کنیز فاطمہ کو گھر بسانا ہے۔ چوتھی قسط


جمیلہ کے بچوں کے نام فلموں کی ہیرو ہیروئنوں کے نام پر تھے دیبا، زیبا اور شاہد۔ جب کہ کنیز کے بچوں کے نام ان کے سسر نے قرآنی حروف سے رکھے۔ زینت، عفت، شفاعت، محمد زمان۔

سسر ہومیو پیتھ ڈاکٹر اور شاعر تھے، بینائی جاتی رہی تھی۔ ان کا مطب بھی گھر میں ہی تھا۔ شیشی کی بناوٹ سے پہچان جاتے تھے کہ کون سی دوا ہے۔ مریض یا گھر کے کسی فرد سے کنفرم کرنے کے بعد اسی سے میٹھی گولیوں میں حسب ضرورت قطرے ڈلواتے۔

پرچے پر اندازے سے ٹیڑھی میڑھی لائنوں میں اشعار بھی خود لکھتے بعد میں کسی کو بھی پکڑ کر شعر سناتے اور غزلوں کی کاپی پر تازہ غزل کی نقل کرنے کو کہتے۔ ان کاموں کے لیے عام طور پر کنیز فاطمہ ہی دستیاب رہتی تھیں۔

شوہر محکمۂ آب پاشی میں ملازم تھے، ان کا ٹرانسفر کسی دور افتادہ گاؤں میں ہوا تو کنیز فاطمہ کو بھی ساتھ لے گئے۔ تین چھوٹی بیٹیاں، شیر خوار بیٹا اجنبی ماحول، شوہر صاحب صبح سویرے نکل جاتے، اور یہ سیلن زدہ گھر میں جانے کہاں کہاں سے آئے بچھوؤں کو مارتی رہتیں۔ ہر وقت بچوں کے تحفظ کی فکر دامن گیر رہتی۔

شوہر دوستانہ مزاج رکھتے تھے، بہت جلد لوگ ان کے دوست بن جاتے سو آفس سے واپسی پر کوئی نہ کوئی ان کے ساتھ ہوتا۔ آتے ہی چائے اور پھر کھانے کا حکم۔ کنیز فاطمہ جانے کیسے یہ سب بھی بنا کسی شکوے شکایت، یا بازار سے کسی سودا سلف کی فرمائش کے جو بھی گھر میں میسر ہوتا بنا کر شوہر کے ہاتھ میں ٹرے تھما دیتیں۔ دوست بھابی کے کھانوں، ہنر، اور سلیقہ مندی کی تعریف کرتے اور شوہر نامدار بیوی کی تعریفوں کو اپنا کوئی کارنامہ سمجھ کر اکڑ جاتے۔

پھر کنیز فاطمہ کے میاں بے روز گار ہو گئے۔ کنیز فاطمہ کو سسرال میں چھوڑ کر خود نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگے۔ کنیز فاطمہ پھر سے بنا اجرت کے پرانی نوکری پر آ گئیں۔

خاندانی لوگ تو نوکرانی سے بھی اچھا سلوک کرتے ہیں، جس برتن میں خود کھاتے ہیں اسے بھی کھلاتے ہیں۔ اس کے بچوں کے عید بقرعید پر کپڑے بھی بنا دیتے ہیں۔ کنیز عام گھرانوں کی بہوؤں کی طرح اذانوں سے پہلے اٹھ کر، رات کو آخری فرد کے سونے تک بھاگ بھاگ کر کام کرتیں اور بستر پر گرتے ہی سو جاتیں۔ رات کو سات آٹھ گھنٹے سونے دینا بھی سسرال کی بہت بڑی دریا دلی اور یہ ہی ان کی اجرت تھی۔ ہر آئے گئے سے اپنی تعریف انہیں بونس لگا کرتی، ان کی انرجی میں سو گنا مزید اضافہ ہو جاتا۔

بچوں کی پڑھائی ان کے کاموں میں اول نمبر پر تھی۔ انہیں کتاب، سلیٹ، بتی تھما کر تختی، قلم اور اپنی آنکھیں دکھا کر لکڑیاں سلگاتیں، چمٹا لیے الٹے قدموں آ کر بچوں کو دیکھتیں، تھوڑا پوچھتیں زیادہ بتاتیں، ساتھ ساتھ چمٹا بھی مارنے کی دھمکی دے کر بار بار بلند کرتیں، تیزی سے پلٹتیں، الٹے توے پر پتلی پتلی روٹیاں سینکتیں، سل پر لہسن مرچوں کی چٹنی بناتیں۔ میاں بے روز گار، نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے اور بچوں کی کفالت کو بوجھ کسی پر پڑے، مگر بوجھ تو تھا، لہذا اب سسرال کا دل جیتنے کے لیے گھر بھر کے کپڑے بھی دھونا شروع کر دیے۔ بیماری، آزاری، نزلہ، کھانسی یا پیٹ سے ہوں، کبھی کسی کام میں ناغہ نہ آیا۔ روزانہ شام کو ان کی نند جمیلہ آ کر ان پر طنزیہ فقرے کستیں، حکم چلاتیں۔

کنیز فاطمہ کی منجھلی بیٹی ماں کے ساتھ ظلم دیکھتی، تو بھڑک اٹھتی۔ مگر کنیز فاطمہ کا ایک ہی جواب ہوتا، دیکھو، سب کتنی تعریف کرتے ہیں میری

مگر وہ جمیلہ پھپو! وہ کیسے مذاق اڑاتی ہیں آپ کا۔
مذاق نہیں اڑاتیں، تمہیں ایسا لگتا ہے۔ مذاقیہ فطرت ہے اس کی۔

ہمیں بھی بلاوجہ مارتی رہتی ہیں۔ ہر وقت اپنے کام کراتی ہیں ہم سے۔ اپنے گھر سے میلے کپڑوں کا گٹھڑ لے آتی ہیں۔ آپ کیوں دھوتی ہیں ان کے کپڑے۔ ہم چولہے میں پھینک دیں گے وہ سب کپڑے۔

کنیز فاطمہ نے ادھر ادھر دیکھا بری طرح ڈر گئیں۔ منجھلی بہت ذہین اور بہادر تھی۔ اس کی یہ خوبی، اس کے لیے عذاب بن گئی تھی۔ باہر کے سارے کام اس سے کروائے جاتے۔ اکثر چھوٹی پھپھی زبیدہ اس کے ہاتھ میں پرچہ تھما کر نکڑ والے قیوم سے کچھ چیز لانے کو کہتی۔ ایک روز قیوم نے خالی لفافے میں دو نوکیلے پہاڑ ڈال کر اس کے ہاتھ میں تھما دیے۔ مارے تجسس اس نے گلی میں ہی خاکی تھیلے سے وہ نوکیلے پہاڑ نکال لیے یہ پہاڑ ہینڈل سے ٹکے ہوئے تھے۔ وہ اس کے دونوں ہینڈل کو پرس کی مانند لٹکا کر گھر پہنچی، تو عذاب آ گیا۔ سب سے پہلے چچا نے دیکھ کر دو تھپڑ رسید کیے۔ روتی ہوئی زبیدہ کے پاس پہنچی اس نے اس کی کمر پر چار دھموکے مزید جڑ دیے کہ لفافہ کھولا کیوں۔

بس ایسی ہی کتنی باتوں کی وجہ سے منجھلی گھر بھر سے پٹا کرتی۔ جمیلہ اور کنیز فاطمہ کی بیٹیاں ایک ہی اسکول میں پڑھتی تھیں۔ دیبا زیبا دونوں ہی بہت خوب صورت تھیں، جو بھی پہنتیں ان پر خوب جچتا۔ جمیلہ ان کے پہنے ہوئے نئے نئے کپڑے اپنی بھا بی بیگم کو دے دیا کرتیں۔ بھابی بیگم اکثر تو انہیں کپڑوں میں نیچے چمکدار لیس لگا کر عید پر پہنا دیا کرتیں۔ جمیلہ بیگم کی بڑی بیٹی تو بڑی صابر تھی لیکن منجھلی والی چھوٹی عید پر ماں کی اس دھوکہ دہی کو برداشت نہ کر سکی۔ بس آپ کہہ دیں کہ یہ زیبا دیبا کے ہیں ہم پہن لیں گے۔ نہیں یہ آپ کے پاپا لائے ہیں۔

کنیز فاطمہ کو پتہ تھا، منجھلی سچ سن کیا کرے گی۔ جی پاپا لائے ہیں مگر لیس جو آپ نے لگائی ہے۔ اس نے کنیز فاطمہ کو ایسا زچ کیا کہ کنیز فاطمہ کو سچ بتا نا ہی پڑا۔

منجھلی نے عید کے روز وہ فراک پہنی، سب کی نظروں کو بھی پڑھا، زیبا دیبا کی آنکھوں میں بھی کچھ تلاش کیا لیکن جب جمیلہ پھپو نے اسے دیکھ کر اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کی تو وہ بھاگ کر اپنی رپورٹ کارڈ لے آئی۔

”دیکھیے جمیلہ پھپو باجی پاس ہو گئی اور میں فرسٹ آئی ہوں۔ پھپو آپ بتائیں نہ سب کو دیبا، زیبا کا رزلٹ بتائیں نہ“ ۔

اور جمیلہ کو بتا نا ہی پڑا کہ وہ دونوں فیل ہو گئی ہیں۔
تب سے پھپھی بھتیجی میں ایک خاموش جنگ کا آغاز ہو گیا۔

دو سال بعد کنیز فاطمہ کے میاں کو جاب ملی تو وہ بیوی بچوں کو لے کر دوسرے شہر چلے گئے۔ سکون مئسر آیا مگر کوکھ ہر دو سال، تین سال بعد بھرتی اور خالی ہوتی رہی۔

کسی نے پوچھا ”آپ نے سوچا نہیں کہ بچے کم ہوں“ ۔ کہنے لگیں۔ آج کی عورت بہت ذہین اور ہوشیار ہے۔ ہمارے زمانے میں بھی فیملی پلاننگ ہوتی تھی، لوگ کرتے تھے۔ ہمیں تو جب پتہ چلتا، ہم بچہ گرانے کے لیے خوب وزن اٹھاتے، بھاگتے دوڑتے، چھلانگیں لگاتے، کسی بھی اونچی جگہ سے دھم سے فرش پر کودتے۔ کوئی احتیاط تو کجا ہر وہ کام کرتے جو اس حالت میں منع ہوتے ہیں۔ کسی نے کہا کتھا کھاؤ، کسی نے میٹھا سوڈا پھانکنے کا بتایا، سبھی کے مشوروں پر عمل کیا مگر لگتا ہے ان سب حرکتوں سے بچہ پیٹ کے اندر اور بھی مضبوط ہو جا تا تھا۔ اب تک پانچ بیٹیاں، دو بیٹے ہو چکے تھے، سرکاری کالونی میں سرکاری مکان ملنے تک، عارضی طور پر خیرپور کے شہر لقمان میں علامہ عرفان حیدر عابدی کے بڑے سے مکان کو کرائے پر لیا۔ ان کے کچے صحن میں ہی ذوالجناح بندھا ہوتا۔ اسی صحن سے محرم کا جلوس تشکیل پا کر باہر نکلا کرتا۔

کنیز فاطمہ جب تک سسرال میں رہیں انہیں حسرت ہی رہی کہ شیعوں کا جلوس دیکھیں۔ سسر بند نظر تو ہو چکے تھے، لیکن تنگ نظر ہمیشہ سے تھے۔ جب بھی سڑک سے جلوس گزرتا، ہذیانی انداز سے چیخنا شروع کر دیتے۔ کوئی چھت پر نہیں جائے گا، کوئی چھت پر نہیں جائے گا، بدعت ہے جلوس دیکھنا۔ سخت گناہ ملے گا، سب جہنم میں جاؤ گے۔

سب سے فرمانبردار، اور اپنی نندوں کی سہولت کار کنیز فاطمہ تھیں۔ اپنے سسر کو باتوں میں لگائے رکھتیں، اور گھر کے سب ہی افراد چھت پر جا کر جلوس کی زیارت کرتے۔ اور بچوں کے ہاتھ میں شربت کی سبیل سے شربت لا نے کے لیے جگ بھی تھماتے۔ کنیز فاطمہ اپنے ہاتھوں سے سسر کو شربت کے دو گلاس بھی پیش کرتیں۔

سسر بڑا خوش ہوتے۔ مگر اس ذائقے والا شربت سسر کی لاکھ فرمائش کے باوجود کنیز فاطمہ سال میں ایک بار ہی بناتیں۔

اب تو گھر سے ہی تعزیہ اٹھتا تھا۔ اسی اثنا میں امید سے بھی ہو گئیں، اور بیٹی کی صورت میں امید بر بھی آئی اب آٹھ بچے ہو چکے تھے۔ سب حیرت کرتے تھے کہ اتنی چھوٹی سی عمر اور آٹھ بچے!

کنیز فاطمہ اندر ہی اندر خوف زدہ ہو جاتیں، نظر نہ لگ جائے کہیں۔

عید بقرعید پر سسرال آنا ہوتا، ٹرین میں اجنبی عورتوں کو چار بچے اپنے اور چار اپنی مرحوم بہن کے ظاہر کرتیں۔

منجھلی نے پوچھا۔ ہم میں سے کون آپ کی بہن کے بچے ہیں؟ جواب دیا تم سب ہی میرے بچے ہو، پر لوگ حیرتے ہیں، نظر لگ جائے گی اس لیے ایسا کہتی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments