انڈین کسانوں کی زرعی اصلاحات کے خلاف ملک گیر ہڑتال: ’ہم اپنی زمین اور اپنی آمدنی کھو دیں گے‘


کسان ہڑتال
انڈیا میں کسان منگل کے روز زرعی شعبے میں مرکزی حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی اصلاحات کی مخالفت میں ملک گیر ہڑتال کر رہے ہیں۔

ستمبر کے مہینے میں جب سے زراعت کے شعبے میں ’بازار کو سہولیات فراہم کرنے والے‘ قوانین متعارف کروائے گئے ہیں، اس کے بعد سے کسان اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور گذشتہ 12 دنوں سے وہ ہزاروں کی تعداد میں دارالحکومت دہلی میں داخل ہونے والے مختلف راستوں پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

کسانوں کی اکثریت کا تعلق شمالی ریاستوں پنجاب اور ہریانہ سے ہے اور یہ ملک کی امیر ترین زرعی برادریاں ہیں۔ ان کی مہم کو سوشل میڈیا پر انڈین پنجاب اور سمندر پار موجود انڈینز کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔

پنجاب اور ہریانہ کو انڈیا میں خوراک کی فراہمی کے لیے نہایت اہم تصور کیا جاتا ہے اور یہاں کے عمر رسیدہ کسانوں پر سخت سردی میں آنسو گیس اور واٹر کینن کے استعمال کی تصاویر سے انھیں زبردست عوامی ہمدردی حاصل ہو سکتی ہے۔

حکومت کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور ناکام ہونے کے بعد اس ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔ مذاکرات کا اگلا دور نو دسمبر کو متوقع ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تین لاکھ خودکشیاں: ’کوئی اورجگہ ہوتی تو ملک ہل جاتا‘

’ٹروڈو نے انڈین کسانوں کی حمایت سکھ حامیوں کو خوش کرنے کے لیے کی‘

ہزاروں انڈین کسانوں کا احتجاج جاری، پولیس سے جھڑپیں اور حکومت سے بات کرنے سے انکار

انڈین کسانوں کے حق میں کملا ہیرس نے ٹویٹ کی یا کسی اور ہیرس نے؟

کسانوں کی اس ہڑتال کو ملک کی 24 مختلف پارٹیوں نے حمایت دی ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے پاس کوئی مسئلہ نہیں رہا تو وہ کسانوں کے مسئلے میں کود پڑی ہے۔

حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا مؤقف ہے کہ زرعی شعبے میں زیادہ نجی کردار کی اجازت دینے والی ان اصلاحات سے کسانوں کی آمدنی متاثر نہیں ہو گی بلکہ یہ ان کی بھلائی کے لیے ہے۔

لیکن کسان ان کی باتوں اور دلائل سے متفق نہیں ہیں اور انھوں نے ہزاروں کی تعداد میں انڈیا کی مختلف ریاستوں سے پیدل اور ٹریکٹرز پر دارالحکومت نئی دہلی کا رخ کیا۔

یہاں وہ رام لیلا کے تاریخی میدان میں اکھٹا ہو کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرنا چاہتے تھے لیکن حکومت نے انھیں دلی میں داخل ہونے سے روک دیا اور ان کے لیے ایک جگہ مختص کی لیکن کسانوں نے وہاں جانے سے انکار کر دیا۔

کسان ہڑتال

کسان تنظیموں کے مطابق اب تک انھیں آٹھ دسمبر کی ہڑتال کے لیے مجموعی طور پر 24 پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن انھوں نے حمایت دینے والی تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس تحریک کا سیاسی استعمال نہ کریں۔

کسانوں کے مطالبات کو درست ٹھہراتے ہوئے حزب اختلاف کی اہم پارٹی کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں نے علاقائی سطح پر مضبوط پارٹی ڈی ایم کے، ٹی آر ایس، ایس پی، بی ایس پی، آر جے ڈی، شیو سینا، این سی پی، اکالی دل، عام آدمی پارٹی، جے ایم ایم اور گپکر اتحاد نے ’بھارت بند‘ کی حمایت کی ہے۔

پیر کی شام میڈیا سے بات کرتے ہوئے کسان یونین (انقلابی) کے صدر درشن پال سنگھ نے کہا: ’ہم تمام سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے ہمارے مطالبات کی حمایت کی، انھیں جائز سمجھا۔ لیکن ہم ان سے اپیل کریں گے کہ جب وہ منگل کے روز ’بھارت بند‘ کی حمایت میں آئیں تو وہ اپنے پرچم اور بینر گھر پر ہی چھوڑ کر آئیں اور صرف کسانوں کی حمایت کریں۔‘

دریں اثنا وزارتِ داخلہ نے منگل کو ’بھارت بند‘ کے دوران تمام ریاستوں اور مرکزی علاقوں میں امن و امان قائم رکھنے اور تحمل برقرار رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ کووڈ 19 کے رہنما اصولوں پر عمل کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔

کسان ہڑتال

ان اصلاحات میں کیا کہا گیا ہے؟

یہ متنازع اصلاحات زرعی اجناس کی فروخت، قیمت اور ذخیرہ کرنے کے حوالے سے موجود قواعد کو نرم کر دیں گے۔ انڈیا کے کسان ان قواعد کی وجہ سے دہائیوں تک آزادانہ مارکیٹ کی قوتوں سے محفوظ رہے ہیں۔

ان نئے قوانین سے نجی خریدار بھی مستقبل میں فروخت کے لیے ضروری اجناس ذخیرہ کر سکتے ہیں، جو کہ اس سے پہلے صرف حکومت سے منظور شدہ ایجنٹ ہی کر سکتے تھے۔

اس کے علاوہ ان میں ٹھیکے پر زراعت کے قواعد بھی بنائے گئے ہیں جس میں کسان کسی مخصوص خریدار کی طلب کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی پیداوار میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔

سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ کسان اپنی پیداوار براہِ راست نجی شعبے (زرعی کاروبار، سپرمارکیٹس اور آن لائن سودا سلف کی ویب سائٹس) کو مارکیٹ قیمتوں پر فروخت کر سکیں گے۔ زیادہ تر انڈین کسان اس وقت اپنی پیداوار کا زیادہ تر حصہ حکومت کے زیر انتظام تھوک منڈیوں میں امدادی قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔

کسان ہڑتال

یہ منڈیاں مارکیٹ کمیٹیاں چلاتی ہیں جن میں کسان، بڑے زمیندار اور تاجر یا 'کمیشن ایجنٹ' بھی ہوتے ہیں۔

ان ایجنٹوں کا کام اجناس کی فروخت کے لیے آڑھتی کا کام کرنا، ذخیرے اور نقل و حمل کا انتظام کرنا اور یہاں تک کے سودے بازی بھی ہے۔

کم از کم کاغذات کی حد تک تو یہ اصلاحات کسانوں کو اپنی پیداوار منڈیوں کے اس نظام سے باہر فروخت کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔

تو پھر کسانوں میں اشتعال کیوں ہے؟

کسان اس حوالے سے غیر یقینی کے شکار ہیں کہ نفاذ کے بعد کیا صورتحال ہو گی۔

تحریک کے مرکزی رہنماؤں میں سے ایک گُرنام سنگھ چارونی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘اگر آپ نے بڑے کاروباروں کو قیمتوں کا تعین کرنے اور اجناس خریدنے کی اجازت دی تو ہم اپنی زمین اور اپنی آمدنی کھو دیں گے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘ہمیں بڑے کاروباروں پر یقین نہیں ہے۔ آزاد منڈیاں اُن ممالک میں کام کرتی ہیں جن میں بدعنوانی کم اور ضوابط زیادہ ہوں۔ یہ ہمارے لیے یہاں قابلِ عمل نہیں ہیں۔’

کسان ہڑتال

کسانوں کو یہ تشویش ہے کہ ان اصلاحات سے بالآخر تھوک منڈیاں اور امدادی قیمتیں ختم ہوجائیں گی جس کے باعث ان کے پاس کوئی سہارا نہیں بچے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر وہ کسی نجی خریدار کی پیشکش کردہ قیمت سے مطمئن نہ ہوں تو وہ منڈی جا کر اسے فروخت نہیں کر سکیں گے، اور نہ ہی منڈی کی قیمت کو بنیاد بنا کر خریدار سے بھاؤ تاؤ کر سکیں گے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ منڈی کا نظام جاری رہے گا اور وہ موجودہ امدادی قیمتیں واپس نہیں لیں گے لیکن کسانوں کو اس پر شبہات ہیں۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک کسان ملتان سنگھ رانا نے بی بی سی پنجابی کو بتایا: ‘پہلے کسان ان نجی خریداروں کی جانب راغب ہوں گے کیونکہ یہ بہتر قیمتوں کی پیشکش کریں گے۔ حکومتی منڈیاں پھر بند ہونے لگیں گی اور چند سالوں کے بعد یہ خریدار کسانوں کا استحصال کرنا شروع کر دیں گے۔ ہمیں یہی خوف ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp