جنید جمشید: گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا


(جنید جمشید نے بھائی صاحب سے مصافحہ کیا، میں جو ہاتھ سینے پر باندھے بیٹھا ہوا تھا، اس ساری صورت حال پر ایک نگاہ ڈالی، مگر کوئی حرکت نہ کی)

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں گیارہویں یا بارہویں جماعت میں تھا کورس کی کتاب میں میر کی مشہور زمانہ غزل،

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا

شامل تھی، اردو کی خاتون لیکچرر طالب علموں کو اس غزل کی تشریح بیان کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہیں تھیں، مگر میری سوئی اس شعر پر آ کر اٹک گئی۔

‎دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
‎گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا
کچھ دیر کی مغز ماری کے بعد معنی تو سمجھ آ گئے لیکن میں شاید مفہوم پوری طرح جذب نہ کر سکا۔

وقت گزر گیا، بارہویں جماعت میں کامیاب ہو گیا، مگر مطلوبہ نمبر حاصل نہ کر سکا، بے دلی سے آگے پڑھنے کے لیے داخلہ لیا، کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا کرنا ہے، کبھی دل میں خیال آتا کہ پڑھائی چھوڑ کر کوئی ہنر سیکھ لوں، عجب مایوسی کا دور تھا، طبیعت مکدر رہتی تھی، کہیں آنے جانے کا دل نہیں کرتا تھا ہر کوئی پوچھتا تھا کہ مستقبل کے کیا ارادے ہیں ان سوالات سے بچنے کے لیے میل ملاپ کم کر دیا تھا، ہمارے ہاں بھی عجیب روایت ہے کہ اگر کوئی انٹرمیڈیٹ میں امتیازی نمبر نہ لے سکے تو سمجھا جاتا ہے کہ اس سے بڑا نالائق دنیا میں کوئی پیدا ہی نہ ہوا ہو گا۔

انہی دنوں رشتہ داروں میں کسی کی شادی تھی، بڑے بھائی کے بے حد اصرار پر، جو ہر ایسے موقع پر جانے کے لیے تیار رہتے ہیں، میں چلنے پر راضی ہو گیا، غالباً ڈیفنس کے کسی شادی ہال میں جانا تھا غلطی ہم نے یہ کی کہ دعوت نامے پر دیے گئے وقت پر پہنچ گئے، لہذا کیٹرنگ اسٹاف کی مدد سے اپنے لیے نشستوں کا انتظام کرنا پڑا اور اس کے بعد الوؤں کی طرح میزبانوں کا انتظار کرنے لگے، اس وقت دنیا میں ہم سے بڑا فارغ مجھے کوئی نہ لگا، اسی اثنا میں میزبان بھی آ گئے، کچھ دیر بعد مجھے حیرت ہوئی کہ محترم جنید جمشید صاحب بھی اپنی اہلیہ، بچے اور ملازمہ کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں، میں اس وقت میز پر بیٹھا تھا میرے بھائی مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑے تھے، جنید جمشید نے بھائی صاحب سے مصافحہ کیا، میں جو ہاتھ سینے پر باندہے بیٹھا ہوا تھا، اس ساری صورت حال پر ایک نگاہ ڈالی، مگر میں نے کوئی حرکت نہ کی۔

شاد عظیم آبادی نے کہا تھا
‎یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
‎جو بڑھ کرخود اٹھالے ہاتھ میں وہ جام اسی کا ہے

لیکن میں چونکہ اس کیفیت میں تھا کہ ہاتھ بڑھانے کے باوجود جام میرے ہاتھ نہیں آیا تھا (یہ الگ بات کہ زندگی میں جتنے بڑے جام میرے ہاتھ آئے ان کے لیے میں نے کبھی ہاتھ نہیں بڑھایا) اسی لیے محتاط تھا، اس ڈر سے کہ ہاتھ بڑھاؤں اور جنید جمشید نظر انداز کر دیں یا دیکھ نہ سکیں اور میں خجالت محسوس کروں، میں نے حرکت نہ کی اور یوں ہی ہاتھ باندھے بیٹھا رہا، لیکن کچھ ہی دیر میں، میری حیرت کا ٹھکانہ نہ رہا جب جنید جمشید میری طرف بڑھے مصافحہ کیا اور مخصوص انداز میں حال احوال پوچھا، میرے لیے ان کا یہ انداز متحیر کر دینے والا تھا، یاد رہے یہ وہ دور تھا جب جنید جمشید میں، مذہبی حوالے سے ابھی تبدیلی نہیں آئی تھی، وہ وائٹل سائنز سے علیحدہ اپنی پہچان بنا چکے تھے اور بلاشبہ پاکستانی پاپ انڈسٹری کے بے تاج بادشاہ کی حیثیت رکھتے تھے، اور میں اس وقت کچھ بھی نہیں تھا ( گو کہ آج بھی میری اس حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے)۔ ہاتھ ملا کر وہ مجھ سے چند قدم آگے اپنے اہل و عیال کے ساتھ بیٹھ گئے جو ایک میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے، ان کا بچہ جس نے ابھی شاید چلنا سیکھا تھا ہر اس جگہ جانے کی کوشش کر رہا تھا جہاں جانے سے اسے روکا جا رہا تھا۔

میری یہ چند لمحوں کی ملاقات، جنید جمشید سے پہلی اور آخری ملاقات ثابت ہوئی اور اس کے بعد میں کبھی ان سے نہ مل سکا، لیکن اس مختصر سی ملاقات کے بعد مجھ میں کچھ اعتماد پیدا ہوا اور اپنی اہمیت کا احساس ہوا، جس کے نتیجے میں مزاج میں چھائی ہوئی مایوسی اور کاہلی کافی حد تک کم ہو گئی۔

حالات نے کروٹ بدلی اور میں صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میڈیا سے وابستہ ہو گیا، پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران میں نے کئی سیاست دانوں، کھلاڑیوں، ادیبوں، گلوکاروں، فنکاروں علماء و دانشوروں سے ملاقات کی انٹرویو بھی کیے لیکن اتفاق سے جنید جمشید سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔

اس دوران جنید جمشید نے اپنی فکر کو یکسر تبدیل کر لیا، شوبز کو مکمل طور پر خیر آباد کہنے کے بعد تبلیغ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، ان کے نام کے برانڈ کو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہوئی، ان پر تنقید بھی بہت ہوئی، باوجود اس کے کہ میں تبلیغی جماعت کے طریقہ کار سے کچھ خاص اتفاق نہیں کرتا، لیکن مجھے ان پر نکتہ چینی کرنا کبھی اچھا نہیں لگا، شاید اس کی وجہ لاشعوری طور پر وہ مصافحہ تھا جو کئی سال پہلے انہوں نے مجھ سے کیا تھا۔

کئی برس اور بیت گئے، زندگی نے ایک بار پھر پہلو بدلا اور میں نے ہزاروں میل دور، اس دور افتادہ جزیرے کے خوب صورت شہر ملبورن میں پڑاؤ ڈال لیا اور ایک نئے میدان کو اپنے لیے ہموار کرنے کی کوششوں میں جٹ گیا، یہاں آتے ہی تبلیغی جماعت والوں سے بھی مڈ بھیڑ ہو گئی، جو اکثر و بیشتر دین کی دعوت دیتے، لیکن ان کا طریقہ کار مجھے کبھی متاثر نہ کر سکا، تاہم اخلاق سے ملنے کے باعث ان کو کبھی آنے سے واضح طور پر منع بھی نہیں کیا، کبھی دعوت دیتے ہوئے کہتے کہ سعید انور بھائی آرہے ہیں، کبھی عرب سے عالم آ رہے ہیں، کبھی بیرون ملک سے کوئی جماعت آ رہی ہے، وغیرہ وغیرہ، لیکن دل میں کہیں خواہش چھپی ہوئی تھی کہ اگر جنید جمشید آئے تو مل کر مصافحہ کا قرض اتاردوں۔

پھر چند ہفتوں پہلے اہلیہ نے ناشتے کی میز پر، پرجوش انداز میں خبر دی کہ جے۔ جے کی ایک بہت بڑی بوتیک گھر کے قریب کھل رہی ہے، میں نے جان بوجھ کر خبر کو کوئی اہمیت نہ دی کہ کہیں جیب پر ڈاکہ ہی نہ پڑ جائے، لیکن بیگم کا برا سا منہ بنتے دیکھ کر مسکرا دیا، استفسار کے بعد پتہ چلا کہ محلے کی مارکیٹ سے ذرا پہلے، موٹر سائیکلوں کی مشہور کمپنی ”ہارلے ڈیوڈسن“ کے شوروم کے بغل میں کافی بڑی جگہ حاصل کی گئی ہے، اگلے دن بازار جانے کے لیے اسٹور کے سامنے سے گزرا تو دیکھا کہ تین یا چار بڑی دکانوں کو ملا کر ایک وسیع بوتیک کھولی جا رہی ہے جس کی پیشانی پر دودھیا رنگ کا جہازی سائز بورڈ آویزاں تھا، سیاہ رنگ کے جلی حروف میں، منفرد انداز سے جے ڈاٹ کنندہ تھا، ساتھ ہی لکھا تھا ’کمنگ سون‘ ، بیگم صاحبہ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر، کار کی پچھلی نشست پر بیٹھی اپنی بیٹی کو قدرے جوشیلے انداز میں کہا کہ دیکھو جے۔ جے۔

اس نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں اور مخصوص انداز میں پوچھا کہ ابو، جے۔ جے کیا ہے؟ میں نے کہا جنید جمشید، اس نے ایسے سر ہلایا جیسے سب سمجھ گئی ہو، بچوں سے بات کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہم ان کے سامنے ان احساسات کا بے دھڑک اظہار کر سکتے ہیں جو کسی اور کے سامنے کرنے سے جھجھکتے ہیں اور بعض اوقات بچوں سے آپ کو ایسے مشورے بھی مل جائیں گے جو شاید کسی دانا سے بھی نہ ملیں۔ دل میں کہیں یہ خیال بھی آیا کہ چلو بوتیک کے افتتاح پر، گرم جوشی سے مصافحہ کر کے حساب برابر کر دوں گا۔

سات دسمبر 2016 کی رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے سی این این کی بریکنگ نیوز کا نوٹیفیکیشن فون پر جگمگایا، دیکھا تو لکھا تھا، پاپ سنگر پلٹ مبلغ، جنید جمشید، پاکستان میں ہونے والے فضائی حادثہ کے مسافروں میں شامل تھے، لائیو فیڈذ چیک کرنا شروع کیں، دل مزید بوجھل ہو گیا، پچھلی بار ائر بلو کے فضائی حادثے میں یونیورسٹی کی ایک ہم جماعت ہم میں نہ رہی جو شادی کے فوراً بعد اپنے شوہر کے ساتھ ہنی مون پر جا رہی تھیں، اس بار طیارے میں حادثے کے شکار افراد سے میرا کوئی براہ راست تعلق تو نہ تھا مگر رات کو معلوم نہیں کیوں پر سکون نیند نہ آسکی۔

اگلے دن آسمان صبح سے ہی اشک فشانی کر رہا تھا پتہ نہیں شاید طیارے کے حادثہ میں مرنے والوں کے لئے، اور ملبورن کا موسم حسب معمول کسی ہرجائی محبوب کی طرح رنگ بدل رہا تھا، کبھی جھکڑ، کبھی دھوپ، کبھی بارش، شام کو بیگم صاحبہ کا حکم ہوا کہ بازار سے کچھ سودا سلف لا دیں، گاڑی اسٹارٹ کی بچوں سے پوچھا کہ اگر چلنا ہے؟ وہ فوراً تیار ہو گئے، گاڑی چلاتے ہوئے، بیٹی نے آواز لگائی، ابو، جے۔ جے! یہ بچوں کی عادت ہے، میں جب بھی ان کو کسی چیز کے بارے میں بتاؤں تو اگلی دفعہ اس کو دیکھ کر ضرور نشاندہی کریں گے، اس بار بھی ایسا ہی ہوا میں نے چونک کر باہر جھانکا، کار جے۔جے کے بوتیک کے آگے سے گزر رہی تھی، دودھیا سائن بورڈ پر لکھی ’کمنگ سون‘ کی تحریر میرا منہ چڑا رہی تھی، ہوا کے چھوٹے چھوٹے بگولے، ردی اور دھول مٹی کو، بوتیک کی راہداری میں طواف کروا رہے تھے، اس بار بیٹے نے پوچھا، جے۔ جے کیا ہے؟ میری بیٹی نے حیرت سے بھائی کو ایسے دیکھا جیسے اس کی کم علمی پر تعجب ہو رہا ہو اور اترا کر بولی، ’جنید جمشید‘ ، میرے بیٹے نے ایسے اثبات میں سر ہلایا جیسے سب سمجھ گیا ہو، مجھے بے اختیار ان کے اس معصومانہ انداز پر ہنسی آ گئی، پر، نہ جانے کہاں سے میری آنکھوں میں نمی بھی اتر آئی، لیکن، غیر متوقع طور پر میں نے، نہ صرف، آنکھوں میں آنے والی نمی کو، بلکہ، برسوں پہلے میر کے نہ سمجھ میں آنے والے شعر کے مفہوم کو، پوری معنویت کے ساتھ، چند ساعتوں میں جذب کر لیا۔

‎دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
‎گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).