کراچی میں نئے ڈھب سے عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد


شہر کراچی میں علمی، ادبی، سماجی اور تفریحی سرگرمیوں میں سب سے زیادہ فعال ادارہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ہے۔ جہاں ہر روز ہی کوئی نہ کوئی تقریب کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ کہتے ہیں جب زندگی کے ہنگاموں اور دن بھر کی مصروفیات سے آپ اکتا جائیں، تھک جائیں اور سکون کی تلاش میں؟ ہوں تو شام کی کچھ ساعتیں آپ آرٹس کونسل میں گزارلیں۔ جوں ہی آپ اس پر شکوہ عمارت میں داخل ہوتے ہیں آپ کو ایک خوبصورت سا احساس ہوتا ہے یوں لگتا ہے کوئی بہت مخلص دوست باہیں کھولے آپ کا استقبال کر رہا ہے۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں گزشتہ بارہ برسوں سے تواتر کے ساتھ منعقد ہونے والی عالمی اردو کانفرنس جب اپنی تیرہویں بہار پر پہنچی تو نئے ڈھب کے ساتھ منعقد ہوئی۔ ہم نے اس موضوع پر کچھ عرصہ پہلے جب یہ کانفرنس شروع نہیں ہوئی تھی تو ایک تحریر میں ذکر کیا تھا کہ اس برس تیرہویں عالمی اردو کانفرنس کا مزاج کچھ تبدیل نظر آئے گا کیوں کہ ہم وبا کے دور سے گزر رہے ہیں پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے کہیں دوسری تو کہیں تیسری لہر لوگوں کا شکار کر رہی ہے۔

کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے کم از کم ہم مایوس تھے کہ ان حالات میں جب ہمارے شہر میں وبا کی دوسری لہر شدت اختیار کرتی جا رہی ہے کانفرنس کا انعقاد ممکن نہیں، دوسرا ہمارے ذہن میں ہر سال شہر میں انہی دنوں منعقد ہونے والی دوسری بڑی تقریبات بھی تھیں جو اس برس منعقد نہیں ہوئیں یا جن کے اعلانات اس بار نہیں ہوئے جن میں آئیڈیاز 2020، عالمی کتب میلہ، کراچی لٹریچر فیسٹیول اور عالمی مشاعرہ سر فہرست ہیں۔ پھر سب سے اہم بات کانفرنس میں تسلسل کے ساتھ شرکت کرنے والے ملکی و غیر ملکی مہمان اس بار فضائی سروس کی بندش اور کورونا وبا میں سفر کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے شریک نہ ہو پائیں گے۔

ان تمام گمانوں کے ساتھ ذہن کے ایک گوشے میں ایک سوال بھی جنم لیتا تھا کہ گزشتہ بارہ برسوں میں اس شہر نے کئی برس ایسے بھی جھیلے جب ہر طرف کشت و خون کا بازار گرم تھا ایک برس تو ایسا تھا کہ کانفرنس جاری تھی اور شہر گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سے گونج رہا تھا اور ایک شخص کہتا تھا کہ چاہے دو دن یہاں رکنا پڑ جائے، مرکزی دروازے بند کرنے پڑ جائیں کانفرنس اپنے دن پورے کرے گی اور پھر ہوا بھی ایسا ہی کانفرنس اپنے مقررہ دن پر ہی اختتام پر پہنچی اور وہ شخص تھے محمد احمد شاہ جو اس ادارے کے صدر تھے۔ تو احمد شاہ تو اب بھی صدر ہیں، بس یہی ایک سوال تھا جو امید ٹوٹنے نہیں دیتا تھا۔ کیوں کہ جب ان حالات میں جب جان کو خطرہ تھا کب کس سمت سے گولی آ کر لگ جائے تب کانفرنس ہوئی تو اب تو وبا کا دور ہے جس سے احتیاط کر کے بچا جا سکتا ہے۔

پھر یوں ہوا کہ سارے خدشوں اور گمان کا خاتمہ ہوا اور ماضی کی طرح اس بار پھر اس مرد قلندر محمد احمد شاہ نے وہی کیا اور ٹھان لی کہ یہ کانفرنس چاہے نئے ڈھب سے منعقد ہو لیکن یہ کانفرنس تین دسمبر سے چھ دسمبر تک ہو کر رہے گی۔ انہوں نے وڈیو پیغام کے ذریعہ جب یہ اعلان کیا تو ہمیں احساس ہو گیا کہ اب یہ کانفرنس منسوخ یا ملتوی ہونے والی نہیں۔ انہوں نے اعلان کرتے ہوئے کورونا کی تمام احتیاطی تدابیر کی ایس او پیز پر لازم عمل کرنے اور لوگوں کی محدود تعداد میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے رجسٹریشن کرنے کا اعلان بھی کیا اور ساتھ ہی کانفرنس کے شرکاء کے لیے کھلی جگہوں پر نشستوں کے اہتمام کا بھی کہا۔ ساتھ ہی سب سے اہم بات یہ بتائی کہ ہر سال دنیا بھر سے اور ملک کے دور دراز شہروں سے کانفرنس میں شرکت کرنے والے مہمان اس بار بھی ڈیجیٹلی طور پر آن لائن شرکت کریں گے اور کانفرنس کے تمام اجلاسوں کو سوشل میڈیا پر براہ راست دکھایا جائے گا۔

تین دسمبر کی سحر طلوع ہوئی دن چڑھنے لگا اور وہ وقت آ گیا کانفرنس کا افتتاحی اجلاس شروع ہوا، ماضی کی تمام بارہ کانفرنسوں سے یہ کانفرنس مختلف نظر آئی جہاں اس میں شہر کراچی کے باسی بڑی تعداد میں شرکت نہ کرسکے وہیں ہر سال کانفرنس میں شرکت کرنے والی بہت سی معزز شخصیات بھی کراچی آ کر اس میں شریک نا ہو سکیں۔ اس کانفرنس کی روایت رہی ہے کہ لوگ صبح سے ہی آرٹس کونسل میں ڈیرے ڈال لیتے تھے رات گئے تک رونق رہتی تھی۔

ہم نے تیرہ برس تک ان کانفرنسوں سے بہت کچھ سیکھا بہت کچھ دیکھا ہمیں یہاں ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہمیشہ نظر آتی تھی جو کئی اہم شخصیات کے ساتھ تصاویر بنوانے آتے تھے اس بار ان کی تعداد بھی کم تھی۔ جہاں پورا آرٹس کونسل کھچاکھچ بھرا ہوتا تھا تل دھرنے کی جگہ نظر نہیں آتی تھی۔ اس بار نشستیں خالی تھیں، گزشتہ برسوں میں ایک وقت میں تین تین اجلاس مختلف ہالوں میں ہوا کرتے تھے، اس بار ایک ہی وقت میں ایک اجلاس ایک ہی جگہ پر ہو رہا تھا، ماضی میں باہر لگی اسکرین کے سامنے بھی کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ملتی تھی، اس بار باہر لگی نشستیں بھی خالی نظر آ رہی تھیں۔ ظاہر ہے اس کی ایک ہی وجہ تھی اور وہ تھی کورونا کی وبا اور آرٹس کونسل کی انتظامیہ اپنے لوگوں کو اپنے شہریوں کو کسی طور بھی خطرے سے دوچار نہیں کرنا چاہتی تھی۔

عموماًً اس طرح کی بڑی اور عوامی تقریبات میں عوام کو شرکت سے روکا جاتا ہے تو اس کا رد عمل بھی آتا ہے، لوگ داخل ہونے کے لیے احتجاج کرتے ہیں۔ مگر الحمدللہ آرٹس کونسل کے دروازے کھلے ہونے کے باوجود عوام نے باشعور ہونے کا ثبوت دیا طبی ماہرین اور حکومت کی جانب سے بنائی گئی ایس او پیز پر عمل کیا اور آن لائن کانفرنس دیکھنے کو ترجیح دی۔ شاباش ہے آرٹس کونسل کے منتظمین کو جنہوں نے جدید تیکنالوجی کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے اس ڈیجیٹل کانفرنس کو دنیا بھر میں پہنچا دیا۔

اس آن لائن کانفرنس سے ناظرین کی تعداد ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک جاپہنچی۔ دنیا بھر سے وہی لوگ کانفرنس میں شامل ہوتے رہے جو ہمیشہ سے اس کا حصہ رہے۔ ایک کمال اور ہوا اس آن لائن کانفرنس میں جس کا ہمیں بارہ سالہ بخوبی مشاہد ہ رہا ہے کہ ایک عالمی مشاعرہ اور دوسرا انور مقصود صاحب کا اختتامی اجلاس، کانفرنس کے یہ دو اجلاس طویل اور عوام سے کچھا کھچ بھرے ہوئے ہوتے تھے۔ سچ پوچھیں تو ہم بھی کئی بار ایک گھنٹہ پہلے سے نشست گھیر کر بیٹھ جاتے تھے کہ بعد میں کھڑا نہ رہنے پڑے۔ اس بار عالمی مشاعرے نے خود ہی اپنا بارہ سالہ ریکارڈ توڑ دیا اور پانچ گھنٹے طویل رہا۔

گزشتہ برس کی طرح اس برس بھی کانفرنس میں جہاں اردو زبان کے کئی اجلاس رکھے گئے تھے وہیں دیگر زبانوں، سندھی، پشتو، پنجابی، بلوچی اور سرائیکی زبانوں کے بھی اجلاس منعقد ہوئے تھے۔ اس برس کانفرنس میں جو اجلاس ہوئے ان میں بیاد آصف فرخی، کتابوں کی رونمائی، نوجوانوں کا مشاعرہ، اردو نظم سو برس کا قصہ، اردو ناول کی ایک صدی، نعتیہ اور رثائی ادب کی ایک صدی، سرائیکی تریمت کل، آج، بلوچی زبان و ادب کے سو برس، ہمارے ادب و سماج میں خواتین کا کردار، کہانی زندگی سے پہلے، پاکستان میں فنون کی صورتحال، محفل موسیقی، اردو افسانے کی ایک صدی، اردو غزل کا سو سالہ منظر نامہ، یاد رفتگان، پشتو زبان و ادب کے سو برس، پنجابی زبان و ادب کے سو سال، ہماری تعلیم کے سو برس، اردو صحافت کے سو برس، اردو کا شاہکار مزاح، اردو تحقیق و تنقید کے سو برس، سندھی زبان و ادب کے سو برس، اردو میں ایک صدی کا نثری ادب، یارک شائر ادبی فورم اور بچوں کا ادب۔

گزشتہ برس کی طرح اس برس بھی کانفرنس میں ریڈیو سے متعلق کوئی اجلاس نہیں رکھا گیا، جب کہ کانفرنس میں شامل تمام فنکاروں، صداکاروں کی پہلی درس گاہ ریڈیو پاکستان ہی رہی ہے۔ ریڈیو سے محبت کرنے والے لوگوں نے اس بار بھی شدت سے اس کمی کو محسوس کیا۔ کیوں کہ یہ ہمارے وطن کا اہم ادارہ ہے، گزشتہ دنوں رضا علی عابدی صاحب جو کہ خود ریڈیو کے آدمی ہیں اپنے ایک کالم میں کیا خوب لکھا تھا کہ کسی بھی ملک کی فضاوں میں اس کے تین اہم ادارے ہوتے ہیں جو فضا کا سفر کرتے ہوئے اپنی مملکت کی ترجمانی کرتے ہیں ان میں ایک قومی ٹیلیویژن، دوسرا قومی جہاز اور تیسرا قومی ریڈیو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تینوں پریشان حال ہیں۔ اگر اسی طرح ہم اپنے ان اہم اداروں سے منہ پھیر لیں گے ان کو بھول جائیں گے تو تباہی کے سو کچھ نہیں ہو سکتا ۔ چلیں صاحب کہتے ہیں مایوسی کفر ہے تو ایک بار پھر امید باندھے لیتے ہیں کہ اگلے برس شاید ریڈیو کے حوالے سے ایک اجلاس رکھ لیا جائے۔

اس برس کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں انور مقصود صاحب نے بھی صرف مزاح پر بات نہ کی بلکہ وبا کے حوالے سے بہت سنجیدہ گفتگو کرتے ہوئے وبا کے اس دور میں لازم احتیاط کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا، سنا ہے جب کہیں آفت یا وبا آتی ہے تو پرندے وہاں سے کوچ کر جاتے ہیں، درخت سوکھ جاتے ہیں، جانور راتوں کو منہ اٹھا کر روتے سنائی دیتے ہیں تو پتا لگ جاتا ہے کہ کوئی آفت یا وبا آنے کو ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں درختوں کو کاٹ دیا گیا، جب درخت نہ رہے پرندے پہلے ہی کوچ کرگئے، جانوروں میں کتے ہی بچے اور بھلا وہ کیوں روئیں گے انہیں تو گلی محلوں میں انسان کے بچوں کا نرم و نازک گوشت نوچ کر کھانے کو مل جاتا ہے جس سے بچے تو مر جاتے ہیں مگر ان کی زندگی طویل ہوجاتی ہے۔

بلاشبہ اللہ تعالی ٰ جب بھی انسان کو آزمائش میں ڈالتا ہے، مشکل سے گزارتا ہے تو ساتھ میں آسانی بھی پیدا کردیتا ہے، اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ مشکل میں سے آسانیاں تلاش کرے۔ جیسا کہ محمد احمد شاہ نے کیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ دنیا سے جلد اس وبا کا خاتمہ ہو اور زندگی مکمل بحال ہو جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).