پنجابی کو جاگنا ہی ہو گا


آپ پنجاب کی بات کریں تو لاہور اور ملتان کے بعد فیصل آباد یاد کیا جاتا ہے۔ اس انڈسٹریل شہر کے علاوہ ساہیوال اور سرگودھا سمیت چند دیگر شہر امرتسر اور جالندھر وغیرہ سے کسان لا کر آباد کیے گئے اور اس کا مقصد لاہور اور ملتان کے درمیان پھیلی پنجاب کی ان زمینوں کو آباد کرنا تھا۔ بہت سی رعایتیں دینے کے علاوہ انگریز سرکار نے کسانوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگلے چند سال تک یہ زمینیں ان کی ملکیت بن جائیں گی۔ پندرہ برس گزرے تو 1907 میں انگریز حکومت نے نہ صرف زمینیوں کی ملکیت کسانوں کو دینے سے انکار کر دیا، بلکہ ٹیکس وغیرہ بڑھانے کے علاوہ زمینوں کے ان مزارعوں پر کچھ پابندیاں بھی لگائیں۔

انگریز سرکار نے 15 سال میں 20 لاکھ ایکڑ زمین پر کی گئی سرمایہ کاری واپس لینے کے علاوہ ہر سال کے 7 لاکھ روپے آبیانے کی مد میں وصول کیے۔ اس سے کسانوں میں بے چینی پھیل گئی اور وہ سب سے پہلے کانگریس کے پاس گئے۔ کانگریس نے بل پاس ہو چکنے کے سبب بے بسی ظاہر کی۔ کسانوں نے اجیت سنگھ کی بھارت ماتا سوسائٹی کو قبول کر کے جلوس اور تحریکیں چلائیں۔

اجیت سنگھ نے انگریز کے کالے بل کی سخت مخالفت کی۔ وہ اپنی تقریروں میں ایک تین فٹ کا ڈنڈا ساتھ لاتے تھے جس کے اوپر ترنگا جھنڈا لگا ہوتا تھا جو کہ تحریک کی علامت تھا۔ اجیت سنگھ کی تقریریں اور مقبولیت انگریز کے لیے درد سر بن گئیں۔ وہ اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے، ”انگریجاں نوں ایسے سوٹے نال کٹاں گے“ (انگریزوں کو اسی ڈنڈے سے ماریں گے ) ۔

تین مارچ 1907 کو ایک کسان ریلی میں بانکے دیال نے شہرۂ نظم ”پگڑی سنبھال او جٹا“ لکھی۔ پوری نظم کچھ یوں تھی:

پگڑی سنبھال او جٹا، پگڑی سنبھال اوئے
لٹ گیا مال تیرا، لٹ گیا مال اوئے
اوئے توں ساری دنیا دا داتا، تیریاں جیباں نے خالی
تیرے سر وچ پہ گیا ہنیرا، لوکاں کری دیوالی
تیرے بچے ددھوں ترسن، توں گاواں دا پالی
تیری دنیا وچ گلامی، توں ایں باغاں دا مالی اوئے
پگڑی سنبھال او جٹا۔

یہ نظم ہی اس تحریک کی علامت بن گئی اور آج بھی پاکستان میں اس دفن شدہ تاریخ کو ”پگڑی سنبھال جٹا تحریک“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد قوموں کی انفرادی تاریخ کو مسخ کیا گیا اور سب سے زیادہ موثر کارروائی پنجاب میں ہوئی جہاں اچھا پاکستانی ہونے کا مطلب اپنی قوم کی تاریخ سے ناآشنا اور بے نیاز ہونا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد ملک سمتیں بدلتا، نظام بدلتا، طبقاتی تقسیم کا شکار ہوتا، دایاں بازو تڑواتا، سوپر پاور بننے کے خواب دیکھتے ہوئے دلدلوں میں گرتا اس مقام پر پہنچ گیا کہ نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کے خلاف تقاریر میں ایک نیا نعرہ ایجاد کیا اور یہ تھا، ”جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ۔“ ۔ یہ نعرہ آج کے غدار، کل کے محب وطن اور تین دفعہ کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کا تھا۔

کمال کی بات یہ ہے کہ اس وقت کے رطب اللسان آج ان کے مخالف بن چکے ہیں اور اشتہاری سے نیچے کسی سزا پر راضی بھی نہیں ہیں۔ اب جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگانے والے یہی شریف لوگ ہیں جو ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی اور موجودہ ہائبرڈ نظام سے نجات کے لئے کوشاں ہیں۔ دیکھیے کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

نجانے کیوں ہمارے بہت سے عقلمند حضرات تک بھی یہ سوچ کر نون لیگ کے حامی ہیں کہ خان عبدالولی خان نے فرمایا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری لڑائی ایک پنجابی خاتون لڑیں گی۔ اس سے مراد مریم نواز ہوتی ہیں۔ دل یہی کرتا ہے کہ Game of Thrones کی سرخ خاتون کی پیشین گوئیوں کی مثال دینے کے بعد مریم صاحبہ کی سیاسی بصیرت پر بھی تبصرہ کیا جائے لیکن خوف آتا ہے اس وقت سے جب اس تبصرے کو تبدیلی سرکار کی حمایت مانا جائے۔ ہم خود تبدیلی سرکار کی پالیسیوں سے ناراض بلکہ نا امید ہیں لیکن ہم اس پرانے پاکستان کے بھی حامی نہیں ہیں۔

پاکستان کو نیا یا پرانا کہنا ہی زیادتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیوں میں کسی حقیقی تبدیلی لانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے اور توڑ پھوڑ سے کسی۔ مسئلے حقیقی حل نہیں ہے۔ اصل تبدیلی تب آئے گی جب پنجابی جاگے گا۔ میں یہ رائے بنا کسی جذباتی کیفیت میں آئے دے رہا ہوں۔ جس دن پنجابی نے جذبات کی بجائے تحقیق سے کام لینا شروع کر دیا، ملک کے سارے مسائل کے پیچھے چھپی خلائی مخلوق بے نقاب ہو گئی، پنجابی کو پشتونوں کا خون، بلوچوں کی آہ و زاریاں اور کشمیر اور گلگت سے آتی آہ و پکار سنائی دینے لگی، ملک میں مجرمانہ سیاست کے پیچھے کارفرما معاشی ڈھانچہ صاف صاف دکھ گیا، اس دن وفاق کی پنجاب سے منتخب ہوتی 181 سیٹوں پر وہی بیٹھیں گے جو حق دار ہوں گے اور حکومت وہی کرے گا جو عوامی سیاست کرتا ہوا۔ پنجاب آدھا پاکستان ہے، بڑا بھائی ہے۔ اسے شعوری سفر طے کر کے ملک کے وسیع تر مفاد میں عوامی سیاست کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔ پنجابی کو جاگنا ہی ہو گا، ورنہ باقی صوبے بھی چپ اور بے بس ہی رہیں گے اور کوفہ کی طرح پنجاب بھی بزدلی کا استعارہ بن کر رہ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).