بھارت تباہی کی راہ پر


اگرچہ دنیا کے بڑے ممالک نے اپنے مفادات کے لیے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور بھارت میں بھی لوگ اس کی موجودگی سے انکار کر رہے ہیں مگر سچ یہ ہے بھارت ہندو قوم پرستی، نسل پرستی، تعصب، انتہاپسندی اور تشدد پسندی کا مرکز بن چکا ہے۔ کانگریس کے سرکردہ رہنما راہول گاندھی کے بقول شرمناک حقیقت یہ ہے کہ دلت، مسلم اور قبائل یہاں انسان ہی نہیں سمجھے جاتے۔

اقلیتوں، کمزوروں اور عورتوں کے خلاف تشدد تو اکثر ملکوں میں ہوتا ہے مگر بھارت میں یہ سرکاری سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی رکھنے والے ایٹمی ملک بھارت میں نازی نظریات سے متاثر آرایس ایس کا قبضہ قائم ہو چکا۔ بھالوں اور لاٹھیوں سے مسلح انتہاپسند ہندووں کے دستے سرکاری سرپرستی یا خاموش اعانت سے کمزور اقلیتوں پر تشدد کرتے ہیں۔

یہاں انتہاپسندی اور عدم برداشت سے تمام اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی سلامتی اور خطے میں امن کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ بھارت نفرت، مذہبی انتہا پسندی اور نسل پرستی کے جس راستے پر چل پڑا ہے اس کا انجام خون ریزی اور تباہی ہے۔

تاریخ شاہد ہے جس قوم نے بھی یہ راستہ اختیار کیا ہے اسے نقصان، انتشار اور تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ نازی جرمنی، روانڈا، میانمار، سابقہ یوگوسلاویہ وغیرہ میں اس پالیسی کا نتیجہ سب دیکھ چکے۔ بھارت نے اگر اپنا طرزعمل درست نہ کیا تو یہ بھی تباہی سے نہیں بچ سکے گا۔

مہاتما گاندھی اپنی کتاب ”میرے خوابوں کا ہندوستان“ میں لکھتے ہیں۔ ”مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان پوری دنیا کے لیے مشعل راہ بن کر ابھرے گا۔ اگر ہندوستان تشدد کے نظریہ کو قبول کر لیتا ہے، تو یہ میرے لئے آزمائش کی گھڑی ہوگی۔ میرا مذہب کسی جغرافیائی حدود کا محتاج نہیں ہے۔ میری حب الوطنی میرے مذہب کی تابع ہے۔ میری پوری زندگی (عدم تشدد کے فلسفے ذریعے ) ہندوستان کی خدمت کے لئے وقف ہے۔ جس دن ہندوستان تشدد میں یقین کا اعلان کردے گا، میں ہندوستان چھوڑ دینے کو ترجیح دوں گا۔ تب ہندوستان پر مجھے کوئی فخر نہیں ہوگا“ ۔

گاندھی آج زندہ ہوتے تو وہ بھارت کی انتہاپسندانہ کایاپلٹ پر یقیناً خون کے آنسو رو رہے ہوتے اور اسے کب کا چھوڑ چکے ہوتے کیونکہ تشدد اب بھارتی سرکار کی بنیادی شناخت اور پالیسی بن چکی ہے۔ آج کے بھارت میں کمزوروں، عورتوں اور اقلیتوں پر ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے گوتھم، نانک، چشتی اور کبیر کی روحیں بھی یقیناً فریاد کناں ہوں گی۔

بھارت بڑے عرصے تک اپنی جمہوریت اور سیکولرازم پر نازاں تھا۔ اب بھی پرامن بقائے باہمی، رواداری اور تمام مذاہب کے عقائد اور رسومات کا احترام ہی واحد راستہ ہے لیکن بدقسمتی سے وہ نسلی، قومی، فرقہ ورانہ اور مذہبی تعصبات سے چھٹکارا نہیں پاسکا۔ بھارت اگر خطے اور دنیا میں قائدانہ کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے تو اسے نفرت، تنگ نظری اور ظلم کے بجائے محبت، معافی اور ہمدردی کا نمونہ بننا ہوگا۔

بھارت میں جمہوریت، رواداری اور برداشت امن کے لیے ناگزیر ہے مگر بی جے پی اور مودی اپنے سیاسی مفاد کے لیے نفرت، ہندو قوم پرستی اور انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ بھارتیا جنتا پارٹی کو بے شک دو دفعہ نفرت اور انتہاپسندی کے بیانیہ سے حکومت ملی مگر بھارتی سیکولرازم اور جمہوریت کا چہرہ مسخ ہو کر رہ گیا۔

بھارتی ہندو اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی خود کو خطرے میں سمجھتا ہے۔ مسلسل جھوٹے پروپیگنڈے سے اس کے خوف، ردعمل کی نفسیات اور انتہاپسندی کو مہمیز دی جا رہی ہے جو بھارت کی سیکولر ریاست، سیاست اور تکثیری جمہوریت کے لیے تباہی کا پیغام ہے۔

پہلے بھارت ایک سیکولر معاشرہ تھا جو اپنی تکثیریت اور تنوع پر فخر کرتا تھا۔ بھارتی آئین بھی سیکولر بھارت کی بات کرتا تھا۔ بھارتی شہریت خون، ذات اور عقیدے پر نہیں بلکہ کسی شخص کے یہاں پیدائش کی بنیاد پر دستیاب تھی۔ بھارتی سماج میں ہندوتوا کے علمبردار تو قیام پاکستان سے پہلے بھی موجود تھے اور بھارت کو صرف ہندووں کی سرزمین کہتے تھے مگر 1980 تک یہ طبقہ اقلیت میں تھا۔

مگر نوے کی دہائی میں بابری مسجد کے انہدام اور رام مندر کی تعمیر کی مہم نے انتہاپسند بی جے پی کو ایک بڑی پارٹی میں تبدیل کر دیا۔ آر ایس ایس کے کارکن نریندرا مودی اس کے بعد گجرات کے وزیر اعلٰی بنے تو وہاں سرکاری سرپرستی میں مسلم کش فسادات میں دو ہزار لوگ مارے گئے۔ اس میں مودی حکومت کے ملوث ہونے کی وجہ سے مودی پر امریکہ کے دروازے بند ہو گئے۔

یہ ایک فیصلہ کن موڑ تھا جس پر آزاد دنیا کو ہندوستان کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا لیکن سب خاموش رہے۔ بی جے پی 1989 تک ایک چھوٹی پارٹی تھی تاہم پھر اس نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے مہم چلائی جس کے بعد اس کی سیاسی پوزیشن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی حتیٰ کہ 2014 میں اسے پارلیمنٹ میں 282 نشستیں اور 2019 میں 303 نشستیں ملیں۔

مودی اور بی جے پی نے اقتدار تک پہنچنے کے لیے پاکستان اور مسلمانوں کو تمام خرابیوں کا جڑ بناکر پیش کیا، ان سے وسیع عوامی نفرت پروان چڑھائی اور پھر خود کو ان سے انتقام، ہندو دھرم کے تحفظ اور بھارت کو خالص ہندو ریاست بنانے کے لیے ناگزیر بناکر پیش کیا۔

نفرت اور انتہاپسندی کی یہ مہمات مودی حکومت کی آشیرباد، سرکاری اداروں اور مشہور نیوز چینلز کے تعاون سے چلائی اور پھیلائی جا رہی ہیں اور عدالتیں بھی اکثر اس پاپولسٹ لہر میں نامناسب اور متعصبانہ فیصلے دے کر یا انسانی حقوق کی اپیلوں کی شنوائی نہ کر کے ہمنوا ہیں۔

واضح رہے بی جے پی نے بابری مسجد کیس اور فرانس سے رفال جنگی جہازوں کے سودے کی تحقیقات کے لیے دائر درخواستوں پر فیصلے دینے والے چیف جسٹس رنجن گوکوئی کو راجیہ سبھا کا رکن بنا دیا جو مفادات کے ٹکراؤ کا واضح ثبوت ہے۔ ان کے کئی فیصلوں سے مودی کو سیاسی فائدے ملے۔

بھارت میں عدم برداشت، تنگ نظری اور تشدد کی طرف سفر ایک عرصے سے جاری ہے۔ دسمبر 2019 سے مودی حکومت نے کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور کشمیر کو اب تک جیل بناکر رکھا ہے۔ لیکن اقلیتوں اور دلتوں کے ساتھ بھارت میں اس سلوک کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ آئیے چند واقعات پر غور کرتے ہیں۔

پچھلے مہینے ہندوستان کی مشہور زیورات کمپنی تانشق نے پینتالیس سیکنڈ کا ایک اشتہار بنایا جس میں ایک بین المذاہب شادی دکھائی گئی تھی کہ کیسے ایک مسلم خاندان ہندو رسومات ادا کرتا ہے تاکہ ان کی امید والی ہندو بہو خوش ہو سکے۔ اس اشتہار کے خلاف ”محبت جہاد“ کے عنوان سے فوراً ایک منظم مہم شروع ہوئی اور اس کمپنی اور اشتہار میں کام کرنے والے اداکاروں کو دھمکیاں دی گئیں۔ اس کمپنی نے چنانچہ اپنے کارکنوں کی سلامتی کے لیے اشتہار چوبیس گھنٹے کے اندر ہی واپس لے لیا۔

اکتوبر ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کو انڈیا میں اپنے دفاتر بند کرنے پڑے کیوں کہ بھارتی حکومت سرکاری معاملات میں شفافیت کے لیے اس کے مطالبات، دہلی کے مسلم مخالف فسادات میں پولیس کی طرف سے ہندو بلوائیوں کی مدد اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بھارتی حکومت کے کردار پر اس کے جاری کردہ رپورٹوں اور امریکی کانگریس میں بھارتی حکومت کے خلاف اس کی بریفنگ سے ناراض ہو گئی تھی۔

مودی حکومت بھارت کو ایک پارٹی ریاست بنانا چاہتا ہے۔ اس کے آنے کے بعد بھارت میں اختلاف اور تنقید کے لیے برداشت ختم ہو گئی ہے اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کو غدار اور پاکستان کا ایجنٹ کہا جاتا ہے۔

مودی حکومت کے امتیازی قوانین کے خلاف بات کرنے پر دہلی کی جواہر لعل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا گیا اور انہیں جیل بھیجا گیا۔ ستائیس سالہ کشمیری طالبہ سفوراً زرگر، جو امید سے ہے ، بھی شہریت ترمیمی بل کے خلاف بولنے پر جیل میں ہے۔ شرجیل امام کے خلاف استغاثہ نے بغاوت اور غداری کے مقدمہ میں مشہور ماہر سیاست پال براس کی کتاب پڑھنے کا بھی ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے ان کے بقول وہ انتہاپسند بنا۔ تنگ نظری کے خلاف بولنے کئی آزاد منش زعماء مثلاً ایم ایم کلبرگی، نریندرا ڈابھولکر، گوویند پنساری اور گوری لانکیش کو مبینہ طور پر دائیں بازو کے ہندو انتہاپسندوں نے قتل کیا۔

بی جے پی کا طلباء ونگ لبرل ماہرین تعلیم کو نشانہ بناتی ہے۔ فلموں اورکتابوں پر پابندی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت کے قیام کے بعد بھارت میں شہری آزادیوں، اظہار کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور اکیڈمک آزادی وغیرہ کا گراف ماضی کے مقابلے میں تقریباً تین گنا نیچے آیا ہے۔

اکتوبر میں ہی مشہور بھارتی اداکارہ دیپکا پڈوکون سے بھارت کی نارکاٹیکس کنٹرول بورڈ نے چھ گھنٹے تک پوچھ گچھ کی۔ وجہ بظاہر تو منشیات کی تحقیقات بتائی گئیں لیکن دراصل اس کی وجہ یہ تھی کہ دیپکا نے جنوری میں متنازعہ شہریت قانون کے خلاف طلباء تحریک سے اظہار یکجہتی کیا تھا۔

اس اقدام کے ذریعے اسے اور باقی بالی ووڈ کارکنوں کو بھی لائن پر آنے کا پیغام دیا گیا۔ بی جے پی کے ایک رکن نے پارلیمنٹ میں پچھلے مہینے بالی ووڈ کو منشیات کا اڈا قرار دیا جس پر ایک مشہور اداکارہ بولی کہ یہ بالی ووڈ کو بدنام اور خاموش کرنے کی کوشش ہے کیوں کہ ہم عوام کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس سال گاندھی کے جنم دن تیس جنوری کو ایک ہندو نوجوان نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف پرامن ریلی پر فائرنگ کی۔ لیکن پولیس خاموش تماشائی کے طور پر کھڑی رہی۔ پچھلے سال کے نیوزی لینڈ کے شوٹر کی طرح اس نے اپنی کچھ کارروائی فیس بک پر براہ راست دکھائی۔ اس کے کور فوٹو میں وہ تلوار لیے کھڑا تھا اور اس کی فیڈ میں لکھا تھا کہ وہ شاہین باغ کے احتجاجی مظاہرین سے بدلہ لینا چاہتا ہے۔ اس نے فیس بک پر غداروں کو مارنے کے نعرے لگائے اور لکھا اگر وہ قوم پرست کے مخالفین کو قتل کرتے ہوئے مرجائے تو اس کی لاش کو زعفران میں چھپایا جائے۔

ظاہر ہے اس شوٹر کو بھی وہی نفرت اکسا رہی تھی جس نے گاندھی کو قتل کروایا۔ یاد رہے بہتر سال قبل ہندو قوم پرست نتھو رام گوڈسے، جو آج کی بی جے پی کے نظریاتی سرچشمے آر ایس ایس کا کارکن تھا، نے مسلمانوں کی طرف جھکاؤ اور نرمی دکھانے پر گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔ گوڈسے کو اب ہندو دھرم کے شہید اور ہیرو کے طور پر یاد کیا جا رہا ہے۔

دہلی انتخابات کی مہم میں مودی حکومت کے ایک وزیر انوراگ ٹھاکر نے نعرے لگوائے ”دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو۔“ اس کے بعد امیت شاہ، مودی کے متوقع جانشین، نے بھی ایک جلسے میں کہا کہ اتنے غصے سے انتخابی بٹن دباؤ کہ شاہین باغ والوں کو پتا چلے۔

واضح رہے شاہین باغ میں شہریت ترمیمی بل کے خلاف مسلمان خواتین احتجاج میں بیٹھی تھیں۔ دہلی کے علاقے موج پور میں متنازعہ قانون شہریت کے خلاف خواتین کے احتجاج پر حملہ ہوا اور بی جے پی اور آر ایس ایس کے انتہا پسندوں اور پولیس نے مل کر مظاہرین پر تشدد کیا جب کہ مسلمانوں کے مکانات، دکانیں اور گاڑیاں بھی جلائی گئیں۔

مودی جب 2014 میں وزیر اعظم بنا تو وہ کافی احتیاط کرتا تھا۔ وہ ”سب اکٹھے اور ترقی سب کے لیے“ کی بات کرتا تھا۔ اگرچہ آہستہ آہستہ ہندو ریاست کی بات ہونے لگی اور ہندو انتہاپسندوں کے ہاتھوں ”گاؤ ماتا“ کے تحفظ کے نام پر مسلم مخالف اقدامات کی انہوں نے مذمت نہیں کی لیکن جب 2019 میں اسے بھاری اکثریت ملی تو اس نے سارے نقاب اتار پھینکے اور بھارت کو مکمل ہندو ریاست بنانے پر تل گیا۔

اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جوتے کی نوک ہر رکھتے ہوئے اور بھارتی آئین میں کشمیر کو حاصل خودمختار حیثیت منسوخ کر کے اسے بھارت کا نارمل حصہ بنا دیا اور کشمیر کو عملاً جیل اور عقوبت خانے میں تبدیل کر دیا۔ نہرو نے کہا تھا ”کشمیری اگر ہمارے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تو وہ اپنی راہ لیں اور ہم اپنی۔ ہم زور زبردستی کی شادی اور اتفاق نہیں چاہتے“ ۔ مگر مودی نے تو کشمیر کو بھارتی آئین میں حاصل لولی لنگڑی خودمختاری ختم کردی اور وہاں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے پر کام شروع کر دیا۔

دسمبر 2019 میں بھارت کے شہریت قانون میں ترمیم کی گئی جس کے ذریعے چھ پڑوسی ملکوں سے بھارتی شہریت کے خواہشمندوں کو اجازت دی گئی مگر مسلمانوں کو اس سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد مختلف ہندوستانی ریاستوں میں قومی رجسٹر کی مہم شروع کی گئی جس کے ذریعے ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوجانے والوں کی شہریت منسوخ کرنے کا خطرہ پیدا ہوا۔

آر ایس ایس عرصے سے کہتی رہی ہے کہ بھارت کو ایک ہندو ریاست ہونا چاہیے۔ وہ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بن جانے یا بھارت سے نکال دینے کی بات کررہی ہے۔ وہ ”کورونا جہاد“ اور ”لؤ جہاد“ کا غیر مستند پروپیگنڈا کر کے مسلمانوں کو بدنام کررہی ہے۔

اس وقت بھارت کے اکثر ہندو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں یا ان سے ڈرتے ہیں۔ بھارت میں میڈیا بھی اسلاموفوبیا بڑھانے اور مودی حکومت کی خوشنودی میں لگا ہوا ہے۔

بی جے پی کے ایک رہنما سبرامنیم سوامی نے مسلمانوں کو بھارت کے لیے خطرہ قرار دیا، انہیں ہندووں کے برابر کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کیا اور ان سے ووٹ کا حق چھین لینے کا مطالبہ کیا۔ اس نے کہا کہ جس ملک میں مسلمانوں کی آبادی تیس فی صد سے زائد ہوتی ہے وہ ملک خطرے میں پڑجاتا ہے۔

جب اکثریت والے طاقت ور گروہ کے اندر نفرت اور عدم برداشت اتنی ہو جائے تو صورت حال انتہائی خطرناک ہوجاتی ہے۔ اس لیے معروف بھارتی مصنفہ اور سیاسی کارکن ارون دتی رائے نے بھی چند مہینے قبل کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کے لیے صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہے۔

ان تمام واقعات سے واضح ہوجاتا ہے کہ بھارت ایک فسطائی ریاست بننے کی راہ پر ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں صدر ٹرمپ نے اپنے اقتدار کی بھوک میں کس طرح امریکی جمہوریت کو شدید تناؤ اور خطرے سے دوچار کیا۔ اس کے دوست مودی کو بھی بھارت کی بین الاقوامی شہرت اور جمہوری خصوصیات کی کوئی فکر اور لحاظ نہیں۔

مشہور اخبارات جیسے اکانومسٹ، دی پوسٹ، نیو یارک ٹائمز، وال سٹریٹ جرنل وغیرہ میں مودی کے انتشاری ایجنڈا اور عدم برداشت پر سخت تنقید کی جاتی رہی ہے لیکن مودی کے پاپولسٹ بیانیہ کی ضد مزید پکی ہوتی جا رہی ہے۔ وہ بیرون ملک گاندھی کی پرامن تعلیمات کی بات کرتا ہے لیکن ملک کے اندر انتہاپسندی کا پرچارک ہے۔ پچھلے دنوں مودی نے نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن کو کال کی۔ بائیڈن کی ٹیم بولی کہ من جملہ دیگر چیزوں کے دونوں رہنماؤں نے اندرون ملک اوربیرون ملک جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اپنے مشترکہ ویژن پر بات کی۔ تاہم مودی کے دفتر کے بیان میں یہ حصہ غائب تھا۔

مشہور بھارتی صحافی خشونت سنگھ نے اپنے ایک کالم میں سچ کہا تھا کہ ”نفرت کی بنیاد پر بننے والا گروہ ڈر اور خوف پیدا کر کے اپنا وجود برقرار رکھتا ہے۔ بھارت میں جو لوگ سکھ اور مسلمان نہ ہو کر خود کو محفوظ سمجھتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ایک وقت آئے گا جب ہندو بالادستی کا نظریہ لے کر پیدا ہونے والی تنظیمیں اپنے علاوہ سب کے لئے خطرہ ہوں گی“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).