پاکستانی میزبان کی غفلت اور اجنبی جرمن نوجوانوں کا ایثار


جس وقت کی یہ بات ہے تب تو یہ ملک ہمارے لئے دیار غیر ہی تھا۔ یہ 3 فروری 1980 کی بات ہے۔ تب ہم نئے نئے جرمنی میں وارد ہوئے تھے۔ ایک ایسی دنیا جس کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں تھا بس اتنا معلوم تھا کہ اس قوم نے دو جنگیں لڑیں جنہیں جنگ عظیم کہا جاتا ہے۔ اور کچھ کچھ کتابوں میں ان کی بربریت کا کچھ ایسے ذکر ملتا ہے کہ گویا اس زمانہ کے منگول طرح کے لوگ ہوں گے ۔ مگر حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ عام طور پہ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب لوگ کسی قوم طبقے یا مذہب کے خلاف ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے خلاف اس طرح سے نفرت کا پرچار ہوتا ہے۔

کہ گویا یہی قوم یا طبقہ پوری انسانیت کے لیے شدید خطرناک ہے۔ حیرت اس امر پہ ہے کہ پریس کے پروپیگنڈا کو اس کے مضرات سے پالا پڑ نے اور جان لینے کے باوجود اکثریت پھر جھانسے میں آجاتی ہے۔ عالمی سطح پہ پہلے ایران کے خلاف محاذ آرائی پھر عراق لیبیا شام یکے بعد دیگرے نفرت اور ان اقوام کو مالی ومعاشی طور پہ پوری طرح برباد کرنے کے بعد بعض کے بارہ میں غلط معلومات کا اقرار بھی کرنا۔ لاکھوں بے گناہ انسانوں سے جینے کا حق ہی چھین لینے کے بعد کیسی معذرت۔

پاکستان میں شیعہ احمدی وغیرہ کے بارہ میں نفرت کا گراف آسمان کو چھو رہا ہے۔ مگر اس کی بنیاد بھی وہ نہیں جو قرآن میں ہے کہ اللہ کا شرک ظلم۔ عظیم ہے۔ اور اس کی طرف مطلق توجہ نہیں۔ اور ملک کا امن برباد ہو جانے کے باوجود اقتدار کے حصول کے لیے خدمت عوام نہیں بلکہ ایسے امور کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بات جرمن قوم کی ہو رہی تھی۔ جس کے خلاف ماضی میں بہت منفی پراپیگنڈا کیا گیا۔ ایک عظیم قوم ہے جس کی متحد ہو نے کی خوبی کو وقتی طور پہ ہٹلر نے غلط استعمال کیا۔

بہرحال مشورے سے طے پایا کہ احسان صاحب (تبدیل شدہ نام) جو مبارک صاحب کے دور کے بھانجے تھے۔ ان کے انداز استقبال سے ہمیں بعد میں اندازہ ہوا کہ وہ مبارک صاحب کے کچھ زیادہ ہی دور کے بھانجے تھے۔ چندہ ماموں دور کے۔ تو سن رکھا تھا۔ بھانجے میاں دور کے سے ہمیں پالا پڑنے جا رہا تھا۔ ہم دونوں کو میرے ایک عزیز غفور صاحب جنہوں نے یہ سوچ کر کہ زبان سے ہم نابلد ہیں۔ ان کی نوازش کہ ہمیں احسان صاحب کے پاس چھوڑنے تین سو کلو میٹر تک ہمارے ساتھ گئے۔

سردی اپنے پورے جوبن پہ تھی۔ منزل مقصود تک پہنچنے میں دن غروب ہو گیا۔ ہمارے باوجود اطلاع کرنے کے احسان کا ریلوے اسٹیشن پر دور دور تک نام و شان نہیں تھا۔ غفور صاحب گھنٹے بھر کی انتظار کے بعد واپسی ٹرین پہ سوار ہو گئے کہ چلو کچھ انتظار کر لو احسان صاحب شاید کہیں اٹک گئے ہیں ابھی آ جائیں گے۔ ہم نے غفور صاحب کو الوداع کہا۔ اور ہم دونوں ریلوے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں انتظار کرنے لگے۔ مزید دو گھنٹے کی انتظار کے بعد چونکہ رات کے نو یا دس بج چکے تھے۔

اور وہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جہاں رات کو ریلوے اسٹیشن بند کر دیے جاتے ہیں۔ ہمیں بھی ویٹنگ روم کو چھوڑنا پڑا اور احسان صاحب کا تغافل ہماری خوب خبر لینے والا تھا۔ ہمارے خبر کر کے آنے کے باوجود۔ حال یہ تھا کہ۔ خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک۔ بلکہ شاید اکڑ جائیں گے ہم آج فجر ہونے تک۔ والی بات لگ رہی تھی۔ اتنی دیر میں برفباری شروع ہو چکی تھی۔ باہر نکلنے پہ اندازہ ہوا کہ آج ایک ان چاہے ایڈونچر سے دوچار ہونے جا رہے ہیں۔

اور وہی ہوا۔ ہم دونوں نے ایک سمت چلنا شروع کر دیا۔ احسان صاحب کا پتہ تو پاس تھا۔ سوچا کوئی ٹیکسی لے کر پتہ پہ پہنچ جائیں گے۔ مگر وہاں تادیر سڑک پہ کوئی ٹیکسی نمودار نہیں ہوئی۔ بلکہ شاذ کے طور پہ ہی ٹریفک تھی۔ سڑکیں سنسان اور برف کا طوفان سامنے تھا۔ وہ گاؤں جہاں ہم نے جانا تھا وہ دس کلومیٹر دور تھا۔ اور کس طرف تھا۔ ہمیں کچھ علم نہیں تھا۔ مجھے بحرین میں کام کے دوران لفٹ مانگنے کا آئیڈیا تھا۔ ورنہ اپنے دیس میں تو یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔

اور نہ کبھی ایسا اتفاق ہوا تھا۔ ہم دونوں گھپ اندھیرے میں ایک سمت چلتے چلتے اس چھوٹے سے شہر سے کافی باہر پہنچ گے۔ اب سردی سے برا حال برفباری کا طوفان اور ہم دونوں ایک جگہ رک کر لفٹ مانگنے لگے۔ شاید آدھا گھنٹہ نہیں گزرا ہوگا کہ ایک گاڑی رک گئی۔ اس میں دو نوجوان جو شاید برفباری کا مزہ لینے سیر سپاٹا کر رہے تھے۔ پہلے وہ ہمیں اس گاؤں لے گئے مگر اس گھر میں کوئی ذی روح نہیں تھا وہ لڑکے کہنے لگے کہ یہاں کوئی نہیں چلو ابھی ہم واپس چلتے ہیں تھوڑی دیر بعد پھر آ جائیں گے۔

شاید تب تک آپ کا دوست آ جائے۔ تو اندازہ ہوا کہ اللہ نے ان کے دل میں اس طوفانی رات کو شاید ہمارے لیے ہی سیر کرنے کا خیال ڈالا۔ انہوں نے ہمیں کانپتے دیکھا تو فوری طور پہ گاڑی کا ہیٹر تیز کر دیا۔ ان میں ایک کچھ انگریزی سے شد بد رکھتا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ ہمارا میزبان کوئی غیر ذمہ دار ہے یاکسی پرابلم میں پھنس گیا ہے۔ ہم تازہ ہی جرمنی میں آئے ہیں۔ وہ کہنے لگے پھر تو تم لوگ یہاں مہمان ہو پہلے ہم تم لوگوں کو پہلے اپنا شہر دکھاتے ہیں۔

اور وہ ہمیں گھنٹہ بھر ادھر ادھر گھماتے رہے۔ پھر ہمیں وہ ایک تہ خانے میں لے گئے کہ وہاں ان میں سے ایک کی جیکٹ پڑی رہ گئی تھی یا پڑی تھی۔ وہ لے لیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ نائٹ کلبوں کا کتابوں میں پڑھ رکھا تھا۔ مگر ڈسکو کا نام اور اس میں لذت کام ودھن اور بے ہنگم موسیقی کا مجھے یورپ پہنچ کر علم ہوا۔ ہمارے لئے وہ ایک عجیب ماحول شراب کی بو اور میوزک کی دھما دھم کہ ہم ایک دوسرے کے پاس بیٹھ کر بھی ایک دوسرے کو سن نہیں پارہے تھے۔ مگر متحرک روشنیوں میں ہماری حیرت واستعجاب ناقابل بیان تھی۔ اور پنجابی مقولہ بتیاں دیکھنے والا اس وقت ہم پہ عین پورا اتر رہا تھا۔ انہوں نے اپنی جیب سے ہمیں زبردستی کولا پلایا۔ بالآخرایک یا ڈیڑھ گھنٹے کے بعد انہوں نے دوبارہ ہمارے مطلوبہ گاؤں کا رخ کیا۔

وہاں جاکر مکان انہوں نے خود جا کر بیل بجائئی۔ جنگل میں گاؤں سے ہٹ کر اندھیرے میں ایک بھوت بسیرا لگ رہا تھا جس کے اندر تاحال کوئی نہیں آیا تھا۔ احسان صاحب کسی نامعلوم مصروفیت کی وجہ سے ہمیں یکسر بھلا چکے تھے۔ جب لمبی بیل پہ بھی گھر کے اندر سے کسی ذی روح کی نیند میں خلل نہیں پڑا ہم نے انہیں کہا کہ آپ لوگ چلے جائیں اب گھر تو مل ہی گیا ہے ہم باہر انتظار کر لیں گے۔ تو ہمارے رضاکار میزبان بے چارے پریشان ہو گئے۔

اور کہنے لگے کہ اس اندھیری رات اور برف میں پتہ نہیں آپ کا دوست کب آئے۔ آپ لوگ تو سردی کے عادی بھی نہیں ہم ادھر ہی رکتے ہیں تم لوگ گاڑی میں ہی بیٹھے رہو۔ جب تک آپ کا دوست آ نہیں جاتا۔ اور وہ بھلے لوگ مزید گھنٹہ بھر ہمارے پاس رکے رہے۔ آخر کار ہم نے انہیں بڑی مشکل سے گویازبردستی روانہ کیا کہ آپ لوگ جاو وہ بس اب آنے ہی والا ہوگا۔ ادھر رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی۔

ان میں سے ایک نے صبح کام پہ بھی جانا تھا۔ بہر حال وہ جانے سے پہلے کہنے لگے کہ ہم آدھے گھنٹے بعد چکر لگا کر دیکھیں گے کہ آپ لوگوں کا دوست آ گیا یا نہیں۔ ہم مکان کے عقب میں ایک سٹور نما برآمد ہ میں جا کر کھڑی سائیکلوں پہ بیٹھ کر احسان صاحب کا انتظار کرنے لگے۔ زندگی میں شاید پہلی بار انتظار کے معنی عملی بلکہ اصلی سمجھ میں آئے۔ بہر حال رات بھیگتی جا رہی تھی اور ہم سراپا انتظار، سردی سے لرزیدہ اس برآمدہ سے باہر نہیں نکلے کہ کہیں ہمارے رضاکار میزبان سچ مچ ہی آ نکلیں اور ہمیں پھر ساتھ ہی نہ لے جانے کی ضد کریں۔

آخر وہ بقول۔ شاعر ستارو تم تو سو جاو پریشاں رات ساری ہے تک نوبت نہیں پہنچی کہ تقریباً ایک بجے رات کو ہمیں اس بھوت بسیرے کے صحن میں گاڑی رکنے کی آواز مژدہ جانفزا کی طرح سنائی دی۔ ہم دونوں اپنی پناہ گاہ سے نکل آئے۔ احسان اور اس کے ساتھ ایک جرمن لڑکا بھی تھا۔ پہلے تو قدرے ٹھٹھکے مگر جلد ہی اپنی حیرانی پہ قابو پا لیا۔ اور چلو بھر معذرت کے بغیر ہمیں گھر کے اندر آنے کی اجازت مرحمت کی۔ جو اس وقت ہمیں نئی زندگی معلوم ہوئی۔

کیونکہ ڈر یہ بھی تھا کہ پتہ نہیں کب آئیں یا بالکل ہی نہ آئیں۔ اور ہم جن کے پاس واپسی کی ٹکٹیں بھی نہیں تھیں۔ کہاں جاتے۔ ایسا شرف میزبانی جس میں یاد آ جائے نانی۔ آدھی رات بیت جانے سردی میں ٹھٹھٹرنے کے بعد جب امید دم توڑ رہی ہو اچانک میزبان آ جائے۔ تو بند ہ سوچتا ہے چلو یار دیر آید درست آید بلکہ اس دن اس فارسی جملہ کے معنی سمجھ میں آئے۔ اگرچہ استثنیٰ تو ہوتے ہی ہیں۔ مگر دور کے بھانجے یا دور کے رشتہ دار کے پاس دور کا سفر کر کے جانے والوں کو یہ قدم بہت سوچ کر اٹھانا چاہیے۔

یا پھر ہمارے جیسی صورتحال میں ’بلا تفنن، ایک گرم کوٹ یا کمبل فالتو ساتھ رکھنا نہیں بھولنا چاہیے۔ با الفاظ دیگر ہر قسم کے حفظ ماتقدم میں اپنا ہی فائدہ ہے۔ اس بات کو لکھنے کا مطلب میزبانوں کا موازنہ نہیں۔ بلکہ ان انجانے مہربانوں کا تذکرہ مقصود ہے جنہوں نے ایثار کی حد کردی۔ میں نے ان میں سے ایک کا پتہ بھی لیا تھا ان دنوں میرے پاس ایک سمارٹ ڈائری ہوا کرتی تھی۔ جو ہر جیب میں سما جاتی تھی۔ بلکہ سب نئے یورپ آنیوالوں کے پاس تب ایسی ڈائریاں ہوتی تھیں جن میں یہاں مقیم افراد کے فون اور پتے ہوتے تھے۔

جن میں سے اکثر کئی نئے آنیوالوں کے لئے لاپتہ رہنا ہی پسند کرتے تھے۔ یہ بات تو حال پہ بھی بعض اوقات صادق آجاتی ہے۔ افسوس کہ وہ ڈائری میرے پہلے سال کے شہر بہ شہر کی در بدری کی نذر ہو گئی اور میں دوبارہ ان مہربانوں سے کبھی رابطہ نہ کر سکا۔ مجھے بعد میں بھی اکثر ایسا اتفاق ہوا۔ کہ مجھے یہاں کے لوگوں میں قطع نظر مذہب وملت گہری انسانی ہمدردی دیکھنے کو ملی۔ اس میں بہر حال کوئی شک نہیں کہ ایسی صورت حال میں اگر آپ کو کوئی فرشتہ نما انسان مل جاتا ہے تو وہ دراصل خدا تعالٰی کا فضل ہی ہوتا ہے۔

ان دونوں جرمن لڑکوں نے جو ہمارے ساتھ ایثار کا مظاہرہ کیا وہ میرے لیے ناقابل فراموش ہے۔ اور اب تک ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے۔ اسی حوالے سے ایک اور واقعہ جو 1982 کا ہے میں اپنے کام پہ ایک چوٹ سے مجروح ہو کر ایک ہسپتال میں جا پہنچا۔ جہاں مجھے چالیس دن رہنا پڑا۔ دوسرے مریضوں اور ان کے عزیزوں کو دو تین ہفتوں میں اندازہ ہوا کہ اس لڑکے کو کبھی کوئی بھی دیکھنے ہسپتال نہیں آیا۔ تو کسی نے اس بات کا اظہار چرچ میں کر دیا۔

تو دوسرے دن اس چرچ کا پادری میری عیادت کے لیے ہسپتال میں آ پہنچا۔ اور تادیر مجھ سے احوال پرسی کرتا رہا۔ مگر میں نہ سمجھ سکا کہ یہ کون ہے۔ جب وہ چلا گیا تو ساتھ والی چارپائی کے مریض نے پوچھا کہ تم اسے جانتے ہو میرے انکار پہ اس نے بتایا کہ یہ ہمارے ٹاؤن کے چرچ کا بشپ ہے۔ جو تیری بیمار پرسی کو آیا تھا اب میری حیران ہونے کی باری تھی مگر بعد میں پتہ چلا کہ اہک ساتھ والے بیڈ کے ادھیڑ عمر مریض کی بیوی نے چرچ میں میرا ذکر کیا تھا۔ مجھے علامہ اقبال کی بات یاد آ گئی کہ کہیں انہوں نے لکھا تھا کہ اسلام تو مشرق میں ہے مگر اس پہ عمل مغرب میں ہو رہا ہے۔ یہاں پر انسانی ہمدردی کی بہت بڑی بڑی مثالیں مل جاتی ہیں۔ مگر دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اسلامی ممالک میں اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں ہے بلکہ اکثر تو معاملہ الٹ نظر آتا ہے

ہمیں اگرچہ یہ دعوٰی ہے کہ ہماری تعلیم سب مذاہب سے افضل ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارا اس پہ اس طرح عمل نہیں جس کا قرآن ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ آج جو کچھ مسلمان امت پہ بیت رہی ہے وہ سب پہ عیاں ہے دوسری طرف بعض مسلمان امیر ملکوں کے سربراہوں کے اللے تللے مغربی پریس میں زیر بحث آتے رہتے ہیں اگر فقط انسانی ہمدردی کے پیش نظر یہ شاہان عرب اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کریں۔ تو ان کی دولت میں خاص کمی کا امکان نہیں۔

مگر یہ توفیق بھی اس وقت ان ممالک کو مل رہی ہے۔ اور اگرچہ کچھ عناصر اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھ رہے۔ مگر پھر بھی ایک باشعور یورپی طبقہ اسلامی تعلیم کے محاسن کی جانب متوجہ ہو رہا ہے۔ اور انشاءاللہ وہ وقت دور نہیں جب اسلام دشمن عناصر جن میں بدقسمتی سے خود مسلمان بھی ملوث ہیں۔ کی ساری عیاریاں دھری رہ جائیں گی۔ اور یورپ کا ایک بڑا طبقہ اسلام قبول کر لے گا۔ اور پھر قرآن کی آیت۔ کنتم خیرامت اخرجت للناس۔ کی مصداق یہ اقوام ہوں گی۔ ان اقوام کی خوبیوں پہ جب خالص توحید اور رسول کریم صل اللہ علیہ و سلم کی محبت کا رنگ چڑھا۔ تو اسلام کا سورج اس دن مغرب سے طلوع ہوگا۔ اور بہت سے بابصیرت لوگ مغرب کے افق سے اس کی پوہ پھوٹتی دیکھ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).