قندیل ذات


شب سیاہ میں روشنی کی ہلکی سے لکیر امید جاوداں سے کسی طور کم نہیں ہوتی۔ گھنے جنگلوں اور بے آب و گیاہ صحراؤں میں دور کہیں دور منارہ نور سے ہلکی سی روشنی کی کرن کا نظر آجانا ایسے ہی ہے جیسے موت کو حیات بخش دی جائے۔ یقین جانیے صحراؤں میں سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ جب صحرا میں مسافر راستہ کھو دیتے ہیں تو انہیں پانی مل جانے کی اتنی خوشی محسوس نہیں ہوتی جتنا کہ نشان منزل کے لئے روشنی کی ایک کرن کی۔ روشنی کی قدر و اہمیت کو ایک کہانی سے اگر بیان کیا جائے تو میری بات کافی حد تک قارئین تک پہنچ پائے گی۔

مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے اپنی اردو یا انگریزی کی درسی کتب میں ایک کہانی بلبل اور جگنو ضرور پڑھ رکھی ہوگی۔ کہانی کا مختصر یہ ہے کہ ایک بلبل سیاہ رات میں اپنے گھونسلے کا راستہ بھول جاتا ہے۔ تھک ہار کر وہ ایک درخت کی شاخ پر اپنا ڈیرہ ڈال دیتا ہے۔ ایسے میں اس کے پاس ایک جگنو آتا ہے۔ وہ بلبل کو اداس دیکھ کر اس سے پوچھتا ہے کہ اے بلبل تم اداس اداس اس شاخ پر کیوں بیٹھے ہو، جبکہ رات ہو چکی ہے تم اپنے گھر کیوں نہیں گئے۔

اس پر بلبل جواب دیتا ہے کہ میں اپنے گھر یعنی گھونسلہ کا راستہ بھول گیا ہوں۔ اس لئے اداس بیٹھا ہوں کہ گھر کیسے جاؤں گا۔ جگنو نے بلبل کی اداسی محسوس کرتے ہوئے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے مجھے روشنی سے نواز رکھا ہے۔ میں آپ کے آگے آگے اڑتا ہوں اور تم میرے پیچھے پیچھے آجانا۔ اس طرح آپ اپنے گھر پہنچ پاؤ گے۔ دونوں نے درخت کی شاخ سے اڑان بھری اور بلبل کے گھونسلہ تک پہنچ گئے۔

میں نے اس کہانی سے جو سبق حاصل کیا وہ یہ تھا کہ جگنو کی روشنی اگرچہ اس قدر نہیں ہو تی کہ وہ راہ چلتے بھولے ہوئے مسافروں کو راستہ دکھائے لیکن چونکہ وہ جگنو کے اندر کی روشنی ہوتی ہے اس لئے اماوس کی راتوں میں اس کی چمک دمک کہیں زیادہ دکھائی دینے لگتی ہے۔ گویا ذات کے اندر سے پھوٹنے والی روشنی کی اہمیت سیاہ راتوں میں اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ انسان کی ذات کے اندر سے پھوٹنے والی روشنی دراصل تقویٰ کو نور ہوتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ تقویٰ کیا ہے۔ تقویٰ اصل میں طہارت، پاکیزگی، زہد و ہدایت کا نام ہے۔ اور یہ ذات نفی سے پیدا ہوتا ہے۔ گویا ذات نفی، تقویٰ کا نام ہے۔ لیکن تقویٰ کی سب سے بہتر تعریف صوفیا کرام کے ہاں ملتی ہے۔ تصوف میں کہا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو سب سے کمتر خیال کرنے کا نام تقویٰ ہے۔ تقویٰ کبھی بھی اس دل میں مسکن پذیر نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں علم اور عمل کی روشنی گھر نہ کر لے۔ کیونکہ علم کی قدرومنزلت عمل کے بغیر صفر ہے۔ اگر آپ کے پاس علم ہے لیکن اس پر عمل نہیں تو یوں سمجھیں کہ خالی ڈھول کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جس کی آواز چند ساعتوں کے لئے تو کانوں کو بھلی محسوس ہوتی ہے لیکن کچھ ہی دیر بعد یہی آواز شور محسوس ہونے لگتی ہے۔ علم اور علم کے تعلق کو بایزید بسطامی سے بہتر کسی نے آج تک بیان نہیں کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ

”میں نے تیس سال مجاہدہ کیا لیکن میں نے علم پر چلنے یعنی عمل سے زیادہ سخت چیز کوئی نہیں پائی، مجھ پر آگ پر چلنا آسان تھا لیکن علم پر چلنا مشکل“

اب دیکھنا یہ ہے کہ اعمال کی اہمیت کیا ہے، عبادات کا مغز کیا ہے اور اعما ل وعبادات کا آپس میں تعلق کیا ہے؟ اہل علم قرآن و حدیث کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ عبادات سے افضل ہے اعمال کا انسانی شخصیت میں ہونا۔ کیونکہ عبادات تو اعمال کا ہی نام ہے جیسے کہ اگر ہم غور کریں کہ قرآن میں کتنی بار نماز کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ نماز بھی اعمال کے بغیر ممکن نہیں ہے، وہ اس لئے کہ نماز تب تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک آپ معمول میں آنے والے نمازیوں کی غیر حاضری کے بارے میں ان کے گھر جا کر ان کی خیریت معلوم نہیں کر پاتے۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ نماز اور اس کی اہمیت نماز کی ادائیگی کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ اگر نماز کو محض عبادت کی حد تک ہی محدود کرنا ہوتا تو پھر یہ کبھی نہ کہا جاتا ہے جب نماز ادا کر چکو تو اپنے دائیں بائیں دیکھو کہ کون آج نماز میں نہیں آ سکا اور اس کی وجہ دریافت کرو۔

گویا خدمت ایسی عبادت ہے جو انسانیت کے درجہ اولیٰ پر قائم ہے۔ صوفیا تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اللہ کو ملنے کا مختصر راستہ جہاں نوافل کی ادائیگی ہے وہاں خدمت انسانیت بھی ہے۔ یعنی

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا کوش ہوگا عرش بریں پر

انسانیت کی خدمت کے لئے فی زمانہ ہم نے یہ طے کر رکھا ہے کہ دولت و ثروت اور زکٰوۃ و صدقات دے کر ہی انسانیت کی خدمت ہو سکتی ہے مگر ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کبھی کبھار انہیں محض پیار بھرے چند بول کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں دلاسا اور لفظی سہارا چاہیے ہوتا ہے۔ مگر ہم تو پھر انسان ہیں اگر کسی کو زکٰوۃ دے کر انہیں جتایا نہ جائے ہمیں سکون ہی نہیں ملتا۔ اگر کسی کو صدقہ دے کر اس کی عزت نفس کو مجروح نہ کریں ہمارے دل کو تسلی ہی نہیں ہوتی۔

ایسے صدقات و خیرات اور زکٰوۃ سے تو بہتر ہے کہ انہیں بھوکا ہی مرنا دیا جائے کہ جنہیں دے کر غریبوں کو عزت نفس کو مجروح کیا گیا ہو۔ صدقہ دیتے ہوئے پیار بھرے چند بول مستحق افراد کی شخصیت میں محنت کرنے کا جذبہ بیدار کر تا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جو ایک سال زکوہ لے رہا ہے وہ اہل ثروت کے چند میٹھے بول سے متاثر ہو کر اتنی محنت کرے کہ آئندہ سال وہ کسی اور کی خدمت کر رہا ہو۔ لہذا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ انسانی ذات کے اندر کی روشنی سے پورا ماحول بقع نور ہو جائے تو پھر دو اعمال پر عملداری بہت ضروری ہے۔

عمل صالح، شیریں گفتگو۔

بس ان دوباتوں پر عمل درآمد کر کے ہم سب اپنے ارد گرد کے ماحول کے لئے اپنی ذات کو قندیل نور بنا سکتے ہیں کہ جس کی روشنی سے علم والوں کے دل ایسے روشن ہو جائیں کہ ان کے لئے بھی اپنے علم پر چلنا یعنی عمل کرنا آسان ہو جائے۔ تو پھر یہ عمل کل سے کیوں؟ آئیے اپنے اپنے علم پر عمل کرنے کا آغاز آج سے ہی کرتے ہیں۔ تاکہ ماحول میں ہر سو روشنی ہی روشنی محسوس ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).