پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں ’آکسیجن کی قلت سے چھ اموات‘


'میرا بیٹا خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں آکسیجن پر تھا۔ ہسپتال والوں کی غفلت اور نااہلی کی وجہ سے ہلاک ہوا ہے۔ میں وکلا سے مشورہ کر رہا ہوں کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کروں تاکہ کسی اور کا پیارا اس طرح سسک کے جان کی بازی نہ ہارے۔'

یہ الفاظ پشاور کے قریب ایک گاؤں ریگی کے رہائشی سمیع اللہ کے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ ان کا دو برس کا بیٹا صارم خان ہسپتال کے ہی چلڈرن وارڈ کے آئی سی یو میں زیرعلاج تھا، یہاں وہ آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک ہوگیا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے ترجمان فرہاد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آکسیجن نہ ہونے کے سبب ہسپتال میں مجموعی طور پر چھ مریض ہلاک ہوچکے ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں سے پانچ کورونا وارڈ اور ایک میڈیکل آئی سی یو وارڈ میں زیر علاج مریض تھا۔

ترجمان کے مطابق جب حالات گھمبیر ہوئے تو اس وقت کورونا وارڈ میں موجود تین مریضوں کو ان کے لواحقین اپنے ہمراہ لے کر چلے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ان کے بارے میں اطلاعات نہیں ہیں کہ وہ کہاں گئے تھے۔’

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق وزیر اعلیٰ محمود خان نے کہا ہے کہ یہ واقعہ متعلقہ ذمہ داروں کی جانب سے ‘سنگین غفلت اور غیر ذمہ داری’ کا مظاہرہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں کورونا ویکسین ٹرائل: رضاکاروں کا جنسی تعلق سے اجتناب برتنا ضروری کیوں ہے؟

پاکستان میں مسلسل دوسرے روز دو ہزار سے زیادہ نئے مریض

کیپٹن صفدر کا کورونا ٹیسٹ مثبت، ملک میں آٹھویں روز بھی ہزار سے زیادہ نئے مریض

سمیع اللہ کا کہنا تھا کہ ‘میرا بیٹا کینسر کا مریض تھا۔ کافی حد تک صحت یاب ہو چکا تھا۔ اس کو کچھ سانس کی تکلیف تھی جس وجہ سے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں تین روز سے داخل کیا ہوا تھا۔’

‘سنیچر اور اتوار کی درمیانی رات میری اہلیہ نے مجھے فون کیا کہ بیٹے کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ آکسیجن اتری ہوئی تھی۔ میرے دیکھتے دیکھتے ہی وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔’

سمیع اللہ کا کہنا تھا کہ ‘میری اہلیہ تین دن سے بیٹے کے پاس بیٹھی جاگتی رہی ہے۔۔۔ اہلیہ نے بتایا کہ ہفتے کی رات دس بجے سے اس کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی۔’

انھوں نے مزید بتایا کہ ‘عملے نے پائپ سے پھونک مار کر اس کو آکسیجن فراہم کرنا شروع کی۔’ ان کے پہنچنے کے چند منٹ بعد موت کی تصدیق کر دی گئی۔

سمیع اللہ کا کہنا تھا کہ جتنا ممکن ہوسکے گا وہ قانونی کارروائی کریں گے۔

عینی شاہد نے کیا دیکھا

ضلع ہنگو کے رہائشی مرید علی کی والدہ کورونا وارڈ میں آکسیجن پر تھیں۔ مرید علی کی والدہ واقعے میں بچ جانے والوں میں سے ہیں لیکن انھوں نے اس رات ہونے والے واقعے کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ‘پورے ہسپتال میں ہم لوگ اپنے مریضوں کو بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ (وہ) طبی عملے کی منتیں کررہے تھے۔ مگر وہ کہہ رہے تھے کہ جاؤ اور سلینڈر لاؤ۔’

وہ بتاتے ہیں کہ ‘ہفتے کی رات آٹھ بجے تک حالات ٹھیک تھے۔ میری والدہ آکسیجن پر تھیں۔ ان کی حالت بہتر لگ رہی تھی۔ اس دوران میں کھانا کھانے چلا گیا۔

‘رات دس بجے وارڈ میں گیا تو دیکھتا ہوں کہ والدہ کی حالت غیر ہورہی ہے جس پر میں نے ایک دم موقع پر عملے سے کہا کہ کیا صورتحال ہے۔ آکسیجن کیوں بند کردی ہے تو مجھے کہا گیا کہ بھائی کچھ نہیں ہے ابھی سب ٹھیک ہوجائے گا۔’

مرید کا کہنا تھا کہ ‘مجھے اس پر تسلی نہیں ہوئی اور کچھ سمجھ نہیں آیا، ایک دم وارڈ سے باہر نکلا اور اپنے رشتہ داروں کو فون کیے۔ ساتھ دیگر لوگوں کو بتایا کہ یہ صورتحال ہے۔’

‘جب میں دیگر مریضوں کے لواحقین کے ہمراہ کورونا وارڈ گیا تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مریضہ کو وارڈ سے منتقل کیا جارہا تھا۔’

وہ کہتے ہیں کہ جب آکسیجن کی قلت کا مسئلہ بڑھا تو ‘لوگوں نے شور شرابہ کردیا۔ وارڈ میں موجود عملے نے ہمیں کہا کہ اپنے مریضوں کو ایمرجنسی لے کر جائیں وہاں پر آکسیجن موجود ہے۔ ہم لوگوں نے اپنے مریضوں کو ایمرجنسی منتقل کرنا شروع کردیا۔’

‘وہاں پر بھی آکسیجن تھوڑی ہی دیر چلی اور ختم ہوگئی۔ عملے نے کہا کہ سلنڈر پہنچائیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عملہ خود آکسیجن پہنچاتا۔’

مرید علی کے مطابق ‘لواحقین اور مریضوں کی مدد کے لیے پہچنے والے لوگ بھاگتے بھاگتے سٹور میں پہنچے۔ سٹور دور تھا۔

میری والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔

میں نے ایک ایبمولینس والے کی منت کر کے اس سے چھوٹا سلنڈر لیا۔ جب سلنڈر لے کر گیا تو ہاتھ میں ایک پرچی تھما دی گئی کہ سلینڈر کے ساتھ لگنے والی اشیا بھی لا کر دو۔’

مرید علی کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ‘میری آنکھوں کے سامنے ایمرجنسی میں چھ مریض ہلاک ہوئے ہیں۔ کئی مریضوں کی حالت انتہائی غیر تھی۔ مجھے تو لگتا ہے کہ نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔’

مرید علی کا کہنا تھا کہ یہ سارا سلسلہ رات دس بجے شروع ہوا تھا۔ ‘کورونا وارڈ سے آکسیجن کے لیے ایمرجنسی میں منتقل کیا گیا پہلا مریض کوئی گیارہ بجے ہلاک ہوا تھا۔ ہسپتال میں آکسیجن کا انتظام کوئی چار بجے ہوا تھا۔ اس کے بعد میری والدہ اور دیگر مریضوں کو دوبارہ وارڈ میں منتقل کیا گیا۔’

وزیر اعلیٰ کا ‘سنگین غفلت اور غیر ذمہ داری’پر نوٹس

صوبائی وزیر صحت کے پی آر او کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ‘وزیر خزانہ و صحت تیمور جھگڑا نے ٹیچنگ ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز سے واقعے کی فوری انکوائری اور 48 گھنٹوں کے اندر ایکشن لینے کی ہدایت کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘اگر انکوائری سے مطمئن نہ ہوئے تو حکومت اپنی آزاد انکوائری کرائے گی۔ واقعے سے متعلق تمام حقائق سے عوام کو بروقت آگاہ کیا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ اطلاعات و خبریں نہ پھیلائی جائیں۔’

وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے واقعے کا سخت نوٹس لے لیا ہے۔ چیف سیکرٹری اور وزیر صحت کو ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز سے واقعے کی تحقیقات کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

پریس ریلیز کے مطابق وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ واقعہ متعلقہ ذمہ داروں کی جانب سے ‘سنگین غفلت اور غیر ذمہ داری’ کا مظاہرہ ہے۔

فرہاد خان کے مطابق ہسپتال کے سنٹرل آکسیجن پلانٹ میں دس ہزار لیٹر آکسیجن سٹور کرنے کی گنجائش ہے۔ آکسیجن ٹینکر راولپنڈی سے لائے جاتے ہیں۔ بی او سی نامی کمپنی آکسیجن ہسپتال کو سپلائی کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا مریضوں اور سردیوں کی وجہ سے آکسیجن کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ آکسیجن راولپنڈی سے سپلائی ہوتی ہے اور سپلائی میں تاخیر ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp