پرل ہاربر: وہ مہلک حملہ جس نے امریکہ کو دوسری عالمی جنگ کا حصہ بنایا


تاریخ کی مہلک ترین فوجی کارروائی چشمِ زدن میں مکمل ہو چکی تھی۔ سات دسمبر 1941 کو صبح سات بج پر 55 منٹ پر جاپانی فضائیہ کے طیاروں نے ریاست ہوائی میں واقع امریکی بحری اڈے پرل ہاربر پر ایک مہلک حملے کا آغاز کیا۔

دو گھنٹوں کے مختصر دورانیے میں بحری اڈے پر لنگر انداز پانچ امریکی جنگی بحری جہاز تباہ ہونے کے بعد ڈوب چکے تھے، 16 بحری جہازوں کو جزوی نقصان پہنچا اور آرمی اور نیوی کے زیر استعمال 188 طیارے تباہ ہوئے۔

اس مہلک حملے میں تین امریکی طیارہ بردار بحری جہاز ہی بچ پائے کیونکہ عموماً تو وہ پرل ہاربر میں ہی موجود ہوتے تھے مگر اس روز وہ کھلے پانیوں میں تعینات تھے۔

ان تباہ کن حملوں میں، جنھوں نے امریکہ کو دوسری عالمی جنگ میں حصہ لینے پر مجبور کیا، 2400 سے زائد امریکی فوجی ہلاک جبکہ 1178 زخمی ہوئے۔ حملے کے دوران جاپان کے سو سے کم فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

اگرچہ یہ حملہ بہت تیزی اور جلد بازی میں ہوا مگر اس کی کڑیاں برسوں سے جاری واقعات سے جا ملتی ہیں۔ ایک وہ وقت تھا جب امریکہ جاپان کے اس حوالے سے عزائم کو ہمدردانہ نگاہ سے دیکھتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

‘یہ ہے پرل ہاربر کا بدلہ’

’ڈیئر پوتن، ہٹلر اور سٹالن نے دوسری جنگ عظیم کا آغاز کیا‘

ہیروشیما پر گرنے والا ایٹم بم لےجانے والا بحری جہاز مل گیا

سنہ 1931 میں جاپان نے شمالی چین میں واقع منچوریا نامی علاقے پر قبضہ کیا تھا۔ اس معاملے پر پیدا ہونے والا تنازع شدت اختیار کرتا رہا اور بالآخر جولائی 1937 میں باقاعدہ جنگ کا اعلان ہو گیا۔ اور جیسے ہی جاپانی جارحیت میں اضافہ ہوا امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات بگڑنا شروع ہو گئے۔

قبضے کے بعد جاپان نے منچوریہ کا استحصال کرنا شروع کیا اور اس علاقے میں مختلف قسم کی صنعتوں کا قیام کرنا شروع کیا۔ یہ (صنعتوں کا قیام) جاپان کی عملی ضرورت تھی۔ اپنے ملک میں قدرتی وسائل کی کمی کی وجہ سے متبادل ذرائع کی تلاش میں جاپان نے گذشتہ ایک دہائی میں اپنی خارجہ اور فوجی پالیسی کو نئے خطوط پر ترتیب دیا تھا اور جاپان کی پالیسیوں میں یہی تبدیلی بلآخر پرل ہاربر اور بحر الکاہل کی جنگ پر ختم ہوئی۔

پرل ہاربر

پرل ہاربر پر جاپانی حملے نے امریکہ کو دوسری جنگِ عظیم میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا

عملی معاشی نظریات، ابتدائی فوجی کامیابیاں اور نسلی برتری کے موروثی احساس نے جاپان اور اس کے رہنماؤں کو یہ یقین دلانے کے لیے مجبور کیا کہ وہ ایشیائی سیاست پر حاوی ہونے کے مستحق ہیں۔

نازی جرمنی اور فاشسٹ اٹلی کی طرز پر اس امتزاج نے جاپان میں ایک جارحانہ اور نوآبادیاتی خارجہ پالیسی ’گریٹر ایسٹ ایشیا کو پراسپیریٹی سپیئر‘ کو جنم دیا۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے معاشی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مزید زمین اور وسائل کی ضرورت تھی۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات

امریکہ کے ساتھ تیزی سے سرد مہری کا شکار ہوتے تعلقات کے بیچ جاپان کی یہ پالیسی بتدریج آگے بڑھتی اور جارحانہ ہوتی رہی۔ اس سے قبل تاریخی طور پر جاپان بہت سے قدرتی اور صنعتی وسائل کی فراہمی کے لیے امریکہ پر انحصار کیا کرتا تھا۔

جاپان کی جارحیت اور عزائم کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے سنہ 1911 میں جاپان سے کیا گیا ایک تجارتی معاہدہ جنوری 1940 میں ختم کرنے کا عندیہ دے دیا۔ معاملات اس وقت گھمبیر ہو گئے جب جاپان نے ستمبر میں جرمنی اور اٹلی کے ساتھ ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے۔

اس معاہدے میں شمولیت کا مطلب یہ تھا کہ اب جاپان یورپی جنگ لڑنے والے بڑے اتحاد کا باضابطہ رکن تھا۔

اس معاہدے ہی سے اصل مسائل پیدا ہوئے۔ اگرچہ اعلانیہ طور پر امریکہ اس وقت تک غیر جانبدار تھا مگر اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ امریکی کی ہمدردیاں کہاں اور کس کے ساتھ ہیں۔ صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے پہلے ہی برطانیہ کو لیز پر ایک معاہدے کے تحت رقم اور اسلحہ فراہم کر کے اپنی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان ڈال دیا تھا۔

پرل ہاربر

یو ایس ایس ایریزونا ان متعدد امریکی بحری جہازوں میں سے تھا جنھیں سات دسمبر 1941 کو جاپانی آبدوزوں اور طیاروں نے نشانہ بنایا تھا

جاپان کے سہ فریقی معاہدے کا حصہ بننے کا مطلب یہ تھا کہ جاپان کو وسائل کی فراہمی بالواسطہ اٹلی اور جرمنی کی مدد کرے گی۔ اور اس کے بعد جاپان پر مزید پابندیاں عائد کر دی گئیں۔

چین کے ساتھ ایک طویل جنگ میں مصروف جاپان کے لیے یہ سب تباہ کن تھا۔ اپنی بقا کو درپیش خطرات کو سمجھتے ہوئے جاپان مستقل متبادل کی تلاش میں تیزی لایا اور اس سلسلے میں جاپان کا سب سے واضح اور بڑا ہدف جنوب مشرقی ایشیا بنا، جو معدنیات اور تیل کی دولت سے مالا مال تھا۔

سنہ 1940 میں یورپ میں جرمنی کی کامیابی کے نتیجے میں فرانس اور ڈچ نوآبادیات یتیم ہو چکی تھیں یعنی ان کا کوئی والی وارث نا تھا اور اب یہی نوآبادیاتی کالونیاں جاپانیوں کی توجہ کا مرکز تھیں۔

جولائی 1941 میں فرنچ انڈوچائنا پر قبضہ کرتے ہوئے جاپان کو شاید معلوم تھا کہ جنوب مشرقی ایشیا پر بڑے پیمانے پر حملہ امریکہ کے ساتھ جنگ کا سبب بنے گا۔ اسے فلپائن، برما اور ملایا جیسے اہم اہداف کو کامیابی کے ساتھ فتح کرنے کے لیے کافی وقت اور حکمت عملی کی ضرورت تھی۔ اور جاپان کے مطابق پرل ہاربر پر حملہ ہی وہ واحد طریقہ کار تھا جس کی مدد سے جاپان اس خطے میں اپنے عزائم میں کامیاب ہو سکتا تھا۔

جاپان توقع کر رہا تھا کہ بحر الکاہل میں امریکی بحری بیڑے کو تباہ کر کے جاپان وہ وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جس کی اسے وسائل پر قابو پانے میں اشد ضرورت تھی۔

پرل ہاربر

امریکی بحریہ کے جہاز یو ایس ایس کیلیفورنیا کی تباہی کا منظر

امریکہ بالکل تیار نہ تھا

حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں جنگ کی بڑے پیمانے پر توقع کی جا رہی تھی۔ مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر جنگ متوقع تھی تو امریکہ کیوں تیار نہیں تھا؟

اس جنگ کے دوران گردش میں آنے والی افواہیں آج بھی کہیں نہ کہیں سننے کو مل جاتی ہیں۔ ان تاریخی افواہوں کو تاریخ کے مؤرخ زندہ رکھے ہوئ۔ انھی دعوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ درحقیقت صدر روزویلٹ کا دل جاپان کے ساتھ جنگ کرنے کو مچل رہا تھا مگر وہ امریکی غیرجانبداری کے اصول کے ہاتھوں مجبور تھے اور غیرجانبداری کا چوغہ اتار پھینکنے کے لیے انھیں کسی ٹھوس وجہ یا محرک کی ضرورت تھی۔

لہذا انھی دعوؤں کے تحت صدر روزویلٹ پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے جانتے بوجھتے جاپان کی جانب سے پرل ہاربر پر ہونے والے متوقع بڑے حملے کی خبروں پر کان نہ دھرا اور دراصل وہ چاہتے تھے کہ جاپان کی جانب سے کچھ ایسا ہو کہ انھیں (امریکہ) کو جنگ میں شمولیت کی وجہ مل جائے۔

سنہ 1941 میں امریکہ جنگ کے لیے تیار نہیں تھا۔ برطانیہ اور روس کے ساتھ مل کر امریکی افواج ہتھیاروں کی تلاش میں لگی ہوئی تھیں اور روزویلٹ کو معلوم تھا کہ انھیں امریکہ کی فوجی صلاحیت میں اضافے کے لیے مزید وقت کی ضرورت ہے۔ مگر اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو روزویلیٹ چاہتے تھے کہ تاریخ میں جاپان کو ایک حملہ آور کے طور پر دیکھا جائے، لیکن اس حوالے سے روزویلٹ کو کوئی جلدی نہیں تھی۔

اس کے علاوہ امریکہ جاپان سے زیادہ جرمنی کو اپنا بڑا دشمن سمجھتا تھا۔ روزویلٹ نے پہلے ہی غیر جانبداری کے اصول کو آخری حد تک لے گئے جب انھوں نے بحر اوقیانوس میں سفر کرتے قافلوں کی حفاظت کے لیے جنگی بحری جہاز تعینات کرنا شروع کیے۔

جرمنی کے ساتھ جنگ کسی بھی وقت شروع ہو سکتی تھی تو پھر ایسے موقع پر جاپان کے ساتھ دوسرا مقابلہ کرنے کا انتخاب کیوں کیا گیا۔

صدر روزویلٹ

امریکہ کے صدر روزویلٹ جاپان کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہونے سے متعلق ایک دستاویز پر دستخط کر رہے ہیں

امریکی کوتاہ بینی

اگرچہ ایسا ڈھونڈ نکالنا مشکل ہے مگر اگر دستیاب تھوڑے بہت شواہد کا جائزہ لیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ پچھلی غلطیوں پر پردہ ڈالا گیا۔ اصل جرم ایک بہت بڑے پیمانے پر نااہلی تھا۔

بہر حال امریکہ نے جاپان کے سفارتی رابطوں کو توڑ دیا تھا اور بعض اوقات جاپان کی جانب سے بھیجے جانے والے یا اسے موصول ہونے والے پیغامات خود جاپانیوں کی نسبت پہلے امریکہ کو موصول ہو جاتے تھے۔ مسئلہ خام اعداد و شمار کا نہیں تھا، بلکہ اس کی ترجمانی، تشخیص اور مواصلات کا تھا، اسے صحیح طور پر استعمال کرنا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔

امریکی انتظامیہ اور فوج دونوں ہی واشنگٹن اور اوہویو کے مابین کوآرڈینیشن کی حیرت انگیز کمی کے مجرم نظر آتے تھے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی فورسز میں بھی رابطے کی کمی تھی۔

جاپانی پیغامات کو امریکہ کی بری فوج اور بحریہ نے متبادل دنوں میں ڈی کوڈ کیا تھا اور اکثر ایک سروس حاصل ہونے والی نئی انٹیلیجنس رپورٹ دوسری سروس کو مناسب طریقے سے بھیجنے میں ناکام رہی تھی۔ اور یہ صرف کوڈز نہیں تھے، حملے کے دن جاپانی طیاروں کو امریکی ریڈارز نے دیکھ لیا تھا مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی کیونکہ یہ فرض کیا گیا تھا کہ وہ دراصل امریکہ ہی کےB-17 بمبار طیاروں کی پروازیں تھیں۔

ایسا نہیں ہے کہ امریکہ کو متنبہ نہیں کیا گیا تھا۔ جنوری 1941 میں ٹوکیو میں امریکی سفیر نے انٹیلیجنس رپورٹ دی تھی کہ جاپان اس حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ مگر اس رپورٹ کو نظرانداز کیا گیا۔ فروری اور جولائی میں فوجی ذرائع سے حاصل ہونے والے تنبیہی پیغامات کو بھی نظرانداز کیا گیا جن میں جہازوں کی بڑی پیمانے پر پرل ہاربر سے منتقلی کی بات کی گئی تھی۔

یہاں تک کہ اس حملے سے دس روز قبل واشنگٹن سے جزیرہ ہوائی بھیجی جانے والی وارننگز کو بھی عملی طور پر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ درحقیقت امریکہ کافی حد تک غیر فعال ہونے کا ثبوت پیش کر رہا تھا۔

اس امریکی کوتاہ بینی کی بڑی وجہ یہ خوش فہمی تھی کہ جاپان باقاعدہ اعلان جنگ سے قبل اس نوعیت کا حملہ نہیں کرے گا۔ دوسری جانب جاپان کی تاریخ کے مطالعے نے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قبل از وقت حملہ کرنا جاپان کا معیاری آپریٹنگ طریقہ کار تھا۔

جاپان کیا کر سکتا ہے اس پر توجہ دینے کی بجائے امریکہ صرف یہ اندازہ لگاتا رہ گیا کہ جاپان کیا کرے گا۔ اور پھر ثابت ہوا کہ امریکی نے غلط اندازہ لگایا تھا۔

پرل ہاربر

آج اس واقعے کو 79 برس مکمل ہو چکے ہیں

نتائج

اگرچہ پرل ہاربر پر حملے نے بحر الکاہل کی جنگ کا آغاز کیا، ایک ایسی جنگ جس کے نتیجے میں جاپان بُری طرح ہارا، مگر بذات خود پرل ہاربر کا حملہ کوئی ناکامی نہیں تھا۔ جاپانی بحر الکاہل میں امریکی بیڑے کو تباہ و برباد کرنا چاہتے تھے تاکہ انھیں جنوب مشرقی ایشیا پر حملہ کرنے کے لیے مناسب وقت میسر آ سکے۔

اس منصوبے میں کامیابی بھی ہوئی اور جون 1942 تک جاپان ہر معرکہ سر کرتا گیا۔ اس وقت تک اس نے منچوریا سے لے کر مشرقی انڈیز تک، اور بحر الکاہل سے انڈیا کی سرحدوں تک پر قبضہ کر لیا تھا۔درحقیقت پرل ہاربر پر حملے نے جاپان کو ایسا کرنے کا موقع اور وقت فراہم کیا تھا۔

تاہم جاپانی حملے کا بنیادی مسئلہ منصوبہ بندی تھا۔ اگر جاپان نے بحری بیڑے سے آگے حملہ کرنے پر توجہ مرکوز کی ہوتی اور ساحل پر اہم تنصیبات اور تیل کے ذخائر کو نشانہ بنایا ہوتا تو وہ امریکہ کا اس سے کہیں زیادہ اور دیرپا نقصان کر سکتا تھا۔

سات دسمبر کے حملے میں تباہ یا غرق ہونے والے بحری جہازوں میں سے صرف تین، ایریزونا، اوکلاہاما اور ایوٹا، ہی ایسے جہاز تو جو اس حد تک تباہ ہو چکے تھے کہ انھیں دوبارہ مرمت نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پرل ہاربر پر ابتدائی حملے کے بعد جاپان نے امریکہ کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے بحری بیڑے کو دوبارہ تعمیر کرے اور بالکل نئے انداز میں لڑائی میں حصہ لے۔

اس سے بھی بدتر یہ ہوا کہ اس موقع پر منصوبے کے مطابق امریکہ کے حوصلے مکمل طور پر پست کرنے کے بجائے جاپان نے امریکہ کو وہ موقع فراہم کیا جس نے امریکی عوام کو صدر روزویلٹ کی پشت پر کھڑے ہو کر جنگ کرنے میں متحد کر دیا۔

جاپان کی جانب سے اس حملے کے باوجود جنگ کا اعلان نہ کرنے پر امریکیوں کو غصہ آیا، چھپ کر کرنے والے اس حملے نے جنگ لڑنے کے امریکی عزائم کو ہوا دی۔

پرل ہاربر اور جنوب مشرقی ایشیا پر حملوں کے ذریعے جاپان نے اپنی ‘بہترین کارکردگی’ کا مظاہرہ کیا اور یہ ظاہر کیا کہ جاپان بڑے حملوں کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر دوسری جانب یہ حملہ بہرحال حکمت عملی کے لحاظ سے جاپان کے لیے تباہ کن تھا۔

اس حملے نے جاپان کو اس قابل نہ چھوڑا کہ وہ مستقبل میں دوبارہ کبھی ایسا کرنے کی منصوبہ بندی کرے۔اس حملے نے اگرچہ جاپان کو وقتی طور پر وہ سپیس فراہم کی جو وہ حاصل کرنا چاہتا تھا مگر دوسری جانب وہ برطانیہ اور امریکہ کے سامنے مدمقابل کے طور پر بھی آ گیا۔ اس طرح کے محاذ آرائی کو دعوت دینا بہادری، امید پرستی اور (ممکنہ طور پر) پاگل پن کا نتیجہ تھا۔ بلآخر جاپان ہار گیا۔

امریکہ کی فوجی اور معاشی طاقت کے سامنے وہ کبھی جیت نہیں سکتا تھا۔ تو پھر اس حوالے سے سازشی نظریات کیوں؟ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ یہ قبول کرنے میں تامل برت رہے ہوں کہ اس روز (سات دسمبر کو) جنگ کے پہلے راؤنڈ میں ایک بہتر ٹیم نے (جاپان) امریکہ کی بری طرح پٹائی لگائی تھی۔

نوٹ: بروس روبنسن کا یہ تجزیہ بی بی سی میں سنہ 2011 میں شائع ہوا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp