ملتانی مٹی کی مہک …. رضی الدین رضی


\"akhtarیہ ان دنوں کی بات ہے جب ابھی عشق اور شاعری کو زوال نہیں آیا تھا۔ ہمیں رات دن شاعری کی دھن رہا کرتی تھی۔ ملتان میں ادبی محفلیں عروج پر تھیں۔ بابا ہوٹل نواں شہر میں حیدر گردیزی ، ارشد ملتانی، اصغرعلی شاہ، اقبال ارشد انور جمال، ممتاز اطہر، انور جٹ اور کئی دیگر تخلیق کا ر اورفن کار باقاعدہ دکھائی دیتے ۔ اردو اکیڈمی کے ہفتہ وار اجلاسوں میں عرش صدیقی ، فرخ درانی ، ابنِ حنیف، ڈاکٹر اے بی اشرف، انوار احمد، رﺅف شیخ ، نجیب جمال ، علمدار بخاری، صلاح الدین حیدراور کئی دیگر سنیئر اہل قلم موجود تھے۔ کینٹ میں حزیںصدیقی کا ڈیرہ آباد تھا۔ جہاں ایاز صدیقی ، مقصودزاہدی، انور زاہدی ، اسلم یوسفی، ہلال جعفری ، محسن گردیزی ، اظہر سلیم مجوکہ ، رفعت عباس، فہیم اصغر، اظہر علی ، ازرق عدیم دکھائی دیتے ۔ ممتاز العیشی ، مذاق العیشی ، عاصی کرنالی کے اپنے اپنے شاگردوں کے حلقے تھے ۔ اقبال ارشد اور حسین سحر کی جوڑی سب سے الگ اور نمایاں تھی۔ بعد ازاں اقبال ارشد نوجوانوں کے حلقے کے سالار دکھائی دینے لگے اسی دوران میں بچوں کے ادب کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے ایک جوڑی بالکل تازہ دم نوجوان شعرا کی ٹکڑی میں شامل ہوئی۔ جی ہاں رضی الدین رضی اور شاکر حسین شاکر کی جوڑی…. ، ان کے ساتھ سلیم ناز، خالد اقبال، ایم اسلم ندیم اور بعد میں شفیق آصف ، ناصربشیر اورکئی دیگر نوجوان بھی آملے ۔ اس سے ذرا قبل کا منظر نامہ یہ تھا کہ اطہر ناسک روزنامہ آفتاب کا ادبی صفحہ ترتیب دے رہا تھا، یہاں عباس ملک ملتان کی ادبی ڈائری لکھتے۔ نسیم شاہد اور اظہر سلیم مجوکہ اخبارات اور تقریبات میں تواتر سے دکھائی دیتے، پھر یہ ہوا کہ رضی الدین رضی نے نوائے ملتان سے آغاز کرکے سنگ میل کا ادبی صفحہ شائع کرنا شروع کیا ۔ اور اسے ادیبوں شاعروں میں پاپولر بنا دیا۔ رضی شعر کہتا اور ڈرتے ڈرتے کالم لکھتا تھا۔ ’ڈرتے ڈرتے‘ اس کے کالم کا عنوان تھا۔ چشمہ ان دنوں بھی لگاتا تھا۔ بات بات پر قہقہہ لگانے کی عادت اب بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ طفیل ابنِ گل نوائے وقت میں” خبروں کے آئینے میں “لکھتا، ہم شام کو اکٹھے بھی ہوتے ۔ اقبال ارشد طفیل ابن گل ، ا طہر ناسک ، رضی، جاوید اختر بھٹی ، نوازش علی ندیم، عدیل سیدہم بابا ہوٹل میں اکٹھے ہوتے اور وہاں سے اٹھ کر کبھی اسٹیشن نکل جاتے اور کبھی دولت گیٹ تک پیدل آتے۔ ملتان ریڈیو کی ولادت کوابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ ریڈیو پروگراموں کا کریز تھا۔ مگر ریڈیو پر اپنے آپ کو جنوئن لکھاری ثابت کر نا پڑتا تھا۔ آجکل کی طرح نہیں تھاکہ کسی استاد شاعرسے ’سفید کاغذ ‘پر اصلاح لی اور پروڈیوسر کی سلام دعا سے آپ مشاعرے میں شامل ہو گئے۔ مجھے وہ مشاعرہ بھی یاد ہے جب پروڈیوسر نے ہمیں غالب کا مصرعہ دے دیا، مصرعہ یہ تھا

پھر مجھے دیدہ ءتر یاد آیا

میں رضی ، ناسک اور محسن گردیزی ایک چائے خانے میں بیٹھ گئے اور ریکارڈ نگ سے ایک گھنٹہ قبل ہم نے اپنی اپنی غزلیں مکمل کر لیں۔ ان دنوں اطہرناسک اور میں کبیر والہ میں بیدل حیدری کی شاگردی اختیار کر چکے تھے۔ یہیں ہماری ملاقات قمر رضا شہزاد، حسنین اصغر تبسم ، منیر راہی ساجد نجمی سے ہوئی۔ کمال کے دن تھے۔ خانیوال ، کبیروالہ ، لودھراں ، شجاع آباد، بہاولپور، کو ٹ ادو، مظفر گڑھ تک کے مشاعروں میں شرکت کرتے اور اس دور کے رواج کے مطابق یا پھر اپنی عمر اور شوق کے ہاتھوں ’ خوار‘ ہوتے۔ کئی راتیں ، بس اڈوں ، ریلوے اسٹیشنوں پر بھی بسر ہو جاتیں کہ رات گئے دوسرے شہروں میں ذرائع آمدرفت میں پریشانیاں توہوتی ہیں۔ بسوں اور ٹرینوں کا انتظار کرنے میں بھی لطف آتا تھا۔

\"945562_10206950225406901_113767018522813013_n\"ایک بار ملتان کبیر والہ سے کئی شاعروں کو بہاول پور کے ایک مشاعرے میں مدعوکیاگیا۔ نئی نئی محبت بڑی عجیب ہوتی ہے۔ شاعری کا نیا نیا شوق ہمیں ہر جگہ لیے پھرتا تھا۔ ملتان کے سبھی تازہ دم شعراءمدعو تھے۔ مشاعرہ ختم ہوتے ہی میزبان غائب ہوگئے۔ سرورناز مرحوم کی اللہ مغفرت کرے ، اس مشاعرے میں موجود تھا۔ ہم سب دوستوں کو رات ڈیڑھ بجے لئے پھرتا رہاکوئی ہوٹل کھلا نہ ملا ، آخر بس اڈے پر ایک تھڑے والے ہوٹل سے کھانا کھلایا ، بہاولپور سے ملتان کی بس بھی کوئی نہ تھی، اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کیا جاتا رہا ۔ رات بھر مختلف مصرعوں پر غزلیں کہتے رہے۔ صبح کہیں گھر پہنچے۔ رضی ہمارا انہی محفلوں کا بیلی ہے۔ ایک روز اطہر ناسک اور طفیل کو بابا ہوٹل کے ساتھ والے ہوٹل میں گم سم اور اداس دیکھا۔ میں ان کے قریب بیٹھ گیا۔ خاموشی بڑھی تو میں نے سنجیدگی کا سبب پوچھا ۔ طفیل نے سگریٹ کا لمبا کش لگایا اور بولا! یار رضی لاہور ٹر گیا اے( رضی لاہور چلا گیا ہے)۔ ناسک نے نیا سگریٹ سلگاتے ہوئے طفیل کوتسلی دی ۔ ۔ ” طفیل صاحب ! آپ فکر نہ کریں بس ہم بھی لاہور نکلتے ہیں ۔ “

اور پھر ایسا ہی ہوا ہم کچھ عرصہ بعد ہی لاہور میں اکٹھے تھے۔ میں نے روزنامہ آفتاب جوائن کیا۔ رضی تو بہت پہلے بشری رحمن کے پرچے ’وطن دوست‘ سے وابستہ تھا طفیل کو روزنامہ امروز میں ٹھکانہ مل گیا تھا۔ ان دنوں رضی اور طفیل موہنی روڈ کی حیدر بلڈنگ کے کمرہ نمبر 52 میں رہنے لگے تھے۔ بعد ازاں اطہر ناسک بھی پتوکی کالج میں تبادلہ کرا کے لاہور آگیا، وہ بھی کمرہ نمبر 52 میں شفٹ ہوگیا ، میں اس وقت فیض باغ میں یار عزیز خواجہ ندیم اسلم کی مشروب ساز فیکٹری کے ملحقہ کمرے میں رہتا تھا ۔ دن کو روزنامہ آفتاب اور شام ان دوستوں کے ساتھ گزارتا ، ہم پاک ٹی ہاﺅس ، پرانی انار کلی ، گوالمنڈی اور کئی جگہوں پر گھومتے پھرتے ، ادبی تقریبات میں شامل ہوتے ، فلمیں دیکھتے اور رات گئے واپس اپنے اپنے کمروں کی طرف نکل جاتے ۔ اس دور کی بہت سی خوشگوار یادیں رضی نے تحریر کی تھیں جنھیں میں نے آفتاب کے ادبی ایڈیشن میں شائع کیا تھا۔ پھر یوں ہوا رضی ایک بار پھر ہمیں داغ ِ مفارقت دے گیا اور چپ چاپ ملتا ن روانہ ہو گیا۔ خود تو اس نے نہیں بتایابعد ازاں طفیل گل نے رضی کی داستانِ محبت اپنے مخصوص انداز میں بیان کی اور ہمیں اداس کر دیا۔ طفیل صاحب بولے : ” پتہ ہے، اُس دن ہم اسٹیشن پر دیر تک کیوں اداس بیٹھے رہے تھے ، ا س روز رضی محبت کی دیوی کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر آیا تھا جس نے خود کشی کر لی تھی ، سو رضی کے لئے لاہور میں سانس لینا مشکل ہو گیا تھا“

اطہر ناسک نے اس کہانی کو ایک اور ہی اسلوب میں بیان کیاتھا بولا: ’ شمار صاحب! آپ نے رضی کو ہمیشہ قہقہے لگاتا دیکھا ہے۔ ہم تو اس کے ساتھ رہتے تھے۔ آپ نہیں جانتے ان قہقہوں کے پیچھے اس کے کتنے آنسو دفن ہوتے ہیں۔ شمار صاحب رضی یہاں مزید کیسے رہ سکتا تھا۔ جس روز ہم نے اسے ملتان روانہ کیا تھا وہ آخری بار اُس قبر پر فاتحہ پڑھنے گیا تھااور اس نے محبت کی ادھوری نظم لکھی تھی۔ ‘

ناسک چپ ہوا تو طفیل صاحب نے گنگنانا شروع کر دیا۔

کتھے گیوں وے دل لاکے میریا ماہیا وے کتھے گئیوں۔ ۔ ۔

رضی الدین رضی کو ہم محض قہقہہ لگانے والا ایک خوش باش دوست سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کا اصل روپ اس کی شاعری میں دیکھا جا سکتا ہے۔ رضی ایک سچا تخلیق کار ہے۔ وہ اتنی خوبصورت نثر لکھتا ہے کہ اس پر رشک آتا ہے۔ ملتان میں وہ مزاح بھی لکھتا تھا۔ اب جو اس نے بچھڑنے والوں پر نم آلودمضامین لکھے ہیں توپڑھ کر دل مٹھی میں آجاتا ہے۔ یاد نگاری میں بھی اسے یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ محبت کے درد کو اس نے شعروں میں سمویا ہوا ہے۔ وہ آنسوﺅں کے ذائقے سے آشنا ہے۔ غم فرقت کی دھیمی دھیمی آنچ سے وہ اندر ہی اندر یوں سلگتا ہے کہ دھواں قہقہوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔ رضی کو محبت کے غم نے توانائی سے ہمکنا رکیا ہے۔ اس کی تخلیقی ثمر آوری میں فراق کے موسموں کا بڑا دخل ہے۔ لیکن اس کا غم یا سیت میں نہیں ڈھلتا۔ اسے دوستوں کی نعمت نے غنی کیا ہوا ہے۔ کہتے ہیں جوڑیاں ٹوٹنے کے لیے بنتی ہیںمگر دعا ہے رضی اور شاکر کی جوڑی ہمیشہ سلامت رہے۔ رضی اور شاکر آج بھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے تخلیقی سفر پر رواں دواں ہیں۔ آج وہ ملتان کی پہچان اور مان کے درجے پر فائز ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے میرے بچپن کے دوست اور محلے دار گوشہ نشین شاعر نوازش علی ندیم کو بھی متحرک کر دیا ہے۔ میں رضی کے تخلیقی سفر کا چشم دید گواہ ہوں ۔ اس کی شاعری میں رس اور نمک کا امتزاج ہے۔ اس کی نظموں اور غزلوں میں زندگی کا سا حسن محسوس کیا جاسکتا ہے۔ وہ حسن کہ جس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ بنیادی موضوع محبت ہونے کے باوجود بھی اسے محض رومانوی شاعر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بلکہ اس کے ہاں محبت اپنے وسیع تر مفاہیم میں جلوہ گر ہے گویا محبت کی مفاہمت کے علاوہ مزاحمتی شعور کی ایک زیریں لہر بھی اس کے ہاں محسوس کی جاسکتی ہے۔ میں اسے شاعری کے بہاریہ موسم کا شاعر قرار دوں گا۔ وہ ملتان قلعے کے ” دمدے“ کی طرح دور سے دکھائی دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments