انڈیا میں کسانوں کا احتجاج: انٹرنیٹ پر مظاہروں کے بارے میں گمراہ کن مواد کی بھرمار


انڈین کسان، احتجاج
شمالی انڈیا میں کسانوں کا دارالحکومت نئی دہلی کے نزدیک زراعت کے شعبے میں نئی اصلاحات اور قوانین کے خلاف احتجاج جاری ہے جس کے بارے میں ان کا مؤقف ہے کہ اس سے ان کے روزگار کو شدید خطرہ لاحق ہے۔

لیکن ان مظاہروں کے ساتھ ساتھ اس احتجاج کے بارے میں انٹرنیٹ پر فیک نیوز اور گمراہ کن خبروں کی بھرمار ہو گئی ہے اور ہر کوئی، چاہے وہ کسانوں کے حمایتی ہوں یا ان کے مخالفین، سب ہی اس فیک مواد کو انٹرنیٹ پر شیئر کر رہے ہیں۔

بی بی سی نے اس حوالے سے چند غلط بیانی پر مشتمل دعوؤں کا جائزہ لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا انڈیا میں زرعی اصلاحات کے نئے مجوزہ قوانین کسانوں کی ’موت کا پروانہ‘ ہیں؟

بی جے پی لیڈر کی ٹویٹ پر انتباہ انڈیا میں گمراہ کن خبروں کی روک تھام کا آغاز ہے؟

ہزاروں انڈین کسانوں کا احتجاج جاری، پولیس سے جھڑپیں اور حکومت سے بات کرنے سے انکار

کملا ہیرس نے کسی کی حمایت نہیں کی!

امریکہ کی نو منتخب نائب صدر کملا ہیرس سے منسوب ایک جعلی پیغام فیس بک پر شیئر کیا جا رہا ہے جس میں وہ مبینہ طور پر احتجاج کرنے والے کسانوں کی حمایت کرتی نظر آ رہی ہیں۔

Screen shot of Facebook posting labelled

اس پیغام میں ایک ٹویٹ کا عکس ہے اور اس میں درج پیغام میں لکھا ہے ’ہمیں انڈین حکومت کے رویے پر سخت حیرانی ہے کہ وہ کس طرح مظاہرہ کرنے والے کسانوں پر جبر کر رہی ہے جو کہ صرف اس قانون کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں جو ان کے روزگار کے لیے خطرہ ہے۔‘

’واٹر کینن اور آنسو گیس کے بجائے انڈین حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں سے مذاکرات کرے۔‘

فیس بک نے اس پیغام پر تنبیہ چسپاں کر دی ہے اور کہا کہ یہ غلط بیانی پر مشتمل پیغام ہے۔

کملا ہیرس نے ان مظاہروں کے بارے میں اپنے ذاتی یا سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کبھی کوئی پیغام جاری ہی نہیں کیا ہے۔

بی بی سی کے رابطہ کرنے پر ان کی میڈیا ٹیم نے مختصر جواب میں کہا: ’یہ جعلی ہے۔‘

دوسری جانب کینیڈا کے رکن پارلیمان جیک ہیرس، جن کا کملا ہیرس سے کوئی تعلق نہیں ہے، نے ضرور ٹویٹ کی ہے اور یہ پیغام بالکل وہی ہے جو کملا ہیرس کی جعلی ٹویٹ میں لکھا ہوا تھا۔

کینیڈا کے ہی وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے البتہ عوامی طور پر ان مظاہروں کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ کینیڈا میں انڈین سکھ افراد کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہیں۔

لیکن ان کے بیانات پر انڈیا کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے جس میں کینیڈین وزیر اعظم کے بیان کو ’کم علمی پر مبنی‘ اور ’اندرونی معاملات میں مداخلت‘ قرار دیا گیا ہے۔

پرانی تصویر، نیا جھگڑا

Old picture retweeted by BJP leader

سوشل میڈیا پر ایک اور ٹویٹ بھی شیئر کی جا رہی ہے جس میں ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکھ برادری کے افراد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسانوں کے مظاہرے میں کشمیر کے بارے میں بھی احتجاج ہو رہا ہے۔

یہ ٹویٹ بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی اور اسے تین ہزار سے زیادہ بار ری ٹویٹ کیا گیا اور 11 ہزار سے زیادہ بار لائک کیا گیا۔

اسے ری ٹویٹ کرنے والوں میں حکومتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی خواتین کے سوشل میڈیا سیل کی سربراہ پریتی گاندھی بھی شامل ہیں۔

اس پوسٹ پر دیے گئے کچھ جوابات میں دعویٰ کیا گیا کہ کسانوں کا مظاہرہ ان عناصر کے ہاتھوں بھی استعمال ہو رہا ہے جن کا ایجنڈا کچھ اور ہے جیسے کشمیر کا تنازع، یا ریاست پنجاب میں سکھوں کی آزادی کا معاملہ۔

لیکن جانچ کرنے پر پتا چلا کہ اس ٹویٹ میں شامل تصویر گذشتہ سال اگست کی ہے اور یہ پنجاب کی ایک سیاسی جماعت شرومانی اکالی دل کے فیس بک گروپ پر پوسٹ کی گئی تھی جب انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی تھی جس کی اس جماعت نے مخالفت کی تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پوسٹ اور تصویر کا موجودہ احتجاج سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

فرق جانیے!

لیکن صرف بی جے پی کی جانب سے ہی گمراہ کُن مواد شائع نہیں ہو رہا ہے۔

Congress leaders post old images to show current farmer protests

انڈین یوتھ کانگریس اور اس کے علاوہ کانگریس جماعت کے سینیئر رہنماؤں نے بھی پرانی تصاویر ڈالی ہیں جس میں نظر آتا ہے کہ پولیس مظاہرین کے خلاف جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے رکاوٹیں لگا رہی ہے اور واٹر کینن کا استعمال کیا جا رہا ہے لیکن وہ تصاویر اکتوبر 2018 کی ہیں۔

واضح رہے کہ موجود احتجاج میں بھی پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال ہوا ہے لیکن سوشل میڈیا پر بکثرت شیئر ہونے والی تصاویر نہ صرف دو سال پرانی ہیں بلکہ ان میں دکھایا جانے والا مقام بھی دوسرا ہے۔

جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ یہ تصاویر اتر پردیش ریاست کے کسانوں کے احتجاج سے لی گئی تھی جنھوں نے دو سال قبل اپنے احتجاج میں دہلی کا رُخ کیا تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ زرعی قرضوں کو معاف کیا جائے۔

اُن کسانوں کو اتر پردیش اور دہلی کی سرحد پر ہی روک لیا گیا تھا جو کہ شہر کی مشرقی سمت میں ہے اور دوسری جانب موجودہ مظاہرے دہلی کے شمال میں ہو رہے ہیں جو ریاست پنجاب کی جانب لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32559 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp