جسٹس فائز قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس: فائز عیسیٰ کی جانب سے اضافی نظرثانی درخواست میں کیا دلائل دیے گئے ہیں؟


پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اضافی نظرثانی درخواست داخل کی ہے جس میں ان کا موقف ہے کہ ’مجھے آئینی عہدے سے ہٹانے کے لیے ایف بی آر کو کنٹرول کیا گیا۔‘

انھوں نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ یہ غیر واضح ہے کہ آیا وزیر اعظم عمران خان، حکومتی عہدیداروں اور ان کے اہل خانہ نے اپنی بیرون ملک جائیدادوں کو پاکستان میں ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کیا ہے یا نہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی اپیل 31 صفحوں پر مشتمل ہے اور اس میں سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور سپریم جوڈیشل کونسل کے عمل کو ’بدنیتی پر مبنی‘ اور ’غیر شفاف‘ قرار دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ صدر مملکت عارف علوی اپنی ’آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے‘ اور ریفرنس دائر کرنے کا تمام عمل قانون و آئین کے خلاف تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’صدر آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس پر تفصیلی فیصلہ

جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس: کیا صدر مملکت عارف علوی اس معاملے میں بے اختیار تھے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ’دو نئے جج‘ بابر ستار اور طارق جہانگیری کون ہیں؟

سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسی کیس میں نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہیں جس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ آٹھ دسمبر کو کرے گا۔ اس کیس میں جسٹس فائز عیسی، سیرینا عیسی اور بار کونسلز نے نظرثانی دراخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

خیال رہے کہ تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ نظرثانی کی درخواست پر سپریم کورٹ کا بینچ اپنا فیصلہ تبدیل کرے۔

پی ٹی آئی نے مجھے جج کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا‘

جسٹس فائز عیسی کے مطابق ان گھر کے دروازے پر نوٹس چسپاں کیے گیے جیسے وہ کوئی اشتہاری ملزم ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اس عمل سے ایف بی آر نے ان کے ڈرائیور، مالی، گارڈ، خانصامے، ججز کالونی میں ہر آنے جانے فراد کے سامنے ’ان کی توہین ہوئی۔‘

درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس کیس میں آئندہ ’سماعت ٹی وی پر لائیو نشر کرنے کا حکم دیا جائے‘ کیونکہ ان کا موقف ہے کہ ’سرکاری عہدے داروں نے میرے اور اہل خانہ کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلائی۔‘

درخواست میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیی آفریدی کو بینچ کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ چاہتے ہیں کہ ’19جون 2020 کے فیصلے کے پیرا گراف دو تا گیارہ پر نظر ثانی کر کے واپس لیا جائے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’فیض آباد دھرنا کیس کے بعد ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے اپنی درخواستوں میں مجھے جج کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔‘

جسٹس فائز عیسی نے درخواست میں کہا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے کئی عہدے داروں کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں۔ ’علم نہیں کہ انھوں نے پاکستان میں اپنے ٹیکس ریٹرنز میں (انھیں) ظاہر کیا یا نہیں۔‘

وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’وزیر اعظم، ان کی بیویاں اور بچے (اپنے اثاثوں کے بارے میں) جوابدہ نہیں لیکن درخواست گزار (یعنی وہ خود)، ان کی اہلیہ اور بچے جوابدہ ہیں، ان کے احتساب کا معیار الگ ہے۔‘

’عمران حکومت کے ان عہدیداروں میں سید ذوالفقار عباس (زلفی) بخاری، یار محمد رند، ندیم بابر، شہباز گل، عاصم سلیم باجوہ، مرزا شہزاد اکبر، فیصل واوڈا اور عثمان ڈار شامل ہیں۔‘

انھوں نے اپنی پٹیشن میں لکھا ہے کہ ’ذوالفقار عباسی کی 45 ولنگٹن روڈ لندن میں فلیٹ نمبر 3 جائیداد ہے، یار محمد رند کی سپرنگ ریذیڈنشل ولا اور انٹرنیشنل سٹی دبئی میں جائیداد ہے، ندیم بابر کا ہوسٹن امریکہ میں گھر ہے، شہباز گل کا امریکہ میں گھر ہے۔

’عاصم سلیم باجوہ کی امریکہ میں 13 کمرشل اور پانچ رہائشی جائیدادیں ہیں، فیصل واوڈا کی بیرون ملک نو جائیدادیں ہیں لندن میں سات، ملائیشیا اور دبئی میں ایک ایک جائیداد، عثمان ڈار کی برطانیہ کے شہر برمنگھم میں جائیداد ہے۔‘

ٹیکس کے معاملات

درخواست گزار جسٹس فائز عیسیٰ کے مطابق ایف بی آر نے ان کی اہلیہ کا موقف نہیں سنا اور یکطرفہ فیصلہ دیا جو آئین میں فیئر ٹرائل کی نفی ہے۔ ’مقدمے میں اہلیہ فریق ہی نہیں تھیں اور انھیں اس غلطی کی سزا دی گئی جو انھوں نے کی ہی نہیں تھی۔‘

’18 اپریل کو نوشین جاوید کو ایف بی آر چیئرمین تعینات کیا گیا۔ 19 جون کو مختصر فیصلہ آیا اور 4 جولائی کو انھیں تبدیل کر کے پاکستان کسٹمز کے جاوید غنی کو ایف بی آر کے چیئرمین کا اضافہ چارج دے دیا گیا۔ دلچسپ عمل یہ ہے کہ جس دن ان کی تبدیلی کے احکامات جاری ہوئے اس دن ہفتہ وار تعطیل تھی۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایف بی آر کے ایک اہلکار جہانزیب خان کو شہزاد اکبر نے اس لیے تبدیل کیا کہ انھوں نے ان کا (درخواست گزار) اور ان کی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ دینے سے انکار کیا تھا۔

انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ’شہزاد اکبر اور فروغ نسیم ایف بی آر کو کنٹرول کر رہے ہیں جس کا مقصد انھیں (درخواست گزار کو) اپنے آئینی عہدے سے ہٹانا ہے۔

’آئین کے آرٹیکل 184 تھری سپریم کورٹ کو بااختیار بناتا ہے، تاہم درخواست گزار کی بیوی کو اس حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’ایف بی آر کے چیئرمین اسی وقت سپریم جوڈیشل کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کر سکتے ہیں جب سپریم جوڈیشل کونسل انھیں ایسا کرنے کا حکم دے۔‘

انھوں نے کہا ہے کہ ’ایف بی آر کی رپورٹ سے میں اور میری اہلیہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایف بی آر کی رپورٹ نہ مجھے اور نہ میری اہلیہ کو فراہم کی گئی۔‘

’ایف بی آر کی رپورٹ بھی صدارتی ریفرنس کی مانند میرے اور میری اہلیہ کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ کے لیے میڈیا کو لیک کی گئی۔‘

پٹیشن میں جسٹس فائز عیسی لکھتے ہیں کہ ایف بی آر کے ٹیکس کمشنر ذولفقار احمد، جو ان کی اہلیہ سرینہ عیسی سے تحقیقات کر رہے تھے، وہی شخص تھے جنھوں نے ریفرنس دائر ہونے سے قبل بغیر قانونی اجازت ٹیکس ریکارڈ کی تحقیقات کی لہذا ‘نئی تحقیقات کے لیے بھی ان کا انتخاب بدنیتی پر مبنی تھا۔’

‘وزیر قانون فروغ نسیم اور (معاون خصوصی برائے احتساب) شہزاد اکبر نے ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طور پر حاصل کیا اور ایف بی آر کو میرے خلاف رائے دینے پر مجبور کیا۔۔۔ چیئرمین ایف بی آر نے سرینا عیسیٰ کی رپورٹ فراہم کرنے سے انکار کیا لیکن رپورٹ میڈیا کو لیک کر دی گئی۔’

سپریم کورٹ

سپریم جوڈیشل کونسل کے کنڈکٹ سے متعلق اعتراضات

جسٹس فائز عیسی کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے خلاف صدارتی ریفرنس میں جتنی بھی سماعتیں ہوئیں انھیں اس کا حصہ نہیں بنایا گیا جبکہ ’صرف اُس وقت کے اٹارنی جنرل کو سن کر انھیں جواب طلبی کا نوٹس جاری کیا گیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ریفرنس کی کاپی سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے درخواست کی کہ کاپی فراہم کی جائے تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے سپریم کورٹ کی عمارت کے لان میں ان کے ساتھ ٹہلتے ہوئے نجی طور پر رازداری سے ریفرنس کے بارے میں بتانے کا مقصد ’مجھ سے استعفیٰ لینا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے تعصب کے بارے میں میری درخواست کے دوسرے حصے کی سماعت ہی نہیں کی۔‘

اس درخواست میں ان کا موقف ہے کہ 19 جون کے فیصلہ سے عدلیہ کی آزادی کو ایگزیکٹو کے ہاتھ میں دے دیا گیا جو کہ ’آئین کے برخلاف ہے۔‘

ان کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس کی کاپی انھیں سپریم جوڈیشل کونسل نے فراہم نہیں کی جبکہ اسے بھی ‘لیک کیا گیا۔’

یاد رہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں صدارتی ریفرنس پر سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ جاری کیا تھا۔ دس رکنی بینچ میں سے سات ججز نے یہ معاملہ ایف بی ار کو بھیجنے پر اتفاق کیا تھا جبکہ دو ججز نے اس سے اختلاف کیا تھا۔ ایک جج نے جسٹس فائز عیسی کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔

ٹیکس کے معاملات پر فائز عیسی کی طرف سے بابر ستار نے دلائل دیے تھے جنھیں اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا ہے۔

پہلے نظر ثانی کی درخواست مختصر فیصلے کے بارے میں تھی لیکن اب تفصیلی فیصلے کے بعد مزید گراؤنڈز پر اضافی نظرثانی کی درخواست داخل کی گئی ہے۔

صدارتی ریفرنس کیس کی سماعت سے قبل جسٹس فائز عیسی کے وکیل نے کہا تھا کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کے کنڈکٹ پر بھی بات کریں گے لیکن سماعت کے دوران اس بارے میں انھوں نے کوئی دلائل نہیں دیے تھے۔ سماعتوں کے دوران سپریم جوڈیشل کونسل کے کنڈکٹ پر جسٹس فائز عیسی کے وکلا نے دلائل دیے نہ عدالت نے اس بارے میں ان سے دلائل مانگے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32542 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp