سرمائے کو مراعات اور مزدور؟


دو ہفتے قبل وزیراعظم عمران خان نے فیصل آباد کا دورہ کیا جہاں انہوں نے فیصل آباد چیمبر آف کامرس کے زیر انتظام ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے ایوب خان کی پالیسی کو سراہا اور ذوالفقار علی بھٹو کی صنعتیں قومیانے کے عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سرمایہ کاروں کو یہ نوید بھی سنادی کہ وہ پیسہ لگائیں اور ڈریں نہیں۔ اس موقع پر انہوں نے سرمایہ کاروں کو امپورٹ ڈیوٹی میں رعایت اور ٹیکس ریفنڈ کی بھی فوری ادائیگی کے لیے یقین دہانی کروائی۔ انہوں نے فیصل آباد کے صنعت کاروں اور تاجروں کے حل کے لیے دو وفاقی اور صوبائی وزراء پر مشتمل کمیٹی بھی تشکیل دے دی۔ ایکسپورٹرز اور تاجر برادری سے خطاب کے دوران وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی فیصل آباد کے لئے 13 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا۔

وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سرمائے کو تحفظ اور مراعات دے کر لوٹے ہی تھے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، جن کی شناخت ہی آج تک طے ہو سکی کہ وہ وسیم اکرم پلس ہیں، شیر شاہ سوری سوئم ہیں یا پھر عثمان بزدار ہیں؟ ، نے صنعتی اداروں میں لیبر انسپیکشن پر پابندی لگانے کا فیصلہ صادر فرما دیا۔ اس کے علاوہ ورکرز کے پارٹیسپیشن فنڈ اپنے کنڑول میں کرنے اور سوشل سیکورٹی کے ہسپتالوں کو عام مریضوں کے لیے بھی کھول دیے گیا ہے۔

اس کے کیا منفی اثرات ہوں گے اس پر پاکستان مزدور محاذ کے سیکرٹری جنرل شوکت چوہدری سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ شوکت چوہدری بتاتے ہیں کہ فیکٹریوں کی لیبر انسپیکشن پر پابندی پرویز مشرف کے دور میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز الہی نے بھی عائد کی تھی جو بارہ سال تک قائم رہی، جسے بعد میں شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب اس وقت ختم کیا جب سندر انڈسٹریل اسٹیٹ مانگا منڈی اور لاہور ملتان روڈ کی ایک فیکٹری میں رونما ہونے والے حادثات کے نتیجے میں درجنوں مزدور ہلاک اورزخمی ہوئے تھے۔ ان واقعات کے بعد لیبر انسپیکشن پر پابندی کے خلاف پورے ملک میں اٹھنے والی احتجاجی آوازوں کے بعد اس پابندی کو ختم کر دیا گیا تھا۔

پاکستان میں رائج دیگر قوانین کی طرح لیبر قوانین بھی انہی کا حصہ ہیں جو پاکستان کو آزادی کے بعد برطانیہ سے ورثے میں ملے ہیں اور ان میں بہت کم رد و بدل ہوا ہے۔ پاکستان کا مزدور طبقہ اور اس شعبے کے ماہرین عرصہ دراز سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ پاکستان کے لیبر قوانین کو آج کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے اور ان کی تعداد 70 قوانین سے زیادہ ہے اسے کم کیا جائے اور بقول ماہرین قانون ایسا ممکن ہے لیکن آج تک کسی بھی حکومت نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی ہے۔

ویسے تو پاکستان میں لیبر قوانین پر عمل درآمد کی صورتحال کوئی زیادہ تسلی بخش نہیں ہے لیکن اگر پھر بھی اگرقانون موجود ہوتو کسی نہ کسی صورت محنت کشوں کو کبھی نہ کبھی ریلیف مل جاتا ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں پاکستان کے حکمران طبقے کی سوئی رکتی ہے تو لیبر انسپیکشن کے خاتمے پر۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ محکمہ لیبر اور لیبر انسپکٹر اپنے فرائض انجام دینے میں کوئی عمدہ مثال قائم نہیں کرسکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جیسا بھی ہے انسپیکشن کا یہ نظام غنیمت تصور کیا جاتا ہے۔

اب اسے ہر حکومت تختہ مشق کیوں بناتی ہے اس کی وجہ بظاہر یہ ہی کہ اس سے فیکٹریوں کے اندر کے تمام تر حالات لیبر انسپکٹر کے سامنے آ جاتے ہیں۔ جن میں اداروں میں بچوں سے کام لینا، ملازمین تقرری نامہ نہ دینا، کم از کم تنخواہ کے قانون پر عمل نہ کرنا، ملازمین کی سوشل سیکورٹی اور ای و بی آئی میں رجسٹریشن نہ کروانا، کارخانوں اور فیکٹریوں میں صحت، صفائی اور حفاظتی تدابیر کا اختیار نہ کیا جانا۔ ملازمین سے آٹھ گھنٹے کی بجائے نو یا دس گھنٹے کام لینا اور انھیں قانون کے مطابق اوور ٹائم نہ دینا۔ خواتین ورکرز کو مرد ملازمین کے مقابلے میں کم اجرت دینا، وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کے حکمران ایم این اے حضرات ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے ہو، خود کسی قانون پر عمل درآمد قابل نہیں ہیں۔

ویسے لیبر انسپیکشن آئی ایل او کی کنونشن 81 کے تحت آتی ہے اور پاکستان نے آئی ایل او کے دیگر کنونشن کی طرح اس کنونشن پر بھی دستخط کیے ہوئے ہیں اور اس کے باجود اس کی موجودگی میں اگر پنجاب یا مرکزی حکومت میں سے کوئی بھی لیبر انسپیکن پر پابندی لگاتی ہے تو یہ آئی ایل او کنونشن کی خلاف ورزی ہوگی۔ جس پر اگر آئی ایل او ایکشن لے تو پاکستان کی برآمدات خواہ وہ جی ایس پی پلس، کے حوالے سے ہو یا اس کے علاوہ ہو تو وہ متاثر ہو سکتی ہیں۔

اس صورت میں اگر وہ متاثر ہوتی ہیں تو پاکستان کی پہلے سے کمزور معیشت کیا یہ برداشت کر پائے گی؟ اس کا جواب ظاہر ہے نفی میں ہ۔ بہتر ہوگا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے صنعت کاروں اور ایم این ایز کو خوش کرنے کی بجائے پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے بارے میں سوچیں اور پنجاب کے کروڑوں محنت کشوں کے قانونی حقوق کا تحفظ کریں۔

بنیادی طور پر پاکستان میں سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام اپنی بد ترین شکل میں قائم ہیں۔ ایک جانب جاگیرداروں کا استحصالانہ رویہ ہے اور دوسری جانب سرمایہ داروں کی حرص منافع۔ جب کہ محنت کش اپنی اس اجرت کے لے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے جس سے اس کی زندگی میں آسودگی پیدا ہو سکے۔ سرمائے اور محنت کے اسی تضاد کو کارل مارکس نے اپنے فلسفے کی بنیاد بنایا تھا۔ ہمارے شاعر مشرق نے ابھی اپنی کتاب علم الاقتصاد میں غربت کی تباہ کاریوں اور سرمائے کی طاقت کو بیان کیا ہے۔ معروف دانشور، مفکر اور سماجی سائنسداں محمود مرزا اپنی تحریوں میں اکثریہ لکھا کرتے تھے کہ پاکستان میں جب تک جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا تسلط نہیں ٹوٹے گا اس وقت تک نہ تو حقیقی جمہوریت ممکن ہے نہ سماجی اور معاشی انصاف۔

پس تحریر: حکومت نے پمز ہسپتال اسلام آباد میں مریضوں کے مفت علاج کی سہولت ختم کرتے ہوئے ٹیسٹوں سمیت تمام قسم کے علاج کے نرخ مقرر کردیے ہیں۔ جو صنعت، تعلیم، ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے کو بھی سو فیصدی نجی شعبے کے سپرد کرنا چاہتی ہے۔ حکومت جس کا دعویٰ مفت علاج کا تھا آج وہ دعویٰ بھی زمین بوس ہوا۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).