواتین قرض معافی کے مطالبے کے لیے احتجاج کرنے دہلی پہنچ گئی تھیں۔

خواتین کی اس طاقت میں عمر کی کوئی حد نہیں ہے۔ جوان، بوڑھی ہر عمر کی خواتین کے حوصلے بلند نظر آتے ہیں۔ سبریمالا مندر ہو یا حاجی علی درگاہ متعدد خواتین پرتشدد مظاہرین کے سامنے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر مندر میں پہنچ گئیں۔

نوجوان لڑکیوں کی شرکت

23 سالہ سماجی کارکن نیہا بھارتی بہت سے مظاہروں میں شامل رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ بہت سے مظاہروں میں اپنے دوستوں کے ساتھ جاتی رہی ہیں۔

تعلیم اور کریئر پر توجہ دینے والی نوجوان لڑکیوں کی شرکت کے بارے میں نیہا کا کہنا ہے ‘تعلیم اور کریئر اپنی جگہ ہے لیکن جب آپ دیکھتے ہیں کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کسی مسئلے سے متاثر ہو رہی ہے تو آپ خاموش نہیں رہ سکتے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں اس کا حصہ بننا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ بزرگ خواتین جو دن رات احتجاج میں شامل رہتی ہیں وہ ہماری تحریک کا حصہ بن جاتی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں ’ہمارے لیے بھی سب کچھ آسان نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر کچھ لڑکیوں کے اہل خانہ احتجاج کے نام پر خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑی پریشانی خواتین کو دھمکیاں ملنا ہیں۔ مجھے بار بار ریپ اور اغوا کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔ لیکن ہم اس کے بعد بھی نہیں رکے۔‘

سینئر صحافی نیرجا چوہدری کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’کالجوں اور یونیورسٹیوں کی جو لڑکیاں احتجاج میں آتی ہیں آج جتنی جارحانہ ہیں اتنی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ ان نوجوان لڑکیوں میں بہت زیادہ جوش ہے اور وہ تبدیلی کی ہوائیں چلا سکتی ہیں۔ وہ بہت پر عزم ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ خواتین نے بھی تحریک آزادی میں حصہ لیا۔ ان کے بغیر انگریزوں کو بے دخل کرنا ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آزادی کے بعد انھیں سیاسی اور معاشرتی طور پر وہ سب نہیں ملا جس کی وہ مستحق تھیں لیکن اب ان کے تیار رہنے کا وقت آ گیا ہے۔

وہ سکرین پر تھی، تعلیم اور دیگر حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی تھی، لیکن 80 کی دہائی میں خواتین کے ریزرویشن کا مطالبہ اٹھا حالانکہ اس سے کچھ نہیں ہو پایا لیکن اب تو ہم ایک الگ ہی ماحول دیکھ رہے ہیں۔

خواتین میں ان تبدیلیوں سے کیا بدلے گا؟

ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ خواتین جس طرح سڑکوں پر آتی ہیں وہ صرف احتجاج تک ہی محدود نہیں ہیں۔ اس کے دور رس نتائج ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کی اندرونی طاقت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ وہ دوسری خواتین کو بھی طاقت بخش رہی ہیں اور حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔

جب وہ پولیس اور انتظامیہ کو للکار کر بہادری کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے تو وہ ہمت ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ لڑکیاں اور خواتین انھیں ٹی وی پر دیکھتے ہوئے عورت کی ایک مختلف شبیہہ دیکھتی ہیں۔

گیتا شری کا کہنا ہے ‘اب آپ خواتین پر آسانی سے پابندیاں اور بندشیں نہیں لگا سکتے۔ آنے والے وقت میں مزید حوصلہ مند لڑکیاں تیار ہو رہی ہیں جن کی ہر موضوع پر اپنی رائے اور سمجھ ہے، ان کا اپنا انتخاب ہے۔ اب مظاہروں میں خواتین کی شرکت میں مزید اضافہ ہو گا اور وہ قیادت میں آئیں گی۔

وہ کہتی ہیں ’اس سے قبل معاشرہ خواتین کے بارے میں بڑے خواب نہیں دیکھتا تھا۔ لیکن اب ان کے بارے میں معاشرے، خاندان اور خواتین کے خواب بدل چکے ہیں۔ لڑکیوں کے عزائم بڑھ چکے ہیں اور والدین بھی بیٹی کو آگے بڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ لوگوں نے بیداری یا مالی ضرورت کے تحت اسے قبول کیا ہے۔ یہی سوچ اب مضبوط تر ہو گی۔‘

اسی دوران، کیویتا کرشنن کا کہنا ہے کہ خواتین کے مختلف تحریکوں میں شرکت کے سیاسی اور معاشرتی اثرات پائے جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’جدوجہد کے بغیر آپ پدرانہ ذہنیت کا خاتمہ نہیں کر سکتے جب ہم خواتین کو لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ایک طرح کی طاقت اور زیادہ لڑنے کی خواہش ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ خواتین کے لیے قیادت کی راہ بھی ہموار ہو جاتی ہے۔‘

خواتین کا استعمال؟

خواتین کے احتجاج میں حصہ لینے کے بارے میں کئی بار یہ کہا جاتا ہے کہ انھیں جان بوجھ کر احتجاج کا چہرہ بنایا گیا ہے۔ کیونکہ پولیس خواتین پر سخت کارروائی سے گریز کرتی ہے اور میڈیا بھی ان پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔

کویتا کرشنن واضح طور پر اس کی تردید کرتی ہیں وہ کہتی ہیں یہ ان لوگوں کی سوچ کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ خواتین کو کتنا بیکار سمجھتے ہیں۔ خواتین بھی پولیس کی لاٹھی کھاتی ہیں اور انھیں گرفتاری کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

’اگر آپ ان خواتین سے بات کریں گے تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ وہ اس معاملے کو سمجھتی ہیں یا نہیں۔ کیا وہ کسی کے فریب کے تحت کئی دن تک اس تحریک میں شامل رہیں گی؟ یہ ان کی اپنی سمجھ بوجھ ہے۔‘

وہیں گیتا شری کا کہنا ہے کہ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے کئی بار ایسا کیا ہے۔ تاہم یہ بھی نہیں ہے کہ وہ خواتین نہیں جانتی ہیں کہ وہ کسی احتجاج میں کیوں آئی ہیں۔

اگر وہ اس مسئلے سے متفق نہیں ہیں تو پھر وہ لاٹھی کھانے کیوں آئیں گی؟ یہ استعمال کی بات نہیں ہے کیونکہ مرد بھی سمجھتے ہیں کہ خواتین کو شامل کیے بغیر کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ یہ بھی مثبت ہے۔ اور اگر وہ کسی وجہ سے باہر آئی بھی ہیں تو انھیں اپنی طاقت کا بھی پتہ چل رہا ہے۔ خواتین اپنی طاقت سے بھی واقف ہیں کہ وہ کیا کر سکتی ہیں۔ وہ صرف چولہا ہی نہیں جلا سکتیں بلکہ حکومت کی نیندیں بھی اڑ سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp